’’جمالِ خلیل ‘‘کا دل کش جمال
(Dr. Muhammed Husain Mushahi Razvi, Hyderabad)
خلیل العلماءحضرت مفتی خلیل احمد خان قادری
برکاتی نور اللہ مرقدہٗ کو میں اپنے بچپن سے اُن کی اطفالِ اہل سنت کی دینی
و اسلامی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے سوال و جواب کی صورت میں تحریر
فرمودہ معرکہ آرا تصنیف ’’ہمارا اسلام‘‘ سے جانتا ہوں ۔ اس کتاب کوناظرہ
تعلیم کے دوران اپنے سینے سے لگاکررکھتے تھے۔ اس کتاب کی برکت و رحمت ہےکہ
بچپن ہی سے اسلام کے بنیادی عقائد اور ضروری مسائل سے آگاہی ہوئی۔ عمر کے
ساتھ ساتھ جب شعور پختہ ہوا تو گھر میں آپ کی گراں قدر تصنیف ’’سنّی بہشتی
زیور‘‘ بھی دیکھی ۔ واقعی حضور خلیل العلماء مفتی خلیل احمد خان برکاتی نور
اللہ مرقدہٗ نے بچوں اور خواتین کے لیے جو گراں قدر تصنیفات چھوڑی ہیں وہ
رہتی دنیا تک اہل سنت کے لیے ایک نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں کہلائیں گی۔
آپ کی ولادتِ باسعادت ۱۳۳۸ھ / ۱۹۲۰ء میں ہندوستان کے موضع کھریری، ریاست
دادوں ضلع علی گڑھ میںہوئی ۔آپ ۱۳۴۳ھ / ۱۹۲۳ء میں مارہرہ شریف آگئے جہاں
دنیا کی عظیم خانقاہ ، ہندوستان میں سلسلہ قادریہ کا مرکز، خانقاہ برکاتیہ
ہے، جو امام احمد رضاقادری برکاتی بریلوی کا پیر خانہ ہے۔ یہاں آپ کی تعلیم
کا آغاز ہوا۔ ۱۳۴۴ھ / ۱۹۲۶ء میں ۶ سال کی عمر میں اسکول میں داخل ہوئے اور
۱۳۵۲ھ / ۱۹۳۴ء میں مڈل پاس کیا۔ ۱۳۵۳ھ / ۱۹۳۵ء میں مدرسہ حافظیہ سعیدیہ،
دادوں(ہندوستان) میں درس نظامی کا آغاز کیا۔ مفتی صاحب کے اساتذہ میں امام
احمد رضا خاںقادری برکاتی بریلوی کے صاحب زادے مفتی اعظم ہند علامہ مفتی
محمد مصطفیٰ رضا خاںقادری برکاتی بریلوی اور شاگرد و خلیفہ صدرالشریعہ
علامہ امجد علی اعظمی جیسے کامل علما و فضلا تھے۔وہ ۱۳۵۶ھ / ۱۹۳۸ء میں تاج
العلماء حضرت سید شاہ اولاد رسول محمد میاں قادری قدس سرہٗ (م ۱۳۵۷ھ /
۱۹۵۷ء) کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے۔۱۳۷۰ھ / ۱۹۵۱ء میں مرشد گرامی نے
نیابتہً اجازت دی پھر احسن العلماء حضرت سیدمصطفیٰ حیدر حسن میاں صاحب
سجادہ نشین مارہرہ شریف نے تحریراً اجازت مرحمت فرمائی۱۳۷۳ھ / ۱۹۵۵ء میں
مفتیِ اعظم ہند قدس سرہٗ نے بھی چاروں سلاسل میں اجازت عنایت فرمادی ۔ آپ
حضور صدرالشریعہ قدس سرہٗ کے ممتاز اور قابلِ فخر تلامذہ میں سے تھے جن کا
تذکرہ خود صدرالشریعہ قدس سرہٗ نے اپنی شہرہٗ آفاق تصنیف’’ بہارِ شریعت ‘‘
میں فرمایا ہے۔
خلیل العلماء حضرت مفتی خلیل احمد خان قادری برکاتی نور اللہ مرقدہٗ بیک
وقت محدث ، مفسر ، مناظر ، مفتی ، مدرس مصنف،مترجم، منتظم، فقیہ ، واعظ
،اور مایۂ ناز شاعر بھی تھے۔ آپ کا اشہبِ قلم نثر و نظم دونوں ہی میدانوں
میں سر پٹ دوڑتا تھا۔ آپ نے تقریباً ۵۸ تصانیف و تراجم یادگار چھوڑی ہیں
جن میں سے دو تین کے علاوہ سب ہی شائع ہوچکی ہیں، مثلاً ترجمہ سبع سنابل
شریف، ہمای نماز، ہمارا اسلام، سنّی بہشتی زیور، عقائد اسلام، نور علیٰ
نور، فیصلٔہ ہفت مسئلہ ، ترجمہ تنبیہ الغافلین ، احسن الفتاویٰ وغیرہ وغیرہ
۔ تقریر و تحریرکے میدان میں نثر و نظم جیسی ہردواصنافِ ادب کے حوالے سے
خلیل العلماء حضرت مفتی خلیل احمد خان قادری برکاتی نور اللہ مرقدہٗ نے
اسلام و ایمان کی جو لہلہاتی فصلِ بہاراں اگائی ہے ، اُس سے مشامِ جان و
ایمان معطر و معنبر ہے۔ اس وقت میری تبصراتی کاوش کا عنوان آپ کی شعر گوئی
ہے۔آپ کے قلم کا شاعرانہ روپ بڑا نکھر اور ستھرا ہے ۔’’جمالِ خلیل‘‘ کے
عنوان سے نعت و منقبت اور غزل کا حسین گل دستہ آپ کے وارث و جانشین ،
عالمی مبلغِ اسلام ، فخر، رضویت ، محامد العلماء حضرت مفتی احمد میاں قادری
برکاتی دام ظلہٗ العالی نے مرتب فرماکر شائع کروادیا ہے جو اہل ذوق سے داد
و تحسین وصول کررہا ہے۔اس دل کش مجموعۂ کلام میں : ۱؍ حمدِ باریِ تعالیٰ ،
۳۳؍ نعتیہ کلام، ۶؍ نعتیہ قطعات، ۱ ؍ صلوٰۃ وسلام ، ۲۱؍ مناقب، ۱۴؍غزلیات
اور ۵؍ غزلیہ قطعات چار چاند لگائے ہوئے۔ جو عقیدہ و عقیدت کے ساتھ ساتھ
شعری محاسن سے لبریز ہیں ۔
حضرت خلیل العلماء شعر وادب کے رموزو اسرار سے آگاہ ایک قادرالکلام عالم و
فاضل شاعرکانام ہے۔ بہ قول مسعودِ ملت پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقش
بندی مجددی: ’’مفتی محمد خلیل خاں برکاتی طبقہ علما میں ممتاز تھے، وہ سخن
گو اور سخن سنج بھی تھے اور فن شعر میں خاص امتیاز رکھتے تھے۔ انہوں نے
مختلف اصناف سخن میں شاعری کی مثلاً:حمد، نعت، منقبت، غزل، قصیدہ، سہرا،
قطعہ، مسدس، مربع، وغیرہ۔ ان کی بعض غزلیں اور نعتیں تو مرصّع ہیں اور یہ
بات اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب شاعر زبان و بیان پر قدرت رکھتا ہو اور اس کے
خیالات میں روانی اور جذبات میں جولانی ہو۔ ان کے بعض مطلع اور مقطع بھی
خوب ہیں۔ ان کی شاعری بڑی و قیع ہے، اس میں تمام وہ خوبیاں موجود ہیں جو
ایک اچھی شاعری میں ہونی چاہئیں۔‘‘(جمال خلیل ۲۵)
روایت کے مطابق ’’جمالِ خلیل ‘‘ کا دروازۂ سخن حمدِ باریِ تعالیٰ سے وا
ہوتا ہے۔ خلیل العلماء قدس سرہٗ کی شخصیت شریعت و طریقت کا ایک حسین و جمیل
سنگم تھی۔آپ عشق و عرفان اور سلوک و معرفت کی اِک بلند منزل پر فائز تھے۔
آپ کے موے قلم سے نکلے ہوئے حمدیہ اشعار اللہ جل شانہٗ کی قدرتِ کاملہ ،
رحیمی و کریمی،اور بخشش و عطا وغیرہ صفات کا خوب صورت شعری پیکر میں اظہار
کرتے ہوئے اپنی عاجزی و انکساری اور غلامی و بندگی کا اعتراف کرتے ہوئے ربِ
کریم جل شانہٗ سے اس کا لطف و کرم طلب کیا ہے ؎
تو ہی ذی اقتدار ہے یارب
صاحبِ اختیار ہے یارب
توہے سب کائنات کا مولیٰ
مالک و کردگار ہے یارب
بخشتا ہے گناہ گاروں کو
تو ہی آمرزگار ہے یارب
حمدِ باریِ تعالیٰ میں اللہ جل شانہٗ کی تعریف و توصیف کے ساتھ ساتھ اُس کی
بارگاہِ جلالت مآب میں اپنا عجز پیش کرتے ہوئے رسولِ کونین صلی اللہ علیہ
وسلم کے صدقہ و طفیل میں مناجات کا یہ انداز آپ کی خوش عقیدگی کا مظہر ہے
؎
اک سہارا ترے حبیب کا ہے
اک وہی غم گسار ہے یارب
اُن کے صدقہ میں سُن مری فریاد
تو بڑا ذی وقار ہے یارب
حمدِ باریِ تعالیٰ کے بعد ’’جمالِ خلیل ‘‘ کا شعری سفر نعت و منقبت اور غزل
کی طرف رواں دواں ہوتاہے۔ ’’جمالِ خلیل‘‘ عشق و محبتِ رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کے فروغ و ابلاغ کا ایک حسین و جمیل گل دستہ ہے ۔ جس کے لفظ لفظ سے
عقیدت و محبت کی ایمان افروزخوشبوئیں ٹپکتی ہیں۔ جس کے شعر شعر سےتعظیم و
توقیرِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کااظہار و اشتہار ہوتاہے۔ ’’جمالِ
خلیل ‘‘ کی تقدیسی شاعری میں عرفان و معرفت اور قرآن و حدیث کی جھلکیاںبھی
ہیں اورشعری و فنّی محاسن کا گہرا رچاؤ بھی۔ مسلکِ اہل سنت و جماعت کی
شہرۂ آفاق خوش عقیدگی کا خوب صورت اظہاریہ بھی ہے اور صداقت و سچائی کے
جواہر بھی۔ ’’جمالِ خلیل‘‘ کی غزل رنگ شاعری میں غمِ جاناں کا بیان بھی ہے
اور ترنم و موسیقیت کی لہریں بھی۔ خمریات کا نگار خانہ بھی ہے محاکات
آفرینی کے اندازبھی۔ ’’جمالِ خلیل‘‘ سے چند نمایندہ اشعار نشانِ خاطر کریں
؎
خیالِ زلفِ رُخِ شہ میں غرق رہتا ہوں
نہ پوچھیے مری دنیاے رنگ و بو کیا ہے
اے ملیحِ عربی تیری ملاحت کے نثار
لطف آئے جو ہر اِک زخم نمکداں ہوجائے
باندھ رکھے ہیں مرے جوششِ حیرت نے قدم
کھینچ لے چل دلِ مشتاق مدینا مجھ کو
