طلبا تحریک تاریخ کے جھروکوں میں

طلبہ کسی بھی معاشرے کا کوئی مخصوص طبقہ یا مستقل ’’ سماجی پرت ‘‘ نہیں ہوتے، یہ مختلف طبقات سے آتے ہیں اور ان کی زندگی کا یہ عہد جب نوجوانی سے جوانی میں داخل ہورہا ہوتا ہے شاید ان کی عمر کا یہ سب سے خوشگوار اور نسبتاً کم سماجی و معاشی بوجھوں کا وقت ہوتا ہے۔ گو سماج کی محنت کش پرتوں سے آنے والے والی طلبہ کی اکثریت اس دور میں بھی معاشی پریشانیوں سے مبرا نہیں ہوتی۔

لیکن اسی دور میں آنے والی زندگی اور مستقبل کے کردارپیشے اور نظریات پروان چڑھتے ہیں۔ لیکن جوانی کی توانائیاں اور تازگی ایسے جذبوں اور ولولوں سے بھی سرشار ہوتی ہیں جن کی بنیاد پر غیر معمولی ارادے اور کردار جنم لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طلبہ کی تحریکوں کا انقلابات میں ایک اہم ابتدایہ کا کردار بنتا ہے۔ شاید اسی صورت حال کو مدِ نظررکھتے ہوئے ٹراٹسکی نے یہ تجزیہ پیش کیا تھا کہ طلبہ درختوں کی بلند ٹہنیوں کی طرح ہوتے ہیں جو آنے والے انقلابی طوفانوں میں سب سے پہلے جھولنے لگتی ہیں اوران انقلابی ہواں کی آمد کا پیغام دیتے ہیں۔ طلبہ اپنی اس نسبتا آزادانہ کیفیت میں سماجی حرارت کا بیرومیٹر ہوتے ہیں اور معاشرے کی تہوں میں چلنے والی کیفیات اور عوام کی غمازی کرتے ہیں۔

برصغیر پاک و ہند میں جب تقسیم بنگال کا ایشو سر پکڑنے لگا تو مسلمان طلبہ کی طرف سے بھرپور جدوجہد سامنے آئی، بالاخر 1905 میں تقسیم بنگال کامطالبہ تسلیم کرلیا گیا، گویا کہ تقسیم بنگال کی جدوجہد مسلمان طلبہ کے اندر ’’ تحرک ‘‘ کا باعث بنی۔ پھر 1913ء میں جب قائد اعظم محمد علی جناح ؒ مسلم لیگ میں شامل ہوئے تو انہوں نے طلبہ کو منظم کیا ، یوں سرسید احمد خان کے ادارہ علی گڑھ کی تعلیم و تربیت کے بعد قائد اعظم نے طلبہ کی سیاسی تربیت میں کارہائے نمایاں پیش کیں اور تمام صوبوں خصوصاً جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی وہاں مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کی تنظیم سازی میں پیش پیش رہے۔ یوں ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ قائد اعظم نے طلبہ تحریک میں جان ڈال دی۔

1916ء میں میثاق لکھنؤ کی کامیابی کے بعد قائد اعظم نے متعدد مقامات پر طلبہ سے خطاب کیا ، بعدازاں 1930 کے خطبہ الٰہ آباد، 35ء کے انتخابات اور پھر کانگریسی وزارتوں کا مقابلہ کرنے میں طلبہ نے بھرپور معاونت کی۔ 1940ء میں منٹو پارک کے جلسہ میں طلبہ کی بڑی تعداد نے شرکت اور مولوی فضل الحق کی طرف سے پیش کردہ قرار داد پاکستان کی بھرپور حمایت و تائید کی۔ 1946-46ء کے انتخابات جس میں مسلم لیگ نے برصغیر کے اندر شاندار اور تاریخی کامیابی حاصل کی، مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے حصار میں قائد اعظم اور دیگر مسلم راہنماؤں نے بھرپور انتخابی مہم چلائی ۔

تحریک پاکستان کے راہنما یونس کمال لودھی کے مطابق ’’ قیام پاکستان کے ابتدائی ایام میں جب مسلمان پاکستان کی طرف ہجرت کررہے تھے تو راستے میں ہندوؤں اور سکھوں کی طرف سے مظالم کے پہاڑ گرائے گئے، عورتوں کی عصمت دری کی گئی، ان نامساعد اور سنگین حالات میں طلبہ نے اپنا حصہ ڈالا اور مسلمان مہاجرین کو باحفاظت پاکستان تک پہنچانے میں ’’ کمک ‘‘ فراہم کی۔ مہاجرین کی آبادکاری ، زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے میں بھی طلبہ پیش پیش رہے۔

