را کے ایجنٹ کی گرفتاری اور پنجاب میں فوجی آپریشن

 بغل میں چھری اور منہ میں رام رام ۔ عین اسی مقولے کے مطابق بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی عیاری اور دوستی کاپول بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹ کل بھوشن کی گرفتار ی سے کھل چکا ہے ۔ گرفتار ہونے والے را کے ایجنٹ نے جو حیرت انگیز انکشافات کیے ہیں اسے پڑھنے کے بعد ہم جیسا سے ہر شخص حیرت کے سمندر میں ڈوب ہوچکا ہے ۔ ایجنٹ کے مطابق کراچی ٗ بلوچستان بلکہ پنجاب کے وسیع علاقوں میں بھی اپنا نٹ ورک قائم کررکھا تھا بلکہ اب اقتصادی راہداری اس کے نشانے پر تھی ۔ کتنے ہی پاکستانی لوگوں کو پیسوں کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا لیا تھا ۔ کراچی میں بدامنی ٗ اغوا برائے تاوان ٗ بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے رینجر کی رپورٹ سو فیصد درست ہے کہ پاکستان کی معاشی رگ کراچی کو تار تار کرنے میں جہاں را کے ایجنٹوں کا ہاتھ ہے وہاں طاقتور مقامی سیاسی گروپ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے ۔ اس کے باوجود کہ ایم کیو ایم کے بار ے میں ایسے انکشافات ہمیشہ سے سننے میں آتے رہے ہیں بلکہ خود قائد ایم کیو ایم را سے فنڈنگ کا اعتراف کرچکے ہیں لیکن الطاف حسین سے خوفزدہ ہمارے حکمران ایکشن لینے کی بجائے الزامات لگانے والوں سے ثبوت مانگ رہے ہیں ۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری ٗ مہنگائی اور بے وسائلی نے ہر انسان کو موت کے قریب کردیا ہے ۔ یہ وہ حالات ہیں جن کا شکار ہونے والوں کو خریدنا ملک دشمن عناصر کے لیے زیادہ مشکل نہیں ہوتا ۔بطور خاص ہمارے نوجوانوں کا دہشت گردی کی طرف راغب ہونا تشویش کی بات ہے۔جہاں تک ایران میں را کے نٹ ورک کی موجودگی اور وہاں سے پاکستان میں کاروائیوں کی نگرانی کا تعلق ہے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ایران مذہب سے زیادہ مسلک کو ترجیح دیتا ہے اس نے مسلکی جنگ افغانستان سمیت شام عراق لبنان اور یمن میں آج بھی شروع کررکھی ہے ۔اگر عرب ممالک کے عوام انتشار اور اختلاف کی آخری حدیں عبور کررہے ہیں تو اس کے پیچھے بلاشبہ ایران کا ہاتھ ہے ۔پاکستان میں بھی اپنے مسلک کے لوگوں کو مضبوط کرنا وہ ہر چیز سے مقدم تصور کرتا ہے ۔یہ بات بھی اخبارات کے صفحات پر موجود ہے کہ بھارت کی جانب سے ایران میں سو ارب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری کا معاہدہ ہوا ہے بلکہ ایرانی بندرگاہ کو ترقی دے کر گوادرکی اہمیت کو ممکن حد تک کم کرنے کی جستجو کررہا ہے ۔ افغانستان اور ایران بظاہر مسلمان ممالک ہیں لیکن یہ دونوں ممالک کا جھکاؤ بھارت کی جانب زیادہ ہے ۔ گلشن اقبال پارک لاہور میں ہونے والے خود کش دھماکے میں جب عورتوں بچوں کے جسموں کے پرخچے اڑ اور معصوم لوگوں کے خون سے پورا پاکستان سرخ ہوگیا ۔سانحہ گلشن اقبال پارک کے بعد نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں رہنے والے پاکستانیوں کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ۔ہر شخص نوحہ کناں نظر آیا ۔ اس سانحے کے روح پذیر ہونے کے فورا بعد آرمی چیف کی نگرانی میں پنجاب میں دہشت گردوں اور ان کے سہولتوں کاروں کے خلاف ایک ایسا آپریشن شروع کردیا گیا ہے جس میں نہ پنجاب کی حکومت شریک ہے اور نہ ہی پنجاب پولیس ۔پولیس پنجاب کی ہو یا سندھ ۔ ہم سب کو پتہ ہے کہ وہ کتنی بہادر ہے بلکہ بے شمار واقعات میں پولیس اہلکار خود جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ ساتھ خود بھی شریک ہوجاتے ہیں ۔یہ اسی پاکستانی پولیس کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ دہشت گرد اپنے جسم سے بم باندھ کر جہاں چاہتے ہیں آسانی سے پہنچ جاتے ہیں اور اپنا کام کر دکھاتے ہیں ۔صرف لاہور میں جہاں خود وزیر اعلی اور گورنر پنجاب موجود ہیں روزانہ کروڑوں کے ڈاکے اور لوٹ مار کی وارداتیں ہوتی ہیں ۔بے چارے لوگ یہ تصور کرکے صبر کرلیتے ہیں کہ اگر تھانے میں پرچہ درج کروایا بھی تو وقت اور پیسے کا مزید ضیاع ہو گا چنانچہ ہونے والے نقصان کو برداشت کرکے خاموش ہوجاتے ہیں ۔حکومت کہتی ہے کہ سیکورٹی ہائی الرٹ کردی گئی ہے لیکن اس کے برعکس پولیس اہلکار کرسیوں پر بیٹھے موبائل چیٹنگ یا نیند سے اونگتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔پھر یہی اہلکارمٹھی گرم کرکے خود جرائم پیشہ افراد کو فرار کروانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ ان حالات میں آرمی چیف کی جانب سے پنجاب پولیس کے بغیر جو آپریشن شروع کیا گیا ہے۔ عوامی حلقوں کی جانب سے اس کا خیر مقدم کیاجارہاہے۔اب وقت تما م پنجاب کے تقریبا تمام شہروں میں اب تک ایک ہزار دہشت گرد اور سہولت کار گرفتار ہوچکے ہیں ۔حتی کہ رائے ونڈ جہاں سے وزیر اعظم ہاؤس "جاتی عمرہ" زیادہ فاصلے پر نہیں ہے وہاں سے بھی پانچ ایسے دہشت گرد پکڑے گئے ہیں جن کے پاس گلشن اقبال پارک اور پنجاب اسمبلی کی عمارت کے نقشے برآمد ہوئے ہیں ۔ہے نا یہ حیرت کی بات ۔ کہ ایک عام آدمی کو پنجاب اسمبلی کے قریب سے گزرنا بھی بند کردیاگیا ہے لیکن دہشت گردوں کے پاس نقشے بھی پہنچ چکے ہیں ۔ پھر اب تک جتنی بھی دہشت گردی کے سانحات ہوئے ہیں مجرم پولیس یا فوج کی وردی پہن کر وارداتیں کررہے ہیں ۔پنجاب میں براہ راست فوجی آپریشن کو ہر پاکستانی سراہ رہا ہے کیونکہ پولیس کے ساتھ آپریشن کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا ۔اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ پاکستانی پولیس کے اپنے مراسم جرائم پیشہ لوگوں کے ساتھ گہرے ہیں جن کی سرپرستی میں جرائم ہوتے ہیں وہ کیسے مجرموں کے خلاف کاروائی کرسکتے ہیں ۔اﷲ نے چاہا تو جاری فوجی آپریشن کے نتیجے میں وہ تمام دہشت گرد گرفتار ہوں گے جو ابھی تک کھلے پھر رہے تھے لیکن پاکستانی حکمرانوں کو بھارت ٗ ایران اور افغانستان کے ساتھ ذرا سختی سے بات کرنا ہوگی کیونکہ یہ تینوں ممالک اب تک پاکستان کو ڈکٹیٹ کرتے آئے ہیں اور پاکستان ہمیشہ دفاعی پوزیشن پر ہی رہا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے اردگرد لوگوں پر نظر رکھیں اور مشکوک سرگرمیوں کے حامل افراد کی اطلاع فوری سیکورٹی ایجنسیوں کو دے کر محب وطن پاکستانی ہونے کا ثبوت دیں ۔پاکستان کا تحفظ کرنا صرف فوج کا ہی فرض نہیں عوام کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 666992 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.