کس نے توڑی مسلم کانفرنس؟

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ’’ سردار عتیق احمد خا ن نے قائد اعظم کی جماعت مسلم کانفرنس کو پرویز مشرف کے ہاتھ کی چھڑی بنا کر تقسیم کیا۔ اس لئے ان کے ساتھ اتحاد کا مشورہ کسی کو نہیں دوں گا‘‘خدا کا شکر ہے کہ پرویز رشید نے مسلم کانفرنس کو قائد اعظم کی جماعت قرار دے دیا ورنہ اُن کی آزاد کشمیر شاخ کے دانشور تواتر سے یہ کہتے چلے آ رہے ہیں کہ’’قائد اعظم رحمتہ اﷲ علیہ نے چوہدری غلام عباس کو آزاد کشمیر میں مسلم لیگ بنانے کا کہا تھا (شکر ہے کہ انھوں نے یہ نہیں لکھا کہ قائد اعظم آزاد کشمیر میں ن لیگ بنانا چاہتے تھے۔ )لیکن چوہدری غلام عباس نے قائد اعظم کی حکم عدولی کی۔ تاہم اس کے باوجود بھی قائد اعظم محمد علی جناح نے رئیس الاحرار کو اپنا جانشین قرار دیا ۔ سردار عتیق احمد خان پر پرویز مشرف کی حمایت کا الزام لگانے سے قبل کاش پرویز رشید اپنی چارپائی کے نیچے بھی ڈھانگ پھیر دیتے۔ تو انھیں پرویز مشرف کے منہ بولے بھائی امیر مقام ، میر ظفرا ﷲ جمالی، زاہد حامد، دانیا ل عزیز، طلال چوہدری، عمر ایوب ، جاوید اخلاص، طارق عظیم، ماروی میمن، شجاعت عظیم اور سکندر حیات بوسن جیسے 47 کے قریب ممبر ان اسمبلی چھپے نظر آتے ۔ جس وقت یہ لوگ پرویز مشرف کے چرنوں میں بیٹھے اقتدار کے نشے لوٹ رہے تھے سردار عتیق احمد خان اس وقت کلثوم نواز کو لے کر ملک بھر میں نواز شریف کی رہائی کی مہم چلا رہے تھے۔ پرویز رشید کواپنے ممدوح سردار سکندر حیات خان کا وہ مطالبہ بھی شائد بھول گیا ہے جواُنھوں نے 2001آزاد کشمیر کا وزیر اعظم بنتے وقت میاں محمد نواز شریف کو پھانسی دینے کے لئے کیاتھا۔سکندر حیات خان پرویز مشرف کے نام سے اتنا خوف کھاتے تھے کہ 2004 میں حمید نظامی کی برسی میں شرکت سے اس لئے انکار کر دیا تھا کہ وہاں راجہ ظفرا لحق اور قاضی حسین احمد مرحوم پرویز مشرف کے خلاف بولیں گے۔ بدقسمتی سے یہی لوگ آج آزاد کشمیر میں مسلم لیگ کا کرتا دھرتا ہیں۔

وفاقی وزیر اطلاعات اُس کمیٹی کے بھی رکن ہیں جو آزاد کشمیر میں ن لیگ کی حکومت قائم کرنے کے لئے دوسری جماعتوں کے ساتھ اتحاد کے لئے بات چیت کر رہی ہے۔ ان سے زیادہ بہتر کون جانتا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف آزاد کشمیر میں بلوچستان کی طرز پر نہ صرف مسلم کانفرنس بلکہ سردار خالد ابراہیم کی جماعت جے کے پیپلز پارٹی کو بھی ساتھ لے کر ریاست جموں و کشمیر کی نمائندہ حکومت کے قیام کے خواں ہیں۔ سردار سکندر حیات خان کی طرف سے مسلم کانفرنس کے ساتھ اتحاد کو خارج از امکان قرار دیئے جانے کے باوجود میاں نواز شریف چاہتے ہیں کہ مسلم کانفرنس کو آٹھ اور جے کے پیپلز پارٹی کو چار سیٹوں کیساتھ اسمبلی میں پہنچا کر مقبوضہ کشمیر کے عوام کو یکجہتی کا پیغام دیا جائے ۔ مسلم لیگ آزاد کشمیر کی موجودہ قیادت میں سے وہ کسی کو صدر بنانا چاہتے ہیں نہ ہی وزیر اعظم ۔ یہی بات سردار سکندر حیات خان کو ناگوار گزرتی ہے ۔

وہ کہتے ہیں کہ ’’؂کیا اسی لئے تقدیر نے چنوائے تھے تنکے ،کہ بن جائے نشیمن تو کوئی اور آ بسے‘‘ لیکن طفیلی سیاست کا یہی طرّہ امتیاز ہے۔ انھیں ابھی اور بہت کچھ دیکھنا ور سننا پڑے گا۔