قائد اعظم ؒ کی وفات کے بعد حالات کے جبر و استبداد اور سیاسی اکھنڈوں کی ’’ مفاداتی چالاکیوں ‘‘ نے طلبہ تحریک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، ا س پس منظر میں قیام پاکستان کے بعد فوری طور پر کوئی بڑی تحریک نہیں ابھری۔ تحریک کی طبقاتی جدوجہد کے نظریات پر مبنی اصل انقلابی بنیادیں پسپا ہوچکی تھیں۔ ابتدا میں یہ تحریک قومی اور دوسری غیر انقلابی نظریات اور راستوں میں بکھر گئی تھی۔ پاکستان کے بننے کے بعد ہمیں ایک طرف مذہبی بنیادوں پر احمدیوں کے خلاف تحریک میں طلبہ کے کچھ عناصر ملتے ہیں۔ یا پھر1950 کی دہائی میں بنگال میں زبان کے مسئلہ پر تحریک میں طلبہ کی بڑی شرکت ملتی ہے۔ لیکن اس دوران بائیں بازو کے طالب علموں نے ڈی ایس ایف(DSF) اور این ایس ایف(NSF) کے گرد متحرک اور منظم ہونا شروع کردیاتھا۔ پارٹیشن کے باوجود پاکستان کے حکمران بائیں بازو کے نظریات اور تحریکوں سے بہت ہی خائف تھے اور انہوں نے خصوصا بائیں بازو کے طالب علموں کو ریاستی جبر کا نشانہ بنانے کا بنیادی وطیرہ اپنایا۔ اس میں راولپنڈی سازش کیس کے تحت بائیں بازو کے جو تھوڑے بہت لیڈر تھے ان کو گرفتار کرلیا تھا۔ 1957 میں مولانا عبدالحمید بھاشانی مغربی پاکستان آئے اور انہوں نے مختلف بائیں بازو کے لیڈروں سے مل کر نیشنل عوامی پارٹی قائم کی لیکن اس کی نظریاتی ساکھ ریڈیکل سوشل ڈیموکریسی سے زیادہ نہیں تھی۔ اسی دوران بائیں بازو نے مختلف شہروں میں کسان تحریکیں ابھاریں لیکن ان کو حکومتوں نے آسانی سے کچل دیا۔ ان تمام سیاسی سرگرمیوں میں طلبہ کا ایک اہم کردار رہا تھا۔ لیکن کوئی بڑی تحریک نہیں ابھر سکی تھی اور طلبہ سیاست عمومی طور پر زیادہ سرگرم کردار ادا نہیں کرسکی تھی۔ لیکن پھر عہد بدلا۔ عالمی پیمانے کروٹ کھائی اور پھر چوتھائی صدی بعد ایک انقلابی دور کا آغاز 1960 کی دہائی کے دوسرے حصے میں شروع ہوا۔ گو پاکستان میں1964 میں طلبہ مطالبات اور ایوبی آمریت کے خلاف ایک بڑی طلبہ تحریک ابھری تھی لیکن وہ محنت کش طبقے کی دوسری پرتوں کوتحریک میں متحرک نہیں کرسکی تھی۔ لیکن 6نومبر1968 کو راولپنڈی پولی ٹیکنیکل کالج کے طالب علم عبدالحمید کے پولیس فائرنگ سے قتل ہونے کے بعد ایک انقلابی طوفان ابھرا جو ایک جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک (مغربی ومشرقی پاکستان) میں پھیل گیا۔ طلبہ کی یہ تحریک پاکستان کی تاریخ کے عظیم ترین انقلاب جس کا بنیادی کردار سوشلسٹ تھا کا نقطہ آغاز بن گئی تھی۔ یہ انقلابی تحریک آمریت کو توڑ کے انتخابات کو چیر کے جنگ اور ملک ٹوٹنے جیسے واقعات کو بھی پامال کرکے آگے بڑھ گئی تھی۔ پھر اس تحریک کے ابھرنے والی پارٹی کو اقتدار دیا گیا اور اس ملک کی تاریخ میں تعلیم علاج صنعت زراعت لیبر اور دوسرے شعبوں میں سب سے ریڈیکل اصلاحات کی گئیں(تفصیلات کے لیے کتاب)۔

