پنجاب آپریشن

سانحہ گلشن اقبال پارک لاہور 27مارچ کو ہوا جس میں ستر سے زائد پاکستانی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔تین سو سے زائد زخمی ہوئے جن میں شدید زخمی بھی کافی تعداد میں شامل ہیں۔دنیا بھر کے انسانیت کا دکھ رکھنے والوں کو یہ سانحہ سوگوار کر گیا۔اس سانحہ سے یہ ثابت ہو گیا کہ دہشت گرد اب بھی اتنا بڑا بھیانک منصوبہ کامیابی سے کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔ایسے منصوبوں کی کامیابی اس دعوے کی نفی کرتی ہے کہ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے۔یقینا یہ نفی کا تاثر ان اداروں کے لئے کسی بھی صورت قابل قبول نہیں کہ جن کی افرادی قوت نے ان دہشت گردوں کے خلاف جانیں نچھاور کی ہیں۔علاوہ ازیں نفی کاتاثر اس لئے بھی ناقابل برداشت ہے کہ یہ تاثر ان اداروں کی پیشہ وارانہ دیانت و طاقت پر بھی شک کا موجب بنتا ہے۔نیشل ایکشن پروگرام کے تحت ملک بھر میں ایک مربوط طریقہ کار کے تحت دہشت گردوں ان کے سہولت کاروں کے خلاف کاروائی کا فیصلہ کیا گیا۔ اس سلسلے میں سند ھ کی صوبائی حکومت کی مشاور ت و اجازت سے فوجی آپریشن شروع کیا گیا جبکہ حسب ضرورت یہ آپریشن خیبر پختونخواہ اور بلوچستان میں بھی چل رہا تھا۔ البتہ پنجاب میں فوجی کاروائی پر وفاقی و صوبائی حکومت ٹال مٹول اور بعض اوقات دھمکی سے اس آپریشن کے خلاف ڈٹے ہوئے تھے۔سانحہ گلشن اقبال پارک کے بعد مقتدر حلقوں نے بغیر اطلاع و اجازت پنجاب میں آپریشن شروع کر دیا۔اس آپریشن میں تاحال سینکڑوں مشتبہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جبکہ مقابلوں میں کچھ دہشت گرد ہلاک بھی ہوچکے ہیں۔وفاقی و صوبائی حکومت نے نہ چاہتے ہوئے بھی حسب سابق اس آپریشن کو ’’اپنا فیصلہ‘‘ قرار دینا شروع کردیا ہے۔ اس آپریشن کے ضمن میں حکومتی کارپردازوں کی بد حواسی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ نہیں معلوم کہ پنجاب حکومت کو کیا ڈر ہے کہ خلق خدا کی خواہش کے باوجود اس آپریشن کے لئے راضی نہ تھی۔ تا وقتیکہ افواج پاکستان کو از خود یہ عمل شروع کرنا پڑا۔ پنجاب میں نیشنل ایکشن پروگرام پر تاخیر سے عمل سے یقینا دہشت گردی کے خلاف جنگ پر منفی اثرات ہوئے ہیں البتہ دیر آئید درست آئید کے مصداق اچھے کی امید رکھنی چاہیئے۔

