محمدعلی درانی کی کَشتیاں!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
لیجئے جناب، اب بہاول پور صوبہ بحال
ہو کر ہی رہے گا، کیونکہ مشرف دور کے وزیر اطلاعات و نشریات محمد علی درانی
نے کشتیاں جلانے کا اعلان کردیا ہے۔ اگرچہ موصوف نے مشرف حکومت کے خاتمے کے
بعد اپنے لئے نئی مصروفیت ڈھونڈی اور بہاول پور صوبہ کی بحالی کا بیڑہ اپنے
توانا کندھوں پر اٹھا لیا تھا، خطے کی محرومیوں کا بھی انہوں نے بہت گہرائی
میں جاکر اندازہ لگایا، تحقیق سے بہت سے خفیہ گوشوں کو تلاش کیا، پھر علاقے
کادورہ کیا، آگاہی مہم چلائی، تقریبات منعقد کیں اور بہاول پور صوبہ بحالی
کی نیم مردہ تحریک میں نئی روح پھونک دی۔ میڈیا سے اپنی وزارت وغیرہ کی وجہ
سے تعلقات بہت اچھے اور مضبوط تھے، اس لئے انہیں اخبارات اور چینلز میں خوب
کوریج ملی۔ رابطے اور میڈیا میں آنے کے لئے انہوں نے نئے سے نئے طریقے
اختیار کئے۔ ان کی دیکھا دیکھی بہاول پور سے مزید دو گروہ بحالی صوبہ کی
تحریک میں دو بارہ فعال ہوگئے، ایک مخدوم احمد محمود اور دوسرے نواب صلاح
الدین عباسی۔ تاہم یہ منظر بھی اہالیانِ بہاول پور نے دیکھا کہ تینوں گروپ
یک نکاتی ایجنڈے پر کام کر رہے تھے، مگر تینوں کبھی اکٹھے نہ ہوسکے۔ حتیٰ
کہ گزشتہ الیکشن میں بہاولپور صوبہ کی بحالی کی کوئی تحریک اپنا امیدوار
کھڑا نہ کرسکی، اگر کسی نے یہ نعرہ لگایا بھی سہی تو عوام نے اس پر کوئی
خاص توجہ نہیں دی۔
محمد علی درانی کی برپا کردہ تحریک کا نتیجہ ہی تھا کہ پورے بہاول پور (ڈویژن)
میں اس تحریک کے متوالے اٹھ کھڑے ہوئے، محرومیوں کے ایشوز پر سرگرمیاں ہونے
لگیں، دوسرے گروپوں کی جانب سے بھی آل پارٹیز گول میز کانفرنسیں منعقد ہونے
لگیں اور ماحول گرم ہوگیا۔ ایک عرصہ تک محمد علی درانی کو تلخ و ترش سوالوں
کا سامنا رہا، ’’آپ نے اپنے دورِ حکومت میں یہ کارِ خیر کیوں سرانجام نہ
دیا‘‘، ’’اب جبکہ آپ کے پاس کوئی اختیار نہیں تو کیوں یہ مطالبات دہر ا رہے
ہیں‘‘، وغیرہ وغیرہ۔ مگر درانی نے نہایت ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے
تحریک جاری رکھی اور بہت حد تک اپنی ساکھ بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ درانی کے
لئے اس لئے بھی راستہ ہموار ہوگیا کہ ان کا آبائی علاقہ بھی بہاولپور ہی ہے،
انہوں نے اپنے اس تعلق کو خوب ابھارا اور اس سے لوگوں کو جذباتی کرنے کا
کام لیا۔ کبھی اپنے آبا کی قبروں سے ناتا جوڑا تو کبھی خود بھی اسی علاقے
میں مرنے جینے کی باتیں کیں۔ اگرچہ بہت سے لوگوں نے ان کی باتوں کو آخر تک
قبول نہیں کیا، مگر زیادہ تر لوگ ان سے متاثر ہوئے، اور ان کی تحقیق اور
کاوشوں پر تو کسی کو بھی اعتراض نہ تھا۔ درانی کی ان کوششوں کا دوسرا اور
اہم نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ پنجاب اسمبلی میں صوبہ کی بحالی کی قرار داد
منظور ہوگئی، مسلم لیگ ن کی حکومت سے یہ توقع نہیں تھی، مگر سیاست میں سب
کچھ ممکن ہوتا ہے، وفاقی اسمبلی میں کیس جانا تھا، پی پی کی وفاقی حکومت کی
بنائی جانے والی کمیٹی پر اس قدر اختلافات سامنے آئے کہ معاملہ سرد خانے کی
نذر ہوگیا۔
گزشتہ قومی انتخابات کے بعد سے اب تک محمد علی درانی پھر منظر سے غائب تھے،
لوگ ان کے وعدوں، دعووں اور نعروں کو یاد کرتے تھے، تاہم کچھ عرصہ قبل پھر
طلوع ہوئے، مگر تقریبات، سرگرمیوں، احتجاجوں، ریلیوں، پریس کانفرنسوں وغیرہ
میں نہیں، صرف اپنی ’پارٹی‘ کے اجلاسوں میں۔ بس چند روز بعد خبر آجاتی ہے،
کہ انہوں نے فلاں لوگوں کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے یہ کہا وہ کہا۔ ایسی
ہی ایک خبر سامنے آئی ہے، جس میں درانی صاحب کی جانب سے یہ مزید دعویٰ کیا
گیا ہے کہ ’’․․․ اب صوبہ بحالی کے ساتھ خطے کی محرومیاں بھی دور کروائیں گے
․․․ ہماری خاموشی کو کمزوری سمجھا گیا ․․․ اب کشتیاں جلا کر تحریک کو آگے
بڑھانے کا وقت آگیا ہے ․․․ اسلام آباد، لاہور کے لئے میگا پراجیکٹس اور
بہاول پور کے لئے محرومیاں، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ ․․․ اب نہ رکنے والی
تحریک کا آغاز کیا جائے گا․․․‘‘۔ علاقے کے عوام زیادہ پریشان نہ ہوں، درانی
نے کشتیاں جلانے کے وقت کے آنے کی خبر دی ہے، یہ نہیں کہا کہ کشتیاں جلا دی
ہیں، اس لئے عوام خاطر جمع رکھیں وہ آتے جاتے رہیں گے، سیاستدان کو خود کو
زندہ رکھنے کے لئے بہت سے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، اور ایسے معاملات میں
محمدعلی درانی کا تجربہ بہت وسیع ہے۔ تاہم مقامی لوگوں کے لئے یہ خوشخبری
موجود ہے کہ اب بحالی صوبہ کے ساتھ محرومیوں کے خاتمے کی کوشش بھی ہو گی۔
لوگ امید کے چراغ تھامے سیاستدانوں کے پیچھے چلتے رہیں، کوئی نتیجہ ضرور
برآمد ہوجائے گا، خواہ وہ سیاستدانوں کی کامیابی کی صورت میں ہی کیوں نہ
ہو؟ |
|