’’جس سے دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے ‘‘

لاڑکانہ ڈسڑکٹ بورڈ کے چیئرمین جناب سرشاہنواز کے ہاں 5 جنوری 1928کو بیٹا پیداہوا،سرشاہنوازکے اس بیٹے کا نام ذولفقار علی بھٹو تھا جو کہ پاکستانی عوام کے محبوب رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آئے جن کو بعد میں قائد عوام کا لقب دیا گیا۔ذولفقار علی بھٹونے اپنی ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی اور پھر والد کے ساتھ بمبئی چلے اور کیتھڈرل سکول سے سینئر کیمرج کا امنحان پاس کیابعد ازاں کیلی فورنیا یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس اور انٹرنیشنل لاء میں سند فضیلت حاصل کی۔

1953 میں ذولفقار علی بھٹو وطن واپس لوٹے اور ساست کا باقاعدہ آغاز کیا اور صدر سکندر مرزا کی حکومت کے رکن بنے۔ذولفقار علی بھٹو صدر ایوب خان کی کابینہ میں بھی کئی ذمہ داریاں سمبھالی ۔ ایوب خان کی کابینہ میں شامل ہوکر زرعی اصلاحات کا منصوبہ بنایااور تنہا رکن تھے جنھوں نے اپنی 38000 ایکڑ زمین کی ملکیت عوام کی نذر کردی۔ذوالفقار علی بھٹونے اقوام متحدہ میں’’امن عالم اور حالیت ’’ کے موضوع پہ پہلی تقریر کی پھر دوسری مرتبہ1958میں بھٹونے اقوام متحدہ کی ایک کانفرنس جو جنیوا میں منعقد ہوئی اس میں بحری سرحدوں کے سلسلے میں پانچ تقاریر کیں تو اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ بھٹو کی تعریف کئے بنا نہ رہ سکے عالمی سطح پہ وطن عزیز کی ساکھ بنانے والا نوجوان اپنے ملک کے شہریوں کے دلوں میں اپنی جگہ بناتا چلا گیااور ان کی شخصیت ابھر کر سامنے آئی اور 1963میں انھیں وزارت خارجہ کا قلمدان سونپ دیا گیا۔اس ذمہ داری کا ملنا تھا کہ اس انقلابی نوجوان نے عالم اسلام کے اتحاد کا بیڑا اٹھا لیا اور جلد ہی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے میں کامیاب ہوئے۔وزیر خارجہ بننے کے بعد انھوں نے اپنے ہمسایہ ملک چین کے ساتھ دوستانہ رشتے کو استوار کیا اور سرحدی معاہدہ کیا ۔1965ء کی پاک بھار ت کے بعد ایک بار پھر بھٹو نے اقوام متحدہ میں پوری دنیا کو بھارت کا اصل چہرہ دکھایا ۔معاہدہ تاشقند کے بعد بھٹو اور ایوب خان کے درمیان کچھ تضادات منظر عام پہ آئے۔ مذاکرات ہوئے اوربھٹو صاحب کو فرانس میں سفیر بنانے کی آفر کی گئی لیکن بھٹو صاحب نے یکسر انکار کیا اور وزارت سے استعفی کے بعد بھٹوبذریعہ ٹرین اپنے گھرکی جانب روانہ ہوئے لاہور پہنچے تو عوام کے سمندرنے ان کا پرتپاک استقبال کیا یہی وہ مرحلہ تھا جب بھٹو صاحب قائد عوام ہو گئے پھر پورے ملک کے طوفانی دورے کئے اور ہر شہر پہنچے اور ملک کے ہر کونے میں لوگ بھٹو کی سحر انگیز شخصیت سے متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے 30 نومبر 1967ء کو اپنے قریبی دوستوں کے ساتھ لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ چار ارکان پر مشتمل پیپلز پارٹی کی سپریم کونسل بنائی گئی جس میں خود ذوالفقار علی بھٹو، جے اے رحیم، محمد حنیف رامے اور ڈاکٹر مبشر حسن شامل تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو وہ پہلے سیاستدان تھے جنہوں نے غریبوں کی بات کی، غریبوں کیلیے سیاست کے دروازے کھولے۔ عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے، عوام کے لیے یعنی حقیقی جمہوریت کے لیے جہدو جہد کی اور عوام کا نعرہ لگایا۔عوام میں روٹی، کپڑا اورمکان کے نعرے کو بھرپور پذیرائی ملی اور 1970 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی مغربی نے پاکستان میں اور عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں کامیابیاں سمیٹی ۔ ملک دو لخت ہوگیا اور پاکستان میں سے ہی بنگلہ دیش ایک نیا ملک بن گیا اور ملک کی بھاگ دوڑ 1971 میں د ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کر دی گئی اور ذوالفقار علی بھٹو صدر اور ملک کا پہلا سول چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے۔د ذوالفقار علی بھٹو نے نوے ہزار فوجی قیدیوں کو غیرمشروط طور پر رہا کروایا۔ذوالفقار علی بھٹو نے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو استوار کیا اور عالم اسلام کے اتحاد کیلئے اپنی کوششیں کی اس سلسلے میں مختلف دورے اور کانفرنس بھی کی ،سعودی عرب کے بادشاہ شاہ فیصل نے کہا تھا ’’پاکستان اسلام کا قلعہ اور بھٹواس کا محافظ ہے‘‘۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو اپنے قیام کے 25سال بعد یعنی1973میں ایک ایسا منظم اور متفقہ دستور دیاجو کہ آج بھی پورے پاکستان میں رائج ہے اور جس کو تمام جماعتوں نے تسلیم کیایہ ذوالفقار علی بھٹو کی بڑی کامیابی تھی۔ذوالفقارعلی بھٹو کا جودوسرا اور بڑا عظیم کارنامہ تھا وہ یہ کہ انہوں نے پاکستان جارحیت پسنداپنے دشمن ملک بھارت کو نکیل دینے کے لئے اپنی اولین ترجیحات سے پاکستان کو ایک ایٹمی ملک بنانے کے لیے تگ ودو کی اور بالآخر یہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کاہی منصوبہ تھاجو کامیاب ہوا۔ذوالفقار علی بھٹو کا ہی عزم تھا کہ ’’پاکستانی قوم گھاس کھا لے گی مگر ایٹم بم ضرور بنائے گی ‘‘ اور پاکستان کو ایٹمی قوت بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے 1977 کا پالیمانی الیکشن جیتا مگر 1977 میں بھٹوکے خلاف قومی اتحاد نے الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے احتجاجی تحریک شروع کر دیااور پورے پاکستان میں ہنگامی صورتحال پیدا ہوگئی اور نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا۔۲۸ اپریل ۱۹۷۷ء کو سینٹ اور قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں ذوالفقار علی بھٹونے کہا تھا کہ ’’یہ کوئی دیسی سازش نہیں ہے۔یہ ایک بین الاقوامی سازش ہے۔پاکستان کی اسلامی ریاست کے خلاف ایک خوفناک اور زبردست سازش‘‘