پاکستان کی اصل کہانی۔1968-69 کا انقلاب سے رجوع کریں۔

لیکن سرمایہ دارانہ ریاست اور معیشت کے ڈھانچے برقرار ہے۔ سرمایہ داری میں چونکہ اس وقت بھی اصلاحات کی کوئی گنجائش نہیں تھی اس لیے جونہی اس نظام کا بحران بڑھا سماج میں انتشار بڑھنا شروع ہوگیا تھا۔

چیئر مین ذ والفقار علی بھٹو اور پیپلز پارٹی بنیادی طور پر طلبہ تحریک کی حمایت سے ابھرے تھے۔ اس وقت طلبہ میں بائیں بازو کا بڑا رجحان این ایس ایف(NSF) کی شکل میں تھا۔ گو اس تنظیم میں بھی بہت سے ماسکو نواز پیکنگ نواز اور دوسرے بائیں بازو کے فیکشن تھے لیکن جب تحریک ابھری تو ان فیکشنوں کی موجودگی کے باوجود طلبہ میں پورے سماج پر بائیں بازو کا غلبہ ہوگیا تھا۔ پیپلز پارٹی نے پی ایس ایف (PSF)کے نام سے جو طلبہ کی تنظیم بنائی تھی اس کا واضح سوشلسٹ پروگرام این ایس ایف سے بھی زیادہ انقلابی ہونے کی وجہ سے طلبہ کے لیے پرکشش تھا۔ 1967 سے 1972 تک پی ایس ایف تیزی سے بڑھی اور این ایس ایف کے بہت سے دھڑے اسی میں شامل ہوئے تھے لیکن1972 میں پیپلز پارٹی کے برسرِاقتدار آنے اور 1974 کے بعد سماج میں1968-69 کے انقلابی رجحانات کی پسپائی سے نہ صرف پی ایس ایف بلکہ این ایس ایف اور دوسری بائیں بازو کی طلبہ تنظیمیں بھی بحران اور حمایت میں کمی کا شکار ہونے لگیں۔ چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے جو اصلاحات کیں تھیں ان میں ایک اہم اقدام کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ یونین سازی کے حق کا اجرا تھا۔ تاریخی طور پر اگر بائیں بازو کی کوئی بڑی طلبہ تنظیم نہیں تھی تو دائیں بازو کی بھی طلبہ میں تنظیمی اور نظریاتی جڑیں بہت کمزور تھیں۔ مسلم لیگ اور ایوبی آمریت کے تحت عمومی طور پر آمریت اور سرمایہ داری کے خلاف طلبہ میں نفرت پائی جاتی تھی۔ اگر کوئی تنظیمیں حقیقی طلبہ حمایت رکھتی تو وہ بائیں بازو کی جانب جھکا رکھتی تھیں۔ لیکن پیپلز پارٹی کے دسمبر 1971 کے اقتدار میں آنے کے بعد جہاں بہت سی صنعت اور بھاری صنعت کو قومی تحویل میں لیا گیا تھاوہاں عالمی اجارہ داریوں کے بڑے یونٹ افسر شاہی نے نیشنلائزنہیں ہونے دیئے تھے۔ اسی طرح تمام تر نیشنلائز اداروں میں مزدوروں کا جمہوری کنٹرول اور انتظام قائم نہیں ہو سکا تھا۔

ریاستی سرمایہ داری(State Capitalism) کی اس شکل میں جو کینشین(Keyensian) معیشت ابھری وہ عالمی طور پر ہی اس وقت بحران میں داخل ہوچکی تھی اور اس سے بہت بڑے پیمانے پر افراطِ زر ابھری تھی۔ اسی طرح جہاں بہت سے نجی تعلیمی ادارے قومی تحویل میں لیے گئے تھے وہاں ریاستی افسر شاہی نے ایچی سن کالج لاہور جیسے بڑی اشرافیہ کی اولادوں کے تعلیمی اداروں کو عمومی قومی تعلیمی پالیسی کے کنٹرول میں نہیں آنے دیا۔ اس کے باوجود دسویں تک تعلیم مفت طلبہ کے لیے دس پیسے کرایہ اور دوسرے ایسے اقدامات ہوئے جو اس ملک کی تاریخ میں اس سے پہلے یا بعد میں نہیں ہوسکے۔ لیکن طبقاتی نظام تعلیم کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا۔ اگر 1970 کی دہائی کے اس تجربے کو دیکھا جائے تو ملک میں بالا دست طبقات کی حاکمیت اور ریاست کے مکمل خاتمے کے بغیر طبقاتی نظام تعلیم ختم نہیں ہوسکا۔