توجہ ان کرم پرور نگاہوں کی جو ہوجائے
مرا ایماں سنور جائے میں ایماں سے سنور جاؤں
اللہ لالہ زارِ مدینہ کی نزہتیں
قربان ہے بہارِ جناں جھوم جھوم کر
سب کچھ بھلادیا ستمِ روزگار نے
پھر بھی تمہاری یاد ستاتی رہی مجھے
ساقی نے میرے نام پہ تشکیلِ بزم کی
میخانے میری روح جو بہرِ وضو گئی
دل کا کنول بہار نہ لایا ترے بغیر
آیا جو تیری یاد کا جھونکا ترے بغیر
’’جمالِ خلیل‘‘ کی نعتوں کے موضوعات عمومی طور پر وہی ہیں جوخوش عقیدگی کی
پہچان ’’دبستانِ بریلی‘‘ کے شعراے کرام کی نعتوں میں پائے جاتے ہیں۔ حزم و
احتیاط ، من گھڑت اور موضوع روایات سے اجتناب، عبد و معبود کے فرق کا لحاظ
اور رسولِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف و کمالات کے بیان میں مبالغہ
آمیزی کی بجاے محتاط رویوں کا نظارہ ’’ جمالِ خلیل‘‘ کی جملہ نعتوں میںکیا
جاسکتا ہے۔ موضوعاتِ نعت کے ساتھ ساتھ حضرت خلیل العلماء نے جن لفظیات کا
نگار خانہ آراستہ کیا ہے اُن میں بھی وارفتگیِ شوق کے جلو میں پاکیزگیِ
بیان کی جلوہ گری ہمیں مسحور کردیتی ہے۔
’’جمالِ خلیل‘‘ کے کلام کو پڑھتے ہوئے بار بار امامِ نعت گویاں امام احمد
رضا قادری برکاتی بریلوی کے مجموعۂ کلام ’’حدائقِ بخشش‘‘کا خیال آتا ہے۔
امامِ نعت گویاں امام احمد رضا کی لفظیات سے حضرت خلیل العلماء علیہ الرحمہ
نے بڑی خوب صورتی اور چابک دستی کے ساتھ استفادہ کیا ہے۔ کہا جاتاہے:’’شاعر
جس عقیدے ونظریے کا حامل ہوتا ہے ، اس کا ظہار اس کی شاعری میں لامحالہ در
آتاہے۔ اور وہ جن شخصیات یا شاعروں سے متاثر ہوتا ہے اُن کی شعری لفظیات
کا استعمال بھی وہ کرتا دکھائی دیتا ہے ۔ یہ تقلیدی عمل بسا اوقات ایک ایسے
دل کش اور خوب صورت فنّی پاروں کو جنم دیتا ہےکہ ناقدکو تعریف کیے بغیر
چارہ نہیں رہ جاتااور یہ رویہ مذہبی اور لامذہبی ہر دواقسامِ شاعری میں
دیکھنے کو ملتا ہے۔‘‘ ’’جمالِ خلیل‘‘ میں حضرت رضاؔ بریلوی کی لفظیات سے
استفادہ کا جلوہ دیکھنے کے لیے ذیل کی مثالیں نشانِ خاطر کریں :سیہ کارانِ
امت/جوششِ عصیاں/شبِ اسریٰ کے دولہا/اے ملیحِ عربی/نمکداں / نمک آگیں
صباحت/خاک بوسی / چاشنی گیر/کالے کوسوں/مرغِ غزل خواں/صبحِ محشر/سوزشِ غم/
دوشِ عزیزاں/ لختِ لختِ دل/ نخلِ مرام وغیرہ وغیرہ۔ مشتے نموزہ از خروارے
کے مصداق لفظیاتِ رضا سے استفادے کی چند ہی مثالوں پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
حضرت خلیل العلماء علیہ الرحمہ نے اعلیٰ حضرت کی مشہورِ زمانہ نعتوں ’’محمد
مظہرِ کامل ہے حق کی شانِ عزت کا‘‘ اور ’’یاد میں جس کی نہیں ہوشِ تن و جاں
ہم کو‘‘ کی زمینوں کو برتتے ہوئے بڑی خوب صورت اور دل کش نعتیں قلم بند کی
ہیں۔ ان نعتوں میں آپ کا پیرایۂ بیان کلامِ رضا سے حددرجہ مماثلت رکھتا
ہے ۔لفظیاتی، معنویاتی اور اسلوبیاتی لحاظ سے زمینِ رضا میں لکھے گئے حضرت
خلیل العلماء کے کلام کو پرتوِ کلام رضا کہنا مبالغہ نہ ہوگا، دونوں نعتوں
سے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
عیاں ہے جسمِ انور سے دو طرفہ حُسن ، فطرت کا
ملاحت سے صباحت کا ، صباحت سے ملاحت کا
بساطِ دہر میں انگڑائیاں لیتی یہ رعنائی
سمٹ جائے تو نقطہ ہے نبی کے حُسنِ طلعت کا
کچھ حقیقت بھی بتا جلوۂ جاناں ہم کو
لوگ کہتے ہیں مِلا طور کا میداں ہم کو
خیر سے ہم بھی ہی وابستۂ دامانِ کرم
دیکھ آنکھیں نہ دکھا جوششِ عصیاں ہم کو
اسی طرح امام احمد رضا کی معروف فارسی نعت ’’بکارِ خویش حیرانم اغثنی یارسو
ل اللہ‘‘کی زمین میں حضرت خلیل العلماء کے قلم نے بڑی خوب صورت جولانی
دکھاتے ہوئے شعری و فنی محاسن سے لبریز اور خامۂ مشک بارِ رضا کا عکس لیے
ہوئے جو نعت رقم فرمائی ہے وہ آپ کی اردو کےعلاوہ فارسی زبان پر عالمانہ و