’’5جولائی 1977 کو ضیاء الحق نے ٹیک اوور کرتے ہوئے اقتدار پہ قبضہ کرلیا اور ذوالفقار علی بھٹو کو حراست میں لے لیا اور بھٹو صاحب پہ احمد خان کے قتل کا مقدمہ چلایا گیا اور بھٹو صاحب کو سزائے موت کی سزا سنا دی گئی ۔اس روز لائٹ بلیو لباس میں ملبوس عدالت کے کٹہرے میں کھڑا تیسری دنیا کا عظیم لیڈر فیصلہ سنانے سے قبل کہہ رہا تھا مجھے قاتل اور مقتول کے گرد گھومنے والی کہانی کے تناظر میں نہ دیکھا جائے میری ایک جیب میں کشمیر کا حل موجود اور دوسری جیب میں اسلامی دنیا کے اتحاد کا ٹھوس منصوبہ موجود ہے۔ پھر 4 اپریل 1979کو بھٹو کو تختہ دار پہ لٹکا دیا گیاذولفقار علی بھٹو کی سحر انگیز شخصیت کا سحر کئی سال گزرنے کے باوجود بھی قائم ہے لوگ آج بھی بھٹو سے دیوانہ وار محبت کرتے ہیں جبکہ بھٹو کو تختہ دار تک پہنچانے والے داستان بن گئے ہیں لیکن بھٹو صاحب آج بھی عوام کے دلوں میں زندہ ہے اور مردہ بھٹو زندہ بھٹو سے زیادہ طاقتور ثابت ہوا اور آج بھی بھٹو کی سحر انگیز شخصیت کا سحر عوام پر قائم ہے۔
R.S Mustafa
About the Author: R.S Mustafa Read More Articles by R.S Mustafa: 41 Articles with 29717 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.