معصوم خون سے ایسا وضو
اقبال کا سارا گلشن لہو لہو
اے مالک ارض و فلک
آخر کب تلک۔۔۔کب تلک
6:40منٹ پر امن کے دشمنوں اور پسپادہشت گردوں نے داتا کی نگری اور اقبال کے
گلشن میں مسکراہٹ بکھیرتی زندگیوں کو پل بھر میں اپنی سفاکیت،حیوانیت اور
بربریت کا نشانہ بنایا زندہ دلان لاہورکی رونقیں ماند پڑھ گئیں،زندگی رک سی
گئی ،فضائیں افسردہ اور رنجیدہ شہر ماتم کناں تھا،ہر آنکھ اشکبار تھی، آہ
وبکا اور سسکیوں کا اک ہجوم تھاگلشن کے تباہ اور ویران ہوجانے سے امیدیں
اور حسرتیں دم توڑ رہی تھیں۔خوشیوں اور مسرتوں کے جھولوں پر زندگی اپنی آب
وتاب کے ساتھ چمک رہی تھی اقبال کے گلشن میں مرد،خواتین ،ننھے منے بچے
ہنستی مسکراتی کلیاں اپنے پیاروں کے ساتھ چھٹی کہ دن زندگی کی رنگینیوں سے
محبتوں کے پھول بکھیر رہے تھے،مائیں اپنے جگر گوشوں کو ہنستے مسکراتے اور
اٹکھلیاں کرتے ہوئے حیرت اور یاس کے بوسے دیے جا رہی تھیں ان کو نہ خبر تھی
اور ن گمان کے دہشت گردان معصوم کھلونوں کو مسل ڈالے گابزدل دشمن ایسا وار
کرے گا کہ روح بھی کانپ اٹھے گی دشمن کی چال سے بے خبر مستقبل کے سہانے
خواب اپنے آنکھوں میں لیے ہوئے ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سو گے اقبال کا شہر
جہاں اس نے شاہنوں کے لیے اسلامی مملکت کا خواب دیکھا تھا،اقبال کی اس حسین
آمجگاہ کہ شہر کو لہو لہوکر دیا گیا۔
بچوں کی مقبول ترین تفریح گاہ گلشن اقبال پارک کے گیٹ نمبر1کے نزدیک جہاں
پر زندگی مسکرا رہی تھی مسرتیں ،خوشیاں ہی خوشیاں تھیں ایک گرج دار دھماکہ
ہوتاہے یک دم زندگی کی رعنایاں ماند پڑھ جاتی ہیں ہر طرف چیخ وپکار ہر دل
دھل جاتاہے ،دماغ چکر ا جاتاہے نفسانفسی کا عالم ہے ہر کوئی اپنے پیاروں کو
ڈھونڈ رہا ہے لیکن ان کو کیا پتہ کہ دشمن نے ان کے پیاروں کو موت کے گھاٹ
اتار دیا ہے جہاں کچھ دیر پہلے زندگی مسکرا رہی تھی وہاں اب لاشوں کے ڈھیر
تھے ،کمزور اور نحیف آوازیں تھیں گلشن اقبال پارک میدان حشر بن گیاراکھ ہی
راکھ تھی ہر طرف انسانی اعضا ء بکھیرے پڑے تھے،کہیں پہ دھڑ سر سے جدا ہوگے
تھے اور کہیں بازوں اپنے شانوں سے الگ ہو گے،کہیں کسی کا ہاتھ تھا اورکہیں
کٹی جلی ہوئی ٹانگیں تھیں میدان بھی انسانیت کی اس بے حرمتی اور پامالی پر
پناہ مانگ رہا ہوگا۔کہیں ننھے منے بچے ابدی نیند سوگے،کہیں مائیں اپنی
اولاد کی حسرتیں لیے دنیا کو خیر آباد کر گئیں کہیں والد اپنے بڑھاپے کے
واحد سہار اکوکھونے میں حیرانگی و پشیمانی کی تصویر بن کر رہ گیا،کہیں
بیٹوں نے اپنے والدین کو آخری ہچکی لیتے ہوئے دیکھا، کہی بہنیوں کواپنے
بھائی کو سہراسجانے کی خوشی ،امید مایوسی اور دکھ میں بدل مگرامن اور
انسانیت کے دشمنوں کہ دل نرم نہ پڑھے،کوئی آندھی نہیں چلی،زمین نہیں
پھٹی،آسمان نہیں ٹوٹا پورا پاکستان ایک سوگ کی کیفیت میں مبتلا ہو گیاشہر
لاہور میں ہر ایک کی آنکھوں میں آنسو ؤں کی لڑیاں تھیں ہسپتالوں میں ،پارک
میں ہر کوئی اپنے پیاروں کے گلے لگ کے رو رہا تھامائیں اپنے بچوں کی زندگی
دعائیں مانگ رہی تھیں ۔کوئی توروئے لپٹ کر جواں لاشوں سے ۔۔۔اسی لیئے وہ
بیٹوں کو مائیں دیتا ہے ان رقت آمیز مناظر نے سب کو ہلا کر رکھ دیا مگر