پنجاب آپریشن شروع ہوتے ہی پھر سے ایسے نظریات کے لوگ متحرک ہوگئے ہیں کہ دہشت گردی کا کھرا جن کے گھروں کو جاتا ہے۔ان لوگوں نے پھر سے آسمان کو سر پر اٹھانے کی کوشش شروع کر دی ہے۔الاگ وہی پرانا کہ پنجاب میں اس آپریشن کو مدارس کے خلاف نہیں جانے دیں گے۔یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ ملک عزیز میں جاری دہشت گردی میں بنیادی کردار مذہب کے نام نہاد ٹھیکیدار کررہے ہیں۔ان نام نہاد مذہبی ٹھیکیداروں کو اس بار کلبھوشن یادیو جو کہ بھارتی ایجنٹ ہے کی گرفتاری سے یہ واویلا کرنے میں آسانی ہوگئی ہے کہ دہشت گردی میں بھارت ملوث ہے۔ اس امر سے کسی کو انکار نہیں کہ بھارت کبھی بھی ہمارا دوست نہیں ہو سکتا ۔ چانکیہ کے پیروکاروں کو جب بھی موقع ملتا ہے تو وہ ملک عزیز پاکستان کے خلاف کوئی نہ کوئی تخریبی کام ضرور کرتے ہیں۔راقم کا سوال یہ ہے کہ یہ درست ہے کہ بھارتی مداخلت ایک اٹل حقیقت ہے لیکن یہ حقیقت کاروپ جن کے ذریعے حاصل ہو رہی ہے ان کا قلع قمع بھی ضروری ہے۔ اسی بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو کے بیان کے مطابق وہ تریپن مدارس کو ’’چندہ‘‘ دیتا رہا ہے۔ تو کیا کلبھوشن یادیو ان مدارس کو فنڈنگ کرے گا کہ جو امن و رواداری کا درس دیتے ہیں یا ان کو کہ جو اپنے علاوہ ہر مخالف نظریہ کے حامل کو واجب القتل اور خارج از اسلام سمجھتے ہیں۔جب تک اس ملک میں تکفیری نظریات اور اسلام کا نفاذ صرف اورصرف طاقت کے بل پر قائم کرنے کے نظریات موجود ہیں اس وقت تک دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ناممکن ہے۔ لہذا ٖضرور ت اس امر کی ہے ایسے نظریات کی بیخ کنی بھی کی جائے جو نہ صرف ملک پاکستان میں دہشت گردی کو موجب بن رہے ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی اسلا م کی منفی پہچان کے موجب بن رہے ہیں۔جہاں اب کی بار اس واویلا میں دم خم نہیں ہے وہاں ہمیں بھی ’’ اثاثہ جات پالیسی‘‘ کو مکمل ترک کرنا ہو گا۔

اس دوران دوسرا واقع یہ ہو ا کہ ممتاز قادری کے چہلم کی دعا کے بعد شرکاء چہلم نے احتجاج کو وسعت دی اور وہ توڑ پھوڑ جلاؤ گھیراؤکرتے ہوئے ڈی چوک پہنچ گئے۔اسلام آباد میں یہ دھرنا جس کو سینئر کالم نگار ’’دھرنی‘‘ لکھتے ہیں چار دن جاری رہا ۔ اس دوران غفلت کے مرتکب وفاقی وزیر داخلہ ان مظاہرین سے آہنی ہاتھوں سے نمبٹنے کی باتیں کرتے رہے۔لیکن بعد از خرابی حکومت مذاکرات کرنے پر آمادہ ہوگئی اور مظاہرین سے زبانی کلامی معاہدہ طے پا گیااور مظاہرین پرامن طور پر منتشر ہوگئے۔یہ امر باعث اطمینان ہے کہ مظاہرین پر طاقت کا استعما ل نہیں کیا گیا۔ البتہ مظاہرین کے جو مطالبات سامنے آئے ان پر کافی حیرت ہوئی کہ سب سے اہم مطالبہ جو منظور ہو زبانی کلامی وہ یہ تھا کہ ایک مذہبی تنظیم کے راہنماؤں پر قائم کراچی میں بھتہ خوری کے مقدمات پر ’’نظرثانی‘‘ کی جائے گی۔ قرائن بتاتے ہیں کہ ممتاز قادری کا خون کافی سستا بیچا گیا۔یہاں پر علمائے اہلسنت کو سرجوڑ کے بیٹھنا ہوگاکیونکہ اس دھرنے اور چوہدری نثار کے آہنی ہاتھوں سے نمبٹنے کے عمل کو کچھ ’’دانشور‘‘ اس دھرنے اور لال مسجد کو مماثل کررہے ہیں جو کہ اہلسنت کے لئے المیہ کا مقام ہے۔ دوسرا اہلسنت علماء یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ آئندہ کوئی مذہبی جذبات کو ابھار کر اپنا کا م نہ نکلوائے ۔ یاد رہے کہ اس مظاہر ہ و دھرنا میں جو توڑ پھوڑ اور دوران تقاریر جو گفتگو کی گئی اور اکابرین اہلسنت کا طرہ نہ رہا ہے۔
Raja Qanbar
About the Author: Raja Qanbar Read More Articles by Raja Qanbar: 23 Articles with 18552 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.