فاضلانہ دسترس پر دال ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کی قادرالکلامی کی بھی بین
دلیل ہے ؎
زسر تا پا خطاکارم اغثنی یارسول اللہ
گناہگارم گناہگارم اغثنی یارسول
شکستہ پا ، شکستہ بال و پُر خاطر پراگندہ
زحالِ زار بیزارم اغثنی یا رسول اللہ
غریقِ بحرِ عصیاں شد ، متاعِ عزو ناموسم
سراپا ننگِ ابرارم اغثنی یارسول اللہ
خلیلِ قادریم رد مکن دستِ سوالم را
تُرا از تو طلب گارم اغثنی یارسول اللہ
علاوہ ازیں حضرت خلیل العلماء علیہ الرحمہ کے موے قلم سے نکلا ہوا ’’صلوٰہ
و سلام بدرگاہِ خیرالانام علیہ التحیۃ والسلام‘‘ تو بڑے خاصے کی چیز ہے ۔
اس شا ہ کار سلام کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کے ہر شعر کا مصرعِ اولیٰ حضرت
خلیل العلماء علیہ الرحمہ کا ہے جب کہ مصرعِ ثانی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا
کے خامۂ فیض بار سے نکلا ہوا ہے ، سلام کے چند اشعار نشانِ خاطر فرمائیں ؎
شام و سحر سلام کو حاضر ہیں السلام
’’شمس و قمر سلام کو حاضر ہیں السلام‘‘
بس اک نگاہِ لطف شہنشاہِ بحر و بر
’’سب بحر و بر سلام کو حاضر ہیں السلام‘‘
گُل ہیں نثار قدموں پہ خم ہے جبینِ کوہ
’’سنگ و شجر سلام کو حاضر ہیں السلام‘‘
راحت ملی ہے دامنِ عالم پناہ میں
’’شوریدہ سر سلام کو حاضر ہیں السلام‘‘
چارہ گرِ خلیل و مسیحاے کائنات
’’خستہ جگر سلا م کو حاضر ہیں السلام‘‘
کلامِ رضا کے ساتھ ساتھ حضرت خلیل العلماء کی نعت گوئی اُن کے مرشدِ باوقار
تاج العلماءحضرت سید شاہ اولاد رسول محمد میاں قادری برکاتی قدس سرہٗ کی
نگاہِ کیمیا اثر کا ثمرہ ہے جس کا اعتراف و اظہار ایک مقام پر آپ نے یوں
کیا ہے ؎
خلیلؔ تجھ سا سیہ کار اور نعتِ نبی؟
یہ فیضِ مرشدِ برحق ہے ورنہ تو کیا ہے
آپ اکثر اپنا کلام مرشد ِگرامی کو اصلاح کے لیے سنایا کرتے تھے اور حضرت
بہت خوش ہوکر دعا ئیں دیتے تھے ؎
تو خلیلؔ چیز کیا تھا ، تجھے کون پوچھتا تھا
تیرے مرشد گرامی جو نہ حوصلے بڑھاتے
خلیل العلماء، غالبا ً وہ واحد خلیفہ ہیں جو مرشد خانہ میں ہی پلے بڑھے ،
والد ، والدہ تو گزر گئے تھے لہٰذا جو کچھ تھا وہ مرشد کے نام تھا ، شب و
روز خانقاہ میں ہی گزرتے تھے حالانکہ تایا کی حویلی ، افغان روڈ پر کمبوہ
محلے میں تھی مگر حضرت خلیل العلماء خانقاہ شریف کی حویلی کے ہی باہر کے
حصوں میں رہتے تھے جہاں دالان میں اکثر مرشد گرامی شام یا صبح کو
مونڈھے(کانے کی لکڑی کی کرسی )پر جلوہ فرما ہوتے تھے۔ آپ نے اپنی ذات کو
مرشد کے رنگ میں ڈھال لیا تھا ۔مرکزِ روحانیت مارہرہ مطہرہ کے روحانی فیوض
و برکات نے آپ کو ہر طرح سے مالا مال کیا۔ آپ نے نثر کے میدان میں قدم
رکھا تو انفرادی شان پیدا کی اور جب نظم کے میدان میں قدم رکھا تو یہاں بھی
ایک الگ رنگ اپنایا۔ آ پ کی نعتوں کا ایک اہم عنصر محبوبِ خدا صلی اللہ
علیہ وسلم کی عظمت و شان پر جان قربان کرنے کی ایمانی و عرفانی خواہش ہے۔
اور سچائی بھی یہی ہے کہ عشق چاہے حقیقی ہو یا مجازی ۔ عاشقِ صادق کے نزدیک
اُس کی معراج یہی ہے کہ وہ اپنے محبوب کے قدموں پر اپنی جان نچھاور کردے ۔
خلیل العلماء ایک مؤدب اور سچے عاشقِ رسول(ﷺ) تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے
کلام میں پاے نازِ مصطفیٰ ﷺ پر جان کا نذرانہ پیش کرنے کا جابہ جا اظہار
ملتا ہے ؎
اتنا تو مرے سرور تقریب کا ساماں ہو
جب موت کا وقت آئے اور روح خراماں ہو
دنیاے تصور میں ، دربار ترا دیکھوں
سر ہو ترے قدموں پر سر پر ترا داماں ہو
دیار طیبہ میں مرنے کی آرزو ہے حضور
یہی ہے متن یہی شرح گفتگو ہے حضور
خلیلِ زار کا مدفن بنا آغوشِ طیبہ میں