سردار سکندر حیات خان در اصل سردار عتیق احمد خان کے سیاست میں جاندار اور متحرک کردار اور سردار خالد ابراہیم خان کی دیانت و امانت سے خائف ہیں۔ اس لئے وہ ان دونوں کو اسمبلی سے باہر رکھ کر مستقبل کے خطرات سے محفوظ رہنا چاہتے ہیں۔وہ دراصل الیکشن کے بعد پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کر کے حکومت بنانا چاہتے ہیں جس کا انھوں نے حالیہ ملاقات میں میاں صاحب کے سامنے اظہار بھی کیا۔ میاں نوا ز شریف نے عمران خان اور بیرسٹر سلطان محمود کا نام سن کر جس رد عمل کا اظہار کیا ہو گا اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

مسلم کانفرنس کی تقسیم کوئی نئی بات ہے اور نہ ہی کسی فرد واحد کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ مسلم کانفرنس اپنے قیام کے دوسرے ہی سال میر واعظ یوسف شاہ اور شیخ عبداﷲ کے شخصی اختلافات کی بھینٹ چڑھ گئی تھی۔ اس طرح مسلم کانفرنس وادی اور جموں میں تقسیم ہو کر رہ گئی۔ یہ جماعت چوتھے سال نیشنل کانفرنس میں تبدیل ہو گئی آٹھ سال بعد قائد ملت رئیس الاحرار چوہدری غلام عباس نے مسلم کانفرنس کا دوبارہ احیاء کیا قیام پاکستان کے بعد قائد ملت چوہدری غلام عباس اور سردار محمد ابراہیم خان کے درمیان اختلافات شروع ہو گئے ۔ جس کے نتیجے میں 1956 میں غازی ملت نے آزاد مسلم کانفرنس کے نام سے ایک نیا دھڑا قائم کیا ۔1958 ء میں جنرل محمد ایوب خان نے مسلم کانفرنس پر شب خون مارتے ہوئے آزاد کشمیر کے سیاست دانوں کو ایبڈو قانون کے تحت سیاست سے باہر کر کے کے ایچ خورشید کی قیادت میں لبریشن لیگ قائم کی اور یہ سب کچھ اُس وقت ہوا جب سردار عتیق احمد خان سیاست میں موجود ہی نہیں تھے ۔ 1970 میں مجاہد اول نے صدر بننے کے بعد غازی ملت کو مسلم کانفرنس کا صدر بنایا پھر 1975 میں مسلم کانفرنس کے بطن سے پی پی پیدا ہوئی ۔ کیا اس وقت بھی سردار عتیق احمد خان ہی ذمہ دار تھے؟ ماضی میں سردار سکندر حیات خان طواتر کے ساتھ الزام لگاتے رہے کہ 1990 ء میں میاں محمد نواز شریف نے انھیں دو کروڑ روپے دے کر آزاد کشمیر میں نواز لیگ قائم کرنے کی ہدایت کی تھی۔ کیا اس کا ذمہ دار بھی سردار عتیق احمد خا ن کو ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ اسی طرح 1996 میں سردار سکندر حیات خان نے ’’س‘‘ گروپ کے نام سے اپنا دھڑا الگ کیا تو اس کا ذمہ دار کسے ٹھہرایا جا سکتا ہے؟مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان نے 2001 میں جب سردار سکندر حیات خان کو گوشہ گمنامی سے نکال کر آزاد کشمیر کا وزیر اعظم بنایا تو کیا اُس وقت ممبران اسمبلی کی اکثریت سردار عتیق احمد خان کے ساتھ نہ تھی؟ کیا انھیں پارلیمانی پارٹی نے منتخب کیا تھا یا مری سے پرویز مشرف کا پروانہ لے کر آئے تھے ؟ یہاں مسلم کانفرنس کو جوڑنے کے لئے قربانی کس نے دی؟

اہم سوال تو یہ ہے کہ سال 2009 ء میں اپنی ہی جماعت کے صدر اور وزیر اعظم کے خلاف عدم بغاوت اور عدم اعتماد کرتے ہوئے آزاد کشمیر میں حاجی یعقوب کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی حکومت کس نے قائم کی تھی؟ پھر جب پیپلز پارٹی والوں نے ’’س‘‘ گروپ کے وزرا ء کی چیخیں نکالیں تو انھیں اس چنگل سے کس نے چھڑایا تھا؟ کیا یہ سردار عتیق احمد خان ہی نہ تھے جنہوں نے اعلی سیاسی اقدار کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس شخص کو وزیر اعظم بنایا جس نے چند ہی ماہ قبل سردار عتیق احمد خان کو اقتدار سے ہٹایا تھا ۔ کیا یہ مسلم کانفرنس کو توڑنے کی سازش تھی یا جوڑنے کی کوشش ؟امر واقع یہ ہے کہ 2006 میں فوجی ڈکٹیٹر آزاد کشمیر میں پرویز مشرف لیگ (پی ایم ایل) کی حکومت بنانا چاہتے تھے لیکن سردار عتیق احمد خان نے کمال حکمت عملی سے کھیل کا پانسا پلٹ کے مسلم کانفرنس کی مسلسل دوسری مرتبہ حکومت قائم کر دی شائد یہی وہ دکھ ہے جو مخالفین کو ہضم نہیں ہو رہا۔

