اس دور میں ہٹ دھرمی میں سر
فہرست اور منظم معصوم بےگناہ لوگوں کے قاتل دو ممالک کا نام آتا ہے جنہیں
دنیا ہندوستان اور اسرائیل کے نام سے پہچانتی ہے۔ اسرائیل امریکہ اور تاج
برطانیہ کی اولاد ہے۔ جسے ان دونوں نے فلسطینیوں کے خون سے پروان چڑھایا۔
اس کو سردی گرمی اور عربوں کے غیظ وغضب سب سے بھی محفوظ رکھا۔
دراصل یہ عربوں کی امریکہ اور تاج برطانیہ سے خفیہ تعلقات کا انعام ہے۔ آخر
عربوں کو خلافت سے آزادی بھی تو دلوائی تھی اور آزاد ملک کی بادشاہت بھی تو
دلوائی تھی۔ ایسے میں اس نوزائیدہ بچے کی نشونما میں جو بھی حائل ہوا اسے
انقلاب کے نام پر اقتدار سے محروم کر دیا گیا۔ تاکہ اس بچے کو کوئی نقصان
پہچنے کا اندیشہ بھی ہو۔
اب یہ پچہ تو جوان ہو گیا ہے اور ضدی بھی ہے۔ اب فطری تقاضہ پورے کرنے ایک
ہمدم اور ساتھی بھی تو چاہیے تھا جس سے اپنے دل کی بات کہے۔ وہ اسے
ہندوستان کی شکل میں مل گیا اوراب یہ معاشقہ عروج پر ہے جسکی اسکے بڑوں نے
بھی ہمت افزائی کی۔
اس معاشقے سے ہندوستان نے فائدہ اٹھایا اور بالکل اسی انداز میں مسلم دشمنی
شروع کر دی جیسے اسرائیل روا رکھتا ہے۔ ہٹ دھرمی کا انداز ویسا ہی ہے۔ وہ
بھی بے گناہ مسلمانوں کے خون میں لتھڑا ہوا ہے ادھر اس کا دامن بھی مسلم
خون سے رنگین ہے۔
ان ممالک کی بدمعاشیاں شیطانی رخ اختیار کر چکی ہیں۔ مسلمان ملکوں کے
اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت کر کے اسکی ترقی اور تعمیر میں براہ راست
مداخلت کے مرتکب بھی ہیں۔ ادھر پاکستان کے ٹکڑے کرنے میں براہ راست فوجی
کاروائی کا مرتکب ہے اب افغانستان سے ملحق پاکستانی علاقوں میں بغاوت
پھیلانے کا ارتکاب کر رہا ہے۔
کیا اقوام متحدہ اور دیگر ادارے صرف بد معاش ریاستوں کا تحفظ ہی کریں گے۔
اور یہ ممالک اپنے بڑوں کی شہ پر مسلمان ملکوں کے اندرونی معاملات میں جب
چاہیں کھلی اور مخفی مداخلت کریں۔ جسکی چاہیں تنصیبات تباہ کریں جس کا
چاہیں بند باندھ کر پانی بند کر کے صحرا میں تبدیل کر دیں انہیں مکلمل
آزادی اور تحفظ حاصل ہے۔
فلسطینیوں کی ناکہ بندی کر کے آبادی کو قحط میں مبتلا کر کے صابرہ شتیلہ
کیمپوں کی کہانی دہرائیں۔ جہاں پہلے قحط سے دوچار کیا اور رات کی تاریکیوں
میں قتل عام کر کے بلڈوزروں سے روند کر دفنا دیا۔
اس نے اب پھر غزا کی ناکہ بندی کر دی ہے اور امدادی سامان لے جانے والے
قافلے پر حملہ کر کے بیس افراد کو قتل کردیا جو فلسطینیوں کے لیے غزائی اور
تعمیراتی اجناس لے کر جا رہا تھا۔
کیا اس ہٹ دھرمی پر اسرائیل قابل سزا نہیں۔ امن کے چمپئین ممالک سے سوال
ہے۔اقوام متحدہ اور او آئی سی سے سوال ہے۔ کیا کردار ہونا چاہیے اس ہٹ
دھرمی کے خلاف اور مسلم ریاستوں کے تحفظ کے کیا اقدامات کیے جانے چاہئیں
وقت کا تقاضہ ہے۔
فلسطین میں مسلمان جانی خطرے سے دوچار ہیں۔ احتجاج سے ان ممالک پر کوئی اثر
نہیں ہوتا عملی اقدام اور سزا انہیں اس بدمعاشی سے روک سکتی ہے۔ |