بالآخر سامنے آیا نوشتہ کلکِ قدرت کا
ہم سے خراب حالوں کا بس تم ہو آسرا
اب ہم تو آپڑے ہیں اسی در کے سامنے
خلیلؔ اب زادِ راہِ آخرت کی سعیِ احسن میں
مدینہ سر کے بل جاؤں وہاں پہنچوں تو مرجاؤں
خلیل العلماء حضرت مفتی خلیل احمد خان قادری برکاتی نور اللہ مرقدہٗ محض
شاعر ہی نہ تھے بلکہ علم و فضل کے ایک شہسوار بھی تھے۔ آپ کی کارگاہِ فکر
میں بڑے اچھوتے اور منفرد مضامین و موضوعات سے سجے سنورے اشعار ڈھلتے تھے۔
جو آپ کے ایک قادرالکلام اور استاذ شاعر ہونے کا اشاریہ بھی ہیں اور آپ
کے بے پناہ تجربات و مشاہدات اور علم و فضل کا آئینہ دار بھی ؎
بساطِ دہر میں انگڑائیاں لیتی ، یہ رعنائی
سمٹ جائے تو نقطہ ہے نبی کے حُسنِ طلعت کا
وہ تیری بے نیازی اور مری بخشش کا پروانہ
کہ چہرہ فق ہوا جاتا ہے خورشیدِ قیامت کا
جاکے لا اے شوقِ بے پایاں قلم دانِ حبیب
کچھ مضامیں نعت کے لکھ زیرِ دامانِ حبیب
سامنے کھولے ہوئے دو صفحۂ رخسار ہیں
یوں تلاوت کررہا ہے روے قرآنِ حبیب
بے قراریِ دروں کاش رخنے ڈالدیں
سینہ و دل کو نوازیں آکے مژگانِ رسول
خلیل العلماء نے کہیں کہیں بڑی مشکل اور سنگلاخ زمینوں کا انتخاب فرمایا۔
اور ان پتھریلی زمینوں میں مضامین کے ایسے ایسے دل کش گل بوٹے کھلائےکہ جن
کی خوشبو سے دل و دماغ معطر و معنبر ہوجاتے ہیں ؎
دیکھ کر طیبہ کے سائے بے خودی میں کھوگئے
ہوش دیوانوں کو آیا اپنی منزل کے قریب
خلد میں لاؤں کہاں سے تجھ کو گل زارِ حرم
آہ! اے ولولۂ لمس و گل و خارِ حرم
کہتے ہیں جس کو عارضِ تاباں حضور کا
آئینۂ جمال ہے ربِّ غفور کا
دیارِ طیبہ میں مرنے کی آرزو ہے حضور
یہی ہے متن یہی شرحِ گفتگو ہے حضور
کھنچا جاتا ہے دل سوے حرم پوشیدہ پوشیدہ
تصور میں قدم بڑھنے لگے لغزیدہ لغزیدہ
کھینچتا ہے دل کو پھر شوقِ گلستانِ رسول
بار بار آتا ہے لب پہ نامِ ایوانِ رسول
خلیل العلماء کے کلام میں وارفتگی بھی ہے اور شگفتگی بھی۔ شیفتگی بھی ہے
اور پختگی بھی۔ کیف و مستی بھی ہےاور خیالِ محبوب کی سرشاری بھی ۔لیکن ان
تمام کے باوصف آپ نے احتیاط کا دامن کہیں بھی ہاتھ سے نہیں چھوٹنے نہیں
دیا۔ وارفتگی میں بھی عقیدہ و ایمان سلامت ہے ۔ خیالِ محبوب کی سرشاری بھی
ایقان محفوظ ہے ؎
کچھ ایسا مست و بے خود ہوں خیال کوئے جاناں میں
کہ رکھ چھوڑا ہے گلدستہ ارم کا طاق نسیاں میں
نجاتِ آخرت کا اس قدر سامان کرجاؤں
کہ طیبہ جاکے اک سجدہ کروں سجدے میں مرجاؤں
سر کو بھی روکیں رہیں جب ہوں مدینہ کے قریب
دل کو آدابِ زیارت بھی سکھاتے جائیں
شادیِ وصل کی تمہید ہے ہجرانِ نبی
جان بھی جائے تو سودا ہے یہ ارزاں ہم کو
حضرت خلیل العلماء کے کلام کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کے کلام میں
مضمون آفرینی کے ساتھ ساتھ بلا کی سلاست وروانی اور ترنم و نغمگی پائی
جاتی ہے۔جدت و ندرت ، جذبہ و تخیل اور نادرہ کاری جیسے عناصر بھی آپ کے
کلام میں جابہ جا نگاہوں کو شاد کام کرتے ہیں ، بے ساختگی اور برجستگی بھی
شعر شعر میں موجود ہے ۔ جس سے شاعر کے جذبات کی گہرائی و گیرائی کا اندازہ
ہوتا ہے ؎
الٰہی آج تو پیشانیوں کی لاج رہ جائے
چلا ہے قافلہ طیبہ کو پھر آشفتہ حالوں کا
الٰہی روضۂ خیرالبشر پر میں اگر جاؤں
تو اک سجدہ کروں ایسا کہ آپے سے گزر جاؤں
کبھی روضے سے منبر تک کبھی منبر سے روضے تک
اِدھر جاؤں اُدھر جاؤں اسی حالت میں مرجاؤں
سگانِ کوچۂ دل دار کی پیہم بَلائیں لوں
تماشا بن کے رہ جاؤں مدینے میں جدھر جاؤں
اے صرصرِ محبت طیبہ اُڑا کے لے چل
للہ اب ٹھکانے مٹّی مری لگادے
رہ رہ کے پھر جبیں میں سجدے تڑپ رہے ہیں
اے خضرِ عشق ، راہِ کوے نبی بتادے
۲۶؍ اشعار پر مشتمل ’’سلامِ شوق‘‘ عنوان کے تحت لکھی گئی نعتِ پاک مضمون
