افغان طالبان نے مذاکرات سے انکارکرکے
امریکاافغانستان سمیت چین اورپاکستان کوبھی تشویش میں
مبتلاکردیاہے۔پاکستانی مشیر خارجہ کی جانب سے امریکامیں دیاگیا بیان بھی
مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ سمجھاجارہاہے جس میں انہوں نے عالمی میڈیا میں یہ
بیان دیاتھاکہ ہم طالبان پرکچھ اثررکھتے ہیں،یہاں پران کاعلاج ہورہا
ہے،اگروہ ایسانہیں کریں گے توہم ان کاعلاج معالجہ بند کرکے ان کوملک بدر کر
دیں گے۔اس بے وقت بیان پرطالبان نہ صرف خاصے ناراض ہیں بلکہ طالبان ذرائع
نے بتایاکہ ہماری شوریٰ اور ہمارے تمام اہم رہنماء سارے افغانستان میں ہیں
۔پاکستان ایک اسلامی ملک اوراس کے عوام ہمیں حقیقی بھائیوں سے زیادہ
عزیزہیں اوران کی امن کی تمام کوششوں کی دل سے قدر کرتے ہیں تاہم افغانوں
نے نہ پہلے دھمکی پرمذاکرات کئے ہیں اورنہ اب کریں گے ۔ امریکاگزشتہ چودہ
برسوں سے دہمکیوں پر دہمکیاں دے رہاہے،اڑتالیس ممالک کے ساتھ مل کر بھی
طالبان کاکچھ نہیں بگاڑسکا،تواب کیاکرلے گا؟طالبان کو عوام کی حمائت حاصل
ہے،دہمکی دھونس سے کام نہیں چلے گا۔ مذاکرات کیلئے کم ازکم دوشرائط ہیں جن
میں قیدیوں کی رہائی اورافغان طالبان رہنماؤں کی سفری پابندیاں ختم
کرناشامل ہیں۔
باوثوق ذرائع کے مطابق افغان طالبان کی جانب سے مذاکرات سے انکارکے بعد
افغانستان کے طول و عرض میں نہ صرف نئے حملے شروع ہوگئے ہیں بلکہ اس حوالے
سے افغان طالبان نے موسم بہارمیں بڑی کاروائیوں کی تیاریاں بھی شروع کردی
ہیں۔ حقانی نیٹ ورک کے ذرائع کے مطابق جس طرح مذاکرات کیلئے خلوصِ نیت سے
چین اورپاکستان نے کوششیں کی ہیں اور افغان حکومت اور امریکاجس طرح دہمکیاں
دے رہے ہیں،اس کے بعدمذاکرات توہرگزنہیں ہوسکتے اورنہ ہی اس طرز،عمل سے
افغان طالبان کومرعوب کیاجاسکتاہے۔ہم پہلے بھی امن کے حق میں تھے اورآج بھی
اورہمارا افغانستان کے باہرکوئی ایجنڈانہیں ہے اس لئے افغان مزاحمت کاروں
کے ساتھ مذاکرات مشکل نہیں تاہم امریکا مذاکرات نہیں چاہتاکیونکہ امریکا
دہمکیاں دیتاہے۔ابھی چنددن پہلے امریکی ڈیپارٹمنٹ نے دہمکی دی ہے کہ وہ
افغانستان سے اپنی فوج نہیں نکالے گا۔طالبان ذرائع نے اس بیان کافوری نوٹس
لیتے ہوئے جواب دیاہے کہ اگرامریکاافغانستان سے نہیں نکلنا چاہتاتونہ نکلے
مگریادرکھے کہ جس طرح پچھلے چودہ برس سے اپنی سرزمین کو آزاد کرانے کیلئے
جہاد جاری ہے،اب اگلے چودہ برس کیلئے بھی ہم تیارہیں کیونکہ ہمارے پاس
کھونے کیلئے کچھ نہیں جبکہ امریکامزیدتباہی برداشت نہیں کرپائے گا کہ اس کی
معیشت کی زبوں حالی اب ساری دنیاکے سامنے ہے۔
دراصل امریکامذاکرات کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہاہے ،دھمکیوں سے کام نہیں
چلے گااورنہ ہی حقانی نیٹ ورک سے مذاکرات قبول کئے جائیں گے۔ دوسری جانب
امریکی محکمہ خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ اگرطالبان مذاکرات کیلئے
آمادہ نہیں توامریکانہ صرف افغانستان میں اپنے قیام کی مدت بڑھا دے گا بلکہ
اپنی افواج میں بھی اضافہ کردے گا اس لئے افغان طالبان فوری طور پرمذاکرات
کی میزپرآئیں جبکہ طالبان ذرائع نے انکشاف کیاہے کہ حال ہی میں امریکانے