نواز لیگ آزاد کشمیر کے قائدین گزشتہ چار پانچ سالوں کے دوران تواتر کے ساتھ سردار عتیق احمد خان کو مسلم کانفرنس کی تقسیم کا ذمہ دار گردانتے آ رہے ہیں۔ کسی کا قول ہے کہ’’ جھوٹ اتنا بولو کہ وہ سچ ثابت ہو جائے‘‘ کے مصداق مسلم کانفرنسی صفوں شامل چند سینئر رہنماء بھی اپوزیشن کے پروپیگنڈہ کی زد میں آکر جماعت چھوڑ گئے۔ لیکن حالیہ دنوں میں نواز لیگ کی مرکزی کمیٹی کی طرف سے مسلم کانفرنس کے ساتھ اتحاد کی پیشکش کا مثبت انداز میں جواب دے کر نہ صرف سردار عتیق احمد خان مسلم کانفرنس توڑنے کے الزام سے بری ہو گئے بلکہ میاں نواز شریف پر بھی آزاد کشمیر میں نواز لیگ قائم کرنے کا دھبہ دھل گیا ہے۔سردار سکندر حیا ت خان نے اپنی ایک حالیہ پریس کانفرنس میں یہ اعلان کر کے کہ سردار عتیق احمد خان کو مسلم لیگ ن میں نہ صرف قبول کیا جا سکتا ہے بلکہ انھیں مناسب عہدہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ یہ کہہ کر انھوں نے مسلم کانفرنس کے ساتھ اپنی روایتی رقابت کا اظہار کیا ہے۔ اُس کا مطلب یہ ہے کہ عتیق احمد خان تو برے نہیں البتہ مسلم کانفرنس بری ہے جس کے پلیٹ فارم سے وہ دو مرتبہ صدر بنے ، دو مرتبہ وزیر اعظم بنے ایک مرتبہ وزیر اور ان کا بھائی وزیر اور بیٹا کشمیر کونسل کا ممبر بنا، یہ تھا مسلم کانفرنس کے ساتھ وابستگی کا عروج اور جب انھوں نے اپنی مادر جماعت سے بے وفائی کر کے ن لیگ بنائی تو اُس کی نحوست سے وہ اپنی ابائی سیٹ بھی کھو بیٹھے۔ کیسی بلندی اور کیسی پستی۔ ’’؂ خود اپنی اداؤں پہ زرا غور کریں، ہم عرض کریں گے تو شکایت ہو گی‘‘ انھوں نے کہا کہ سارے کے سارے مسلم کانفرنسی اگر ن لیگ میں آجائیں تو انھیں نہ صرف ٹکٹ دیا جائے گا بلکہ مناسب وزارتیں بھی دی جا سکتی ہیں۔ گویا کہ مسلم کانفرنس بری ہے لیکن اس میں شامل لوگ اچھے ہیں۔ سردار عتیق احمد خان نے وفاقی وزراء کی کمیٹی کے سامنے مسلم کانفرنس اور مسلم لیگ کے درمیان اتحاد کا عندیہ ظاہر کر کے دراصل مسلم کانفرنس توڑنے والوں کو ایک بند گلی میں دھکیل دیا ہے۔ سردار عتیق احمد خان پر مخالفین کے سارے کے سارے الزامات غلط ثابت ہو چکے ہیں۔مبصرین کا کہنا ہے کہ سردار عتیق احمد خان نے اتحاد کی پیشکش قبول کرتے ہوئے اپنے دامن کو مسلم کانفرنس کی تقسیم کے الزام سے پاک کر دیا ہے۔ ہاں جن لوگوں نے میاں محمد نواز شریف کی خواہش اور ہدایت کو اہمیت نہ دے کر تنہاء پرواز کا فیصلہ کیا ہے آئندہ انتخابات میں آٹے دال کا بھاؤ پتا چل جائے گا۔ لگ پتا جائے گا۔ مسلم کانفرنس کو میاں نواز شریف سے اب کوئی شکایت نہیں رہی۔ مسلم کانفرنس کے نزدیک نہ صرف میاں نواز شریف آزاد کشمیر میں نواز لیگ قائم کرنے کے الزام سے بری ہو گئے ہیں بلکہ سردار عتیق احمد خان بھی۔
Raja Muhammad Latifg Hasrat
About the Author: Raja Muhammad Latifg Hasrat Read More Articles by Raja Muhammad Latifg Hasrat: 9 Articles with 5573 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.