آفرینی، خیال کی ندرت ، جذبے کی صداقت اور اظہار کی گہرائی و گیرائی کا
ایک حسین و جمیل مرقع ہے ۔ایک ایک شعر سے حضرت خلیل العلماء کا بارگاہِ
رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں پُرخلوص اور والہانہ لگاؤٹپکتا ہے۔
آپ نے اس نعت میں اپنا سوز دروں اور دردِ دل پیش کرتے ہوئے بارگاہِ نبوی
علیہ التحیۃ والثناء میں استغاثہ و فریاد کی ہے۔ اس نعت میں جوکربیہ آہنگ
ہے وہ بڑا متاثر کن ہے ، مکمل نعت بار بار پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ؎
سلامِ شوق نسیمِ بہار کہہ دینا
مرا حضور سے سب حالِ زار کہہ دینا
سجودِ شوق کی اک آرزو ہے مدت سے
تڑپ رہا ہے دلِ بےقرار کہہ دینا
دئیے ہیں سوزشِ غم نے وہ داغ سینے پر
تپک رہا ہے دلِ داغ دار کہہ دینا
وہ گلستاں میں عنادل کے چہچہے نہ رہے
اجڑ چکا ہے چمن روزگار کہہ دینا
نہ یہ کہ ہم سے کدورت ہے دشمنوں کو فقط
ہے دوستوں کے بھی دل میں بخار کہہ دینا
ہے مختصر کہ یہ رودادِ غم ، سنادینا
غرض کہ جیسے ہیں لیل و نہار کہہ دینا
’’جمالِ خلیل ‘‘ میں شامل ’’تہنیت بر تشریف آوریِ حضورﷺ‘‘۔’’مدینے والے کی
سرکار میں ۔عرضِ احوالِ واقعی‘‘ اور’’ قصیدہ سراپا رسولِ اکرم ﷺ‘‘ جیسے
کلام اپنے اسلوبِ بیان اور موضوع و مواد کے لحاظ سے لائقِ تحسین و آفرین
ہیں۔ ’’قصیدہ سراپا رسولِ اکرم ﷺ‘‘ بڑا سلیس ، رواں دواں ، شیرینیِ بیان
اور ترنم و نغمگی سے مملو بڑا پُر لطف ہے ، جس کو پڑھنے اور سننے کے بعد
قاری و سامع کیف آگیں جذبات سے سرشار ہوجاتے ہیں ۔ ’’مدینے والے کی سرکار
میں ۔عرضِ احوالِ واقعی‘‘میں امتِ مسلمہ کے زوال کے اسباب و علل کا برے پُر
درد انداز میں نقشہ کھینچتے ہوئے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم
کرب آمیز فریاد کی ہے۔ یہ کلام انقلابِ امت اور اصلاحِ معاشرہ کےلیے خلیل
العلماء کی سچی تڑپ کا روشن اظہاریہ ہونے کے ساتھ ساتھ شعریت اور جذبات کی
صداقت کا دل کش مرقع ہے۔اِس منفرد نعتیہ نظم سے اشعار کوڈ کرنے کی بجاے
براہِ راست مطالعہ کی دعوت دیتا ہوں۔
جیسا کہ عرض کیا گیا کہ خلیل العلماء حضرت مفتی خلیل احمد خان قادری برکاتی
نور اللہ مرقدہٗ محض شاعر ہی نہ تھے بلکہ علم و فضل کے ایک شہسوار بھی
تھے۔وہ آشناے علومِ شریعت بھی تھے اور واقفِ اَسرارِ طریقت بھی۔ وہ مفتی
بھی تھے، مدرس بھی۔ وہ مصنف بھی تھے اور مترجم بھی۔ وہ مبلغ بھی تھے اور
مقرر بھی۔قرآن و تفسیر ، حدیث و اصولِ حدیث ، تاریخ و سیر ، سلوک و معرفت
اور شعر ادب پر ان کی نظر بڑی وسیع تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کے کلام میں
جابہ جا عرفان و معرفت کی رنگ آمیزی اور قرآن و حدیث کا گہرا رچاؤ پایا
جاتا ہے ؎
دوجہاں میں مچ رہی ہے انا اعطینا کی دھوم
سایۂ الطافِ رب ہے اُن کے سائل کے قریب
چھلکتی ہے یہاں جام و سبو سے لذّتِ کوثر
ولایت در حقیقت چاشنی گیرِ نبوت ہے
کہاں تک کیجیے تفسیر سبحٰن الذّی اسریٰ
کہ آغوشِ دنا میں مصطفیٰ کا قصرِ رفعت ہے
تجلی پڑ رہی ہے من رأ نی قد رایٰ الحق کی
مرا آئینۂ دل جلوہ گاہِ نورِ وحدت ہے
دوامِ وصلِ الٰہی سے یہ ہوا ثابت
مقام آپ کا قربِ رگِ گلو ہے حضور
گفتگوے تست شرحِ ما مضی و ماغبر
کیفِ اندازِ تکلم رشکِ قندِ پارسی
حضرت خلیل العلماء علیہ الرحمہ کی شعر گوئی پر اپنے گراں قدر خیالات کا
اظہار کرتے ہوئے ماہرِ رضویات پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقش بندی
مجددی لکھتے ہیں :’’مفتی صاحب کو زبان و بیان پر پورا پورا عبور ہے، انہوں
نے فارسی بھی کہا ہے اور اردوبھی۔ اور میں وہ بے تکان اور بلا تکلف روزمرّہ
اور محاوروں کو استعمال کرتے ہیں جس سے ان کی زبان دانی کا اندازہ ہوتا ہے۔
انہوں نے معانی وبیان، صنائع و بدائع، کو بھی استعمال کیا ہے جس سے فنِ شعر
گوئی میں ان کی مہارت و کمال کا پتا چلتا ہے‘‘ اس تناظر میں حضرت خلیل
العلماء کے اشعار ملاحظہ فرمائیں ؎
وہ کی ہے ضَو فشانی جلوۂ رخسارِ جاناں نے
پڑی ہے صبحِ محشر مونھ لپیٹے اپنے داماں میں
اللہ اللہ! مری چشمِ تصور کاکمال
کالے کوسوں سے نظر آتا ہے طیبہ کا کو
کچھ اس طرح سے خیالوں پہ چھائے جاتے ہیں
نظر سے دور ہیں دل میں سمائے جاتے ہیں
تصور میں وہ آآ کر لگی دل کی بجھاتے ہیں
تکا کرتی ہے منہ جلوت ، مری خلوت وہ خلوت ہے
شامِ غربت میں جو گھبرائے دلِ زارِ خلیل
صبحِ امید کے آثار بھی پاتے ہیں
خیر سے ہم بھی ہیں وابستۂ دامانِ کرم
دیکھ آنکھیں نہ دکھا جوششِ عصیاں ہم کو
مندرجہ بالا اشعار میں یہ محاورے استعمال کئے گئے ہیں: منہ لپیٹ کر سوجانا،
کالے کوسوں،دل میںسمانا،دل کی لگی بجھانا، منہ تکا کرنا، دل گھبرانا،
آنکھیں دکھانا…… یہ سب محاورے بے تکان استعمال کیےگئے ہیں جس سے زبان و
بیان پر شاعرِ محترم کی عالمانہ دسترس و قدرت کا اندازہ ہوتا ہے۔
حضرت خلیل العلماء جب اپنے وطن سے مارہرہ پہنچے تو پھر مارہرہ ہی کے ہوکر
رہ گئے ۔ بعد میں انھوں نے پاکستان ہجرت کرلی ۔ حسان العصر سید آلِ رسول
حسنین میاں نظمی مارہروی نور اللہ مرقدہٗ کے مطابق :’’ خلیل العلماء کا وطن
ایک طرح سے مارہرہ مطہرہ ہی تھا۔ جی ہاں، وہی مارہرہ مطہرہ جس نے اپنے دور
میں بڑے پایہ کے شعراء پیدا کئے۔ احسنؔ مارہروی، دلیرؔ مارہروی، سوامیؔ
مارہروی، وغیرہم۔ پھر خود خلیل العلماء علیہ الرحمتہ کے مرشدان عظام میں
پیمیؔ، عینیؔ، نوریؔ جیسے مایۂ ناز شعراء کرام گزرے جو صاحبِ معرفت بھی
تھے اور اہل لطافت بھی۔ خلیل العلماء کو مارہرہ کی مٹی سے بہت کچھ ملا۔ ان
کی شاعری میں تغزل بھی اسی مٹی کی دین ہے ؎
خلیلؔ تجھ سا سیاہ کار اور نعتِ نبی
یہ فیض مرشد برحق ہے ورنہ تو کیا ہے
گزرتے ہیں خیال عارض و گیسو میں روز و شب
مری ہر شامِ عسرت ابتدائے صبحِ عشرت ہے
تصور میں وہ آ آکر لگی دل کی بجھاتے ہیں
تکا کرتی ہے منہ جلوت، مری خلوت وہ خلوت ہے
مری نظریں اڑا لائیں ہیں کس کا جلوۂ رنگیں
کہ چشم نامرادی سے ٹکپتا خونِ حسرت ہے
ایک ایک شعر پڑھتے جائیے، صاف نظر آتا ہے کہ داغؔ کے گھرانے کا کوئی فرد
لیلٰیٔ سخن کے گیسو سنوار رہا ہے۔ داغؔ کے گھرانے کے گدگداتے ہو تے اشعار
خلیل العلماء کی نعتوں کا انداز بن گئے ہیں۔ آستانِ نبی کے بارے میں فرماتے
ہیں ؎
یہ سراغِ معرفت ہے یہی راز بندگی ہے
کہ یہ آستان نہ ہوتا تو جبیں کہاں جھکاتے
یہ مری خودی نے مجھ کو کیا پائمال ورنہ
کہیں ان کے آستاں سے بھلا ہم بھی سر اٹھاتے‘‘
’’جمالِ خلیل‘‘ میں گوشۂ نعت کے بعد مناقب کا گوشہ شاعرِ محترم کی اپنے
آقاؤں اور ممدوحین کے تئیں محتاط وارفتگی و شیفتگی کا دل نشین اظہاریہ
سمیٹے ہوئے ہے۔ اپنے ممدوحین کی شان میں مناقب رقم کرتے ہوئے حضرت خلیل
العلماء نے حفظِ مراتب کا مکمل پاس و لحاظ رکھا ہے اور کہیں بھی بے جا خیال
آرائیوں کو جگہ نہیں دی۔ حضور سید شاہ ابولحسین احمد نوری میاں صاحب ،امام
اہل سنت امام احمد رضا قادری برکاتی بریلوی، صاحبِ عرسِ قاسمی ، تاج
العلماءاولادِ رسول محمد میاں قدست اسرارہم کی شان میں لکھی گئیں یہ
منقبتیںحضرت خلیل العلماء کی اپنے آقاؤں سے عقیدت و محبت کی غماز ہونے کے
ساتھ ساتھ شعری و فنّی محاسن کا آئینہ دار بھی ہیں ، مناقب سے چنیدہ اشعار
خاطر نشین ہوں ؎
خدایا! گلشنِ برکات سے ہم برکتیں پائیں
پھلے پھولے سدا نخلِ مرامِ احمدِ نوری
پیتے ہیں مَے پرستی کا الزام بھی نہیں
زاہد یہ دیکھ جامِ سفالِ ابوالحسین
اللہ اللہ! کس قدَر ہے عزو شانِ قاسمی