افغانستان میں مزیددو ہزار فوجی تعینات کئے ہیں جو کہ عالمی برادری کے ساتھ
کئے گئے وعدے کی بھی خلاف ورزی ہے۔اس طرح طالبان کامؤقف درست ثابت ہواہے کہ
امریکاانتہائی ناقابل یقین ہے اوراب توکوئی بھی امن مذاکرات کیلئے امریکاکے
رویے کی ضمانت دینے کیلئے تیارنہیں۔
دوسری جانب افغانستان میں خونریزلڑائی کی وجہ سے جنوب اورجنوب مشرقی
افغانستان سے انخلاء پر لوگوں نے غورشروع کردیاہے کیونکہ طالبان اور امریکا
کے درمیان مذاکرات کاعمل ٹوٹنے کےبعدامریکا ایک بارپھرافغانستان میں
کاروائی شروع کر سکتا ہے جس سے آئندہ افغانستان میں خونریزتصادم شروع ہو
سکتاہے۔امریکی دہمکیوں کے بعد طالبان نے اپنی نئی حکمت عملی ترتیب دیکر
اپنے کمانڈروں کو مکمل تیاررہنے کاحکم دے دیاہے اورعنقریب ہی امریکی افواج
کے خلاف بڑی کاروائیوں کا خدشہ مزید بڑھ گیاہے۔ ذرائع کے مطابق ایران کے
ساتھ امریکی معاملات طے ہونے کے بعدامریکاایران کی جانب سے مطمئن ہیں،اس
لئے وہ افغانستان میں مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں بڑے پیمانے پرآپریشن
شروع کرسکتے ہیں جبکہ تازہ دم دو ہزار فوجیوں کی حالیہ کھیپ کی آمداسی عزم
کی چغلی کھاتاہے جبکہ امریکاکاکہناہے کہ اس نے اس تازہ دم کھیپ کوافغان فوج
کو تربیت دینے کیلئے تعینات کیاگیاہے جبکہ طالبان کاکہناہے کہ ہمارامؤقف
درست ثابت ہواہے کہ امریکاافغانستان سے نکلنے کیلئے بالکل مخلص نہیں بلکہ
افغانستان میں اپنے قیام کو بڑھانے کیلئے مختلف بہانوں سے کام لیتارہے گا
تاہم ایران کی طرف سے
اطمینان حاصل کرنے کے باوجودموجودہ افغان حکومت مزیدجنگ کی قطعاً متحمل
نہیں ہوسکتے، اس لئے افغان حکومت کی شدید خواہش ہے کہ طالبان کے ساتھ
مذاکرات جلدسے جلدشروع ہوں ،اس کیلئے گزشتہ دنوں افغان صدراشرف غنی نے
افغان طالبان کی جانب سے امن مذاکرات میں شرکت نہ کرنے کے اعلان کے بعدایک
مرتبہ پھرطالبان کوامن مذاکرات پرآنے کی درخواست کررہاہے۔
حال ہی میں کابل میں موسم سرماکی چھٹیوں کے بعدشروع ہونے والے پارلیمنٹ کے
افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اشرف غنی نے کہاکہ اگرطالبان افغان ہیں
توانہیں امن کے عمل میں شامل ہوناچاہئے۔انہوں نے کہاکہ لوگوں کوقتل کرنا
اسلام کے خلاف ہے۔افغان صدرنے کہاکہ ہمیں بدترین حالات کاسامناکرنے کیلئے
تیاررہناچاہئے لیکن مشکل حالات کے باوجود میں اب بھی امن کیلئے پر امید
ہوں۔افغانستان امن چاہتاہے اوران کی خواہش ہے کہ ملک میں پائیدارامن قائم
ہو۔انہوں نے دعویٰ کیاکہ دشمن کوسردی میں سیکورٹی فورسزنے بغلان اور غزنی
میں بہت نقصان پہنچایاہے ۔گزشتہ چندماہ میں سیکورٹی فورسزکے درمیان تعاون
میں اضافہ ہواہے اورگزشتہ سال خواتین بھی فوج میں شامل ہوئی ہیں ۔
افغانستان واحدملک ہے جہاں سے داعش بھاگ رہی ہے اوریہ ملک ان کیلئے قبرستان
بن گیا ہے۔انہوں نے مزید کہا پاکستان اورافغانستان کوایک جیسے مسائل
کاسامنا ہے۔ افغانستان میں جنگ القاعدہ نے شروع کی تھی جوافغان نہیں تھے ۔
انہوں نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ سیکورٹی فورسز کے ساتھ کھڑے ہوں تاکہ
افغانستان میں امن قائم کیاجاسکے!