1971ء میں اندرونی خلفشار کے باعث پاکستان دو لخت ہوگیا ،بھٹو صاحب عنان حکومت پر براجمان ہوگئے ، اس دور حکومت میں طلباء کی فلاح و بہبود کے لیے بھرپور اور مثالی اقدامات اٹھائے گئے، سٹوڈنٹ کارڈ کا اجراء، ٹرانسپورٹ کرایوں میں خصوصی ریلیف، مساوی نظام تعلیم رائج کرنے کی کوشش کی گئی، 1976ء میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کور کمانڈر ملتان جنرل ضیاء الحق کوآرمی چیف مقرر کردیا ، 1977ء میں ضیاء الحق نے بھٹو صاحب کو معزول کرکے ریاست کا کنٹرول اپنے ہاتھ لے لیا، 1979ء میں بھٹو صاحب کو عدالتی حکم پر پھانسی دے دی جاتی ہے ، ضیاء الحق نے آتے ہی طلبہ تنظیموں پر پابندی عائد کرتے ہوئے قوانین مزید سخت کردیے ، طلبہ راہنماؤں کو جیلوں میں بند کردیا گیا۔ یوں بھٹو صاحب کے دور حکومت میں پنپنے والی طلبہ تحریک ضیاء الحق کے پنجرے میں قید ہوکر رہ گئی۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم ( معذرت کے ساتھ کٹھ پتلی ) بنادیا گیا، اور ساتھ ہی اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صدر کے اختیارات بڑھا دیے گئے، تین سال بعد اوجڑی کیمپ کا واقع ہوجاتا ہے، یوں جونیجو حکومت بھی ختم کردی جاتی ہے، 17 اگست 1988ء کو ضیاء الحق طیارہ حادثہ میں لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی اکثریت حاصل کرلیتی ہے ، بے نظیر بھٹو نے آتے ہی طلبہ تحریک پر لگائی گئی پابندیاں ختم کردیں یوں ضیاء الحق دور میں طلبہ کے لیے بند ہونے والی سیاسی فضاء پھر سے بحال کردی گئی۔ 12 اکتوبر 1999 سے پہلے ( نوے کی دہائی ) نواز شریف اور بے نظیر ایک دوسرے کی حکومتیں گرانے میں مصروف رہے، اس دوران طلبہ تنظیموں کا خوب ’’ استعمال ‘‘ کیا گیا۔ نواز شریف ’’ ایم ایس ایم ( مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن ) ‘‘ جبکہ پیپلز پارٹی ’’ پی ایس ایف ( پیپلز سٹوڈنٹ فیڈریشن ) ‘‘ کے ذریعے جلسے جلوس، جلاؤ گھیراؤ کی سیاست کررہے، پہلی بار طلبہ تحریک کو ذاتی اور سیاسی استعمال کے لیے کھلے عام استعمال کیا گیا۔ بارہ اکتوبر کی شام پرویز مشرف نواز حکومت کا دھڑن تختہ کرکے خود اقتدار کے جھولے پر سوار ہوگئے ، مشرف صاحب بھی ضیاء الحق کے فلسفے پر چلتے ہوئے طلبہ تنظیموں پر برس پڑے اور اپنے ابتدائی احکامات میں یہ طلبہ تحریک و تنظیم پر پابندی عائد کرکے اپنا رعب دھاڑے کی بھرپور کوشش کی ۔ مشرف دور میں مصائب و آلام کی سیڑھیاں چڑھنے، اترنے والی طلبہ تنظیم بالاخر وزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی کے ایک حکم نامہ پر بحال کردی گئی۔

1905 سے 2016ء کا طویل سفر کاٹنے والی طلبہ تحریک کا آج نام تو موجود ہے مگر وہ رعنایت ، اثر ، کام اور جدوجہد نظر نہیں آتی جو ہونی چاہیے تھی، ملک کی تعمیر و ترقی ، دہشت گردی کے خاتمہ ، امن و سلامتی کے لیے دیگر اداروں ، اور شعبہ جات کی طرح طلبہ کو بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہوگا، یہی وقت کی ضرورت ہے۔
( حوالہ جات ـ : وکی پیڈیا )
واجد نواز ڈھول
About the Author: واجد نواز ڈھول Read More Articles by واجد نواز ڈھول : 61 Articles with 91212 views i like those who love humanity.. View More