افسوس گلشن پارک جو بچوں کھلونوں اور تتلیوں کا باغ تھا میں7خواتین 29بچوں
سمیت 72 معصوم شہری لقمہ اجل بنے جن میں 14مسیح بھی شامل ہیں اور 200سے
زائد زخمی ہوئے اس سانحہ میں دو ایسے خاندان ہیں جن میں تو قیامت صغری ٹوٹ
پڑی ان میں ایک ہی گھر کے 8افراد دشمن کی بربریت کا نشانہ بنے اور دوسرا
سانگھڑ سے لاہور اپنے رشتہ داروں کہ ہاں آنے والی فیملی کہ 4افراد دہشت
گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اقبال ٹاؤن میں چوتھی بار دہشت گردی کا یہ دالخراش
واقعہ پیش آیا2008ء میں اسی گلشن اقبال پارک کے قریب مون مارکیٹ میں خود
کش دھماکہ ہواتھا جس میں پولیس اہلکاروں سمیت 20کے قریب لوگ شہید ہوئے
تھے2009ء میں اسی مون مارکیٹ کہ اندر پے درپے خود کش دھماکے ہوئے جس کے
نتیجے میں 70کے قریب شہری لقمہ اجل بنے تھے۔گزشتہ کئی عرصے سے پاک سرزمین
دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ رہی ہے کبھی پشاور میں معصوم شہریوں اور فورسز کو
نشانہ بنایا جاتاہے تو کبھی کراچی جیسے بڑے معاشی شہر میں دن دہاڑے زندگی
چھینی جا رہی ہے ،کبھی بلوچستان اور کوئٹہ کی بستیوں کو اجاڑا جاتا ہے تو
کبھی اسلام آباد کی پرامن فضا کو خراب کیا جاتا ہے ،کبھی راولپنڈی جیسے شہر
میں دہشت پھیلائی جاتی ہے ،کبھی میری درسگاہوں سے علم کے نور کو بے نور
کرنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے کبھی مسجدوں ،امام بارگاہوں،چرچوں اور عبادت
گاہوں میں خلل ڈھال کر زندگی کو اجیرن بنا دیا گیا اب میری گلیوں ،کوچوں
میں وحشت اور تفریح گاہوں کو ویران کیا جارہاہے پاکستان میں اب کوئی بھی
اپنے آ پ کو محفوظ نہیں سمجھ رہاہر طرف انتشار،بوکھلاہٹ،بے یقینی اور عدم
اعتماد کی سی کیفیت ہے ۔دہشت گردی کی جنگ میں قوم ستر ہرازار جانوں کا
نذرانہ دے چکی ہے آخر کب تک معصوم لوگوں کا ناحق خون اسی طرح بہتا رہے
گا،آخرکب تک ہماری فورسز اپنے خون سے آپریشن کو پروان چڑھاتی رہیں گی آخر
کب تک دہشت گردی کا یہ ناسور اپنے انجام کو پہنچے گا۔دہشت گردی کے واقعہ سے
حکمرانوں کے عوام کے جان ومال کے تحفظ کہ فول پروف انتظامات کے دعوے بے
نقاب ہو گے تفریح پارک میں دھماکہ اور قیمتی جانوں کا ضیاع حکمرانوں کی نا
اہلی اور غلط پالیسوں کا کھلا ثبوت ہے اتنی پرہجوم جگہ میں سیکیورٹی کا نہ
ہونا حکومت کی ناکامی ہے اس سانحہ میں را کا عمل دخل بھی لگتاہے کیونکہ کچھ
دن پہلے ہی را کے آفسر کو گرفتار کیا گیاتھایہ اس بات کا رد عمل بھی ہو
سکتاہے تاہم حکومت کو اپنی پالیسوں میں نظر ثانی کرتے ہوئے عوام کے جان کہ
تحفظ کو یقینی بنائے اگر شروع سے ہی حکومت پنجاب حیلے بہانوں سے کام نہ
لیتی اور نیشنل ایکشن پلان کے تحت آپریشن کیا جاتا تواتنا بڑا جانی نقصان
نہ ہوتاہماری بہادر فوج دفاع اور جارحیت کے خلاف بھرپور صلاحیت رکھتی ہے
اور وہ اندورنی و بیرونی دہشت گردی کے خلاف برسرپیکار ہے اس لیے قوم اور
سول حکومت کو عسکری قیادت کا ساتھ دینا ہوگا تاکہ دہشت گردی کا قلعہ قمع
کیاجاسکے اور خون کی ہولی کھیلنے والے اپنے کیفے کردار تک پہنچ سکیں دہشت
گردوں اوران کے سہولت کاروں کو بھی عبرت ناک سزا دی جاسکے۔نفرت اور منافرت
پھیلانے والوں کا سدباب ہو سکے۔ |