ادھردوسری طرف افغان فورسزکے لڑائی کے بغیرہی ارزگان کے وسطی اضلاع کی چیک
پوسٹیں بھی خالی کرکے پسپاہوگئیں ہیں ۔عالمی ذرائع ابلاغ کاکہناہے کہ
اسٹرٹیجک پسپائی سے ثابت ہوگیا کہ افغانستان کاکنٹرول اشرف غنی کے ہاتھ سے
نکل رہا ہے۔ سیکورٹی فورسزکی اس غیرمعمولی پسپائی کی وجہ سے طالبان کی
دوبارہ ان پرقبضے کی راہیں ہموارہوگئیں ہیں۔حال ہی میں سیکورٹی فورسزارزگان
کے اضلاع میں بھی اپنی چیک پوسٹیں خالی کرکے بھاگ چکی ہیں جبکہ اس سے قبل
موسیٰ قلعہ اورنوزاد کاعلاقہ پہلے ہی خالی کیاجا چکا ہے ۔ ایسے موقع پرجب
جب افغان حکومت اورطالبان میں مذاکرات کی بحالی کیلئے دباؤ بڑھتا جارہا ہے
۔ افیون کی پیداوارکیلئے معروف علاقوں کو اشرف غنی حکومت خفیہ معاہدوں کے
نتیجے میں خالی کررہی ہیں۔
ادہرپارلیمنٹ سے خطاب میں اشرف غنی نے داعش کوننگرہارمیں مکمل شکست دینے کا
اعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ ایک بار پھر طالبان کوامن مذاکرات میں جنگ وامن
میں سے کسی ایک کاانتخاب کرنا ہوگا۔امن واستحکام کیلئے افغانستان میں اتفاق
رائے موجودہے،مشکل حالات کے باوجود میں امن کیلئے پرامیدہوں لیکن بدترین
حالات کاسامناکرنے کیلئے بھی تیارہیں۔ اشرف غنی سے علماء کونسل کے وفدنے
مولوی قیام الدین کاشاف کی سربراہی میں ملاقات کی۔اس موقع پرعلماء نے
عسکریت پسندوں سے مفاہمتی عمل میں شمولیت کی اپیل کی ۔مولوی ذبیح اللہ نے
کہاکہ تمام فریق مفاہمتی عمل آگے بڑھائیں۔ افغان صدرکا کہنا تھاکہ ان کی
حکومت نے امن مذاکرات کیلئے پیشگی شرائط نہیں رکھی لیکن دیکھنایہ ہے کہ وہ
افغان طالبان جنہوں نے شجاعت کے ایسے کارنامے سرانجام دیئے ہیں جن کوسن کر
قرونِ اولیٰ کے مسلمانون کی یادتازہ ہوجاتی ہے اوردنیاکی سب سے بڑی فرعونی
قوت اوراس کے اتحادیوں کوایسے لوہے کے چنے چبوائے ہیں کہ آج بھی اس کے
جہاز''سی ون تھرٹی'' رات کی تاریکی میں اپنی ''رسوائی کے تابوت''چھپاکرلے
جارہے ہیں ۔ |