ڈھونڈھتے پھرتے ہیں قدسی آستانِ قاسمی
سلسلہ ملتا ہے ان کاسرورِ کونین سے
مدح خوانِ مصطفیٰ ہے مدح خوانِ قاسمی
التفاتِ جلوۂ غوث الوریٰ سے منسلک
جلوہ گاہِ مصطفیٰ ہے رفعتِ احمد رضا
صبحِ ایماں کی ضیا احمد رضا
شامِ عرفاں کی جِلا احمد رضا
آنکھوں میں ضَو جمالِ محمد میاں کی ہے
دل میں ضیا کمالِ محمد میاں کی ہے
ملتی ہے اہلِ حق میں بڑی جستجو کے بعد
جو بات حال و قالِ محمدمیاںکی ہے
کہیں رضویوں کی دُر افشانیاں ہیں
کہیں نوریوں کی درخشانیاں ہیں
کہیں قاسمیوں کی تابانیاں ہیں
غرض ہر طرف طرفہ سامانیاں ہیں
کہ عرسِ ابوالقاسمِ احمدی ہے
مناقب کے ساتھ ہی حضور احسن العلماء سید مصطفیٰ حیدر حسن میاں قدس سرہٗ کی
شادیِ مبارک پر لکھا ہوا بہ عنوانِ تاریخی ’’جشنِ شادیِ راحت۱۳۶۸ھ‘‘ بھی
’’جمالِ خلیل‘‘ کی شان و شوکت کو دوبالاکررہا ہے۔ آخر میں ’’غزلیات‘‘ کا
گوشہ شامل کیا گیا ہے ۔یہاں حضرت خلیل العلماء علیہ الرحمہ کے قلم کی
انگڑائیاں اپنے مکمل شباب پر نظر آتی ہیں۔ غزل میں خلیل العلماء نے بڑے
اچھوتے اور نرالے مضمون باندھے ہیں۔عشقِ حقیقی و مجازی دونوں ہی کی حسین
آمیزش آپ کی غزلیہ شاعری کا خاص عنصر ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ جہاں عرفان و
معرفت کے تصوف رنگ موضوعات غزلوں میں رچے بسے ہیںوہاں مجاز پر حقیقت غالب
ہے ۔آپ کی غزلوں میں معنی آفرینی ، بے ساختگی، برجستگی ، شوخی ، نغمگی،
شگفتگی، شیفتگی ، حُسنِ تراکیب، رعایتِ لفظی ، روزمرہ محاورات ،معانی و
بیان، صنائع و بدائع جیسے محاسن کا رچاؤ اپنی پوری آب و تاب سے دکھائی
دیتا ہے۔ آپ کی غزلوں میں وارداتِ قلبی کا اظہار بھی ہے اور عصری حسیت کا
بیان بھی۔ غمِ روزگار بھی ہے اور غمِ جاناں بھی ۔ تصوفانہ آہنگ بھی ہے اور
خمریات کا رنگ بھی ۔ گوشۂ غزل سے چند اشعار نشانِ خاطر ہوں ؎
یوں نہ آؤ نقاب ڈالے ہوئے
آرزو اور تلملاتی ہے
ہے عدم بھی وجود کی تمہید
جان جاتی ہے موت آتی ہے
وہ میرے دستِ جنوں کی نقاہتیں توبہ
کہ چاک تھا جو گریباں وہ دھجیاں نہ ہوا
سارے جلوے ہیں حُسنِ کامل کے
عشق بے اختیار ہے یعنی
اللہ رے بے خودیِ محبت کہ بارہا
خود میری جستجو میں مری جستجو گئی
میں تمہیں پتا بتادوں جو تمہیں بھی یاد آئے
میں تمہاری زندگی کا کبھی ماحصل رہا ہوں
آنکھوں میں نمی ہے تو یہ دل بہہ کے رہے گا
آغاز سے کھل جاتا ہے انجامِ محبت
اپنی بگڑی بناکے پیتا ہوں
ان سے نظریں ملاکے پیتا ہوں
یار سے لَو لگاکے پیتا ہوں
آگ دل کی بجھاکے پیتا ہوں
بے خودی پردہ دار ہوتی ہے
ماسوا کو بھلاکے پیتا ہوں
اللہ اللہ! کمالِ مَے نوشی
آنکھوں آنکھوں میں لاکے پیتا ہوں
اُن کی آنکھوں کو دیکھتا ہوں خلیلؔ
گویا ساغر اُٹھا کے پیتا ہوں
’’جمالِ خلیل ‘‘ کے مطالعہ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خلیل العلماء مفتی خلیل
احمد خان قادری برکاتی نور اللہ مرقدہٗ کی شاعری اُن کی نثر نگاری ہی کی
طرح بلند پایہ ہے اور یہ کہ آپ ایک باکمال اور قادرالکلام شاعر تھے۔ ان کی
شاعری میں خود آگہی ،کائنات آگہی اور خدا آگہی کاآفاقی پیغام مضمر ہے۔
انھوں نے تقدیسی شاعری کے ساتھ ساتھ غزلیہ شاعری میں بھی اپنی جولانیاں
بکھیریںجو آپ کے فکری تنوع اورہمہ جہتی کو ظاہر کرتا ہے۔ راقم جانشینِ
خلیل العلماءمفتیِ اعظم اہل سنت حضرت مفتی احمدمیاں حافظؔ قادری برکاتی دام
ظلہٗ کو ہدیۂ سپاس پیش کرتا ہے کہ انھوں نے ’’ جمالِ خلیل‘‘ کو مرتب
فرماکر دنیاےشعر وادب کو ایسے گراں قدر مجموعے سے روشناس فرمایا۔ اللہ کریم
جل شانہٗ ، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ و طفیل ہمیں فیضانِ حضرت
خلیل العلماء کےقدس سرہٗ سے مالا مال فرمائے۔(آمین) |
|