محبت شرط اوّل ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ایمان نام ہی محبت رسول کا ہے

دنیا میں ہر انسان کو اپنی عزت و ناموس بڑی عزیز ہوتی ہے اور وہ اپنی عزت بچانے کیلئے مال و دولت تو درکنار جان کی بھی پرواہ نہیں کرتا، لوگ تو اُن آبرو کا تحفظ بھی اپنی ذمہ داری گردانتے ہیں جن سے اُن کا نسبی تعلق ہو یا جن سے اُنہوں نے رشتہ محبت و عقیدت استوار کرلیا ہو،یہ بھی حقیقت ہے کہ محب اپنے محبوب کی شان میں ذرا سی بھی گستاخی برداشت نہیں کرسکتا اور پھر اُس کو یہ علم ہو کہ اُسے جو عزت ملی ہے وہ اُس ذات کی وجہ سے ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے اور وہ ہستی دنیا و عقبیٰ میں کبھی اُس کی عزت پر آنچ نہیں آنے دے گی تو ایسی ہستی کے تحفظ و ناموس کی خاطر وہ کیوں نہ کٹ مرے، کیونکہ روح و قالب کا رشتہ توڑ کر ایسی ہستی سے رشتہ جوڑ لینا ہی انسانیت کی معراج ہے، جس طرح ہم اپنے پیاروں کی شان میں کوئی گستاخی برداشت نہیں کرسکتے، بالکل اُسی طرح اللہ جل شانہ‘ بھی اپنے حبیب مکرم، رسول معظم، امام الانبیاءاور خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں توہین و تضحیک نہیں برداشت کرسکتا اور اِس جرم کے ارتکاب کرنے والے کو دردناک عذاب کی وعید سناتا ہے، ارشاد ہوتا ہے ”جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا دیتے ہیں اُن کیلئے درد ناک عذاب ہے“(التوبہ 61:9)،ایک اور مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت دینا اللہ کو اذیت دینا قرار دیتا ہے اور ایسے شخص کو عَذَاباًمُّھِینا کیلئے تیار رہنے کا حکم دیتا ہے، ذخیرہ قرآن و حدیث میں اِس حوالے سے متعدد آیات احادیث موجود ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ایمان نام ہی محبت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے اور حبُ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر ایمان کی تکمیل ناممکن ہے، بلکہ مسلمان ہونے کیلئے شرط اوّلین محبت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے، بخاری کی روایت ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا”تم میں سے اُس وقت تک کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اُس کو اُس کے والد، اُس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔“حضورِ علیہ الصلوٰة والسلام کے اِس ارشاد مبارک سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مسلمان کے ایمان کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ اُس کے دل میں حضور علیہ الصلوٰة والسلام کی محبت اتنی زیادہ ہو کہ ُاس کی موجودگی میں اُس کو اپنے تمام حقیقی رشتے بھی ہیچ نظر آئیں، مسلمان کی اِسی کیفیت کو ایک حدیث شریف میں ایمان کی معراج بتایا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک بار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اپنی اولاد اور والدین کے بعد سب سے زیادہ آپ سے محبت ہے، حضور نے ارشاد فرمایا کہ ابھی نہیں …یعنی ابھی آپ کا ایمان مکمل نہیں ہوا … کچھ دیر کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اب مجھے اپنی اولاد اور اپنے والدین سے بھی زیادہ آپ سے محبت ہو گئی ہے، آپ نے فرمایا ”ہاں اب ٹھیک ہے…یعنی اب تمہار ا ایمان مکمل ہو گیا ہے… اِس حدیث کے ذیل میں علماء کرام فرماتے ہیں کہ مسلمان کے ایمانِ کامل کا تقاضا یہ ہے کہ آپ علیہ الصلوٰ ة والسلام کی ذاتِ اقدس سے اتنی محبت ہو جائے کہ اُس کی موجودگی میں دنیا کے تمام رشتے اور تمام چیزیں معمولی نظر آئیں، یعنی اپنے والدین، اولاد اور مال و دولت سے بڑھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔

تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ِ مبارکہ میں بھی بعض ایسے شیاطین پیدا ہوئے، جنہوں نے جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کا ارتکاب کیا، ایسے اشخاص کی سرکوبی کے لئے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو روانہ فرمایا اور حضرات صحابہ کرام نے ایسے اشخاص کو واصل جہنم کر کے دربارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جنت کا پر وانہ حاصل کیا،اِن واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں دریدہ دہنی،سب وشتم اور گستاخانہ کلمات کا زبان سے نکا لنا کتنا ناقابل معافی جرم ہے، تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی بدبخت نے یہ مذموم حرکت کرنے کی کوشش کی تو ایسے شخص کو نشانِ عبرت کا نشان بنا دیا گیا،اِس لیے کہ یہ مسئلہ مسلمانوں کے دین و مذہب اور ایمان کی بقاء کا ہے،تاریخ میں اِن عاشقان رسول کے اسمائے گرامی آج بھی زندہ و روشن ہیں جنہوں نے ایسے شیاطین کو اُن کے منطقی انجام تک پہنچایا۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا ایک مسلمان سب کچھ برداشت کر سکتا ہے لیکن شانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گستاخی اُس کیلئے ناقابل برداشت ہے،توہین رسالت کے حوالے سے پاکستان سمیت کئی اسلامی ممالک میں قانون موجود ہے اور مسلمانوں کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے حوالے سے غیر مسلم دنیا کو بھی مکمل آگاہی ہے، لیکن اسکے باوجود وقفے وقفے سے کچھ لوگوں نے آزادی اظہار کے نام پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کو اپنا وطیرہ بنالیا ہے،لیکن ایسی آزادی اظہار رائے جس سے دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوتے ہوں،اِس کی اجازت نہ تو کوئی مذہب دیتا ہے اور نہ ہی کسی ملک کا دستور، ہم سمجھتے ہیں کہ جن ملکوں سے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کی روایت شروع ہوئی،اُن ملکوں کی حکومتیں اِس میں برابر کی شریک ہیں، جو اپنے کسی بھی شہری کو اِس بات کی اجازت نہیں دیتیں کہ وہ ہولو کاسٹ پر کچھ لکھے،اُس کا انکار کرے یا مذاق اڑائے،یہ وہ حکومتیں ہیں جو دنیا بھر میں انسانی حقوق کی چیمپئن بنی ہوئی ہیں۔

لیکن اُن کا طرز عمل یہ ہے کہ اگر ایک راہبہ پورا جسم ڈھانپے اور سکارف پہنے تو اُس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا،مگر اگر مسلمان خواتین حجاب پہنیں تو اُن پر پابندی عائد کی جاتی ہے،حقیقت یہ ہے کہ ایک باقاعدہ منظم منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کے مذہبی شعائر کو نشانہ بنایا جارہا ہے،کبھی فرانس میں برقع پر پابندی عائد کی جاتی ہے تو کبھی چاپان میں ملازمین کا داڑھی جرم قرار پاتا ہے،کبھی بلجیئم میں برقع پر پابندی کے خلاف مسلمانوں کو احتجاج کے حق سے بھی محروم کردیا جاتا ہے تو کبھی سوئٹزر لینڈ میں مسجدوں کے میناروں کی تعمیر پر پابندی لگادی جاتی ہے،آخر یہ سب کچھ کیا ہے؟ یہ سارے اقدامات کیا اِس بات کا ثبوت فراہم نہیں کر تے کہ ڈنمارک ہو یا ہالینڈ ہو،جاپان ہو بلجئیم ہو یا امریکہ،تمام عالم کفر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک متفقہ پالیسی کے تحت بھرپور سازشوں میں مصروف ہیں۔

ذرا انصاف کا دامن پکڑ کر فیصلہ کیجئے کہ اگر پاکستان میں حکومت عیسائیوں یا ہندوﺅں کے کسی مذہبی شعائر پر پابندی عائد کر دیتی تو کیا امریکہ سمیت یورپی ممالک اسے ہضم کر پائیں گے،یقیناً نہیں بلکہ امریکہ اور برطانیہ کی حکومتوں کے ردعمل سے بھی پہلے پاکستان میں امریکی پٹاری کے لبرل فاشٹ اور حقوق حیوانات کی عالمی چیمپئین این جی اوز پورے ملک کو سرپر اٹھالیں گی،کیونکہ اُن کو ہر غلطی،ہر قصور،ہر جرم صرف اور صرف مسلمانوں کا ہی نظر آتا ہے،آج اگر فرانس میں برقع پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے تو یہ حکومت فرانس کا حق بنتا ہے،اگر بلجئیم برقع پر پابندی عائد کرتا ہے تو یہ لوگ حکومت بلجئیم کو اس کا حق دیتے ہیں،لیکن اگر پاکستان میں گستاخان رسول کے خلاف توہین رسالت ایکٹ لاگو کیا جاتا ہے تو سارے عالم کفر کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہو جاتی ہے اور یہ لوگ توہین رسالت کے قانون کو ختم کروانے کیلئے مصروف عمل ہو جاتے ہیں،حالانکہ توہین رسالت کا قانون بھی دنیا کے ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حکومت نے اپنی مذہبی اصولوں اور تقاضوں کے مطابق بنایا ہے۔

آج توہین رسالت کے مزموم فعل کے مکمل خاتمے کیلئے ہر اسلامی ملک کی طرف سے انفرادی سے زیادہ اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے،لیکن سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اسلامی دنیا کی قیادت کی جانب سے کسی قسم کی مذمت یا ردعمل سامنے نہیں آتا،جس کی وجہ سے اِن گستاخان رسول کی جراتیں بڑھ جاتی ہیں،جو حدیثِ بالا کی رُو سے اُن کے ایمان اور ایمانی غیرت پر سوالیہ نشان ہے،آج دنیا میں ریاست کی مخالفت کو سنگین بغاوت اور غداری جیسا جرم قرار دیا گیاہے،اِسی وجہ سے دنیا کے تمام ملکوں میں خواہ وہ سیکولر ہوں یا غیر سیکولر جرم بغاوت کا قانون موجود ہے،جس کی سزا،سزائے موت مقرر ہے،جو لوگ بھی اِس جرم میں ملوث ہوتے ہیں،انہیں گولیوں سے اڑا دیا جاتا ہے یا پھر تختہ دار پر کھینچا جاتا ہے اور جن ممالک میں اِس جرم کی سزا،عمر قید ہے،وہاں ایسے ملزموں کو عقوبت خانوں میں تڑپ تڑپ کر مرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے،مگر اِس قانون کے خلاف آج تک کسی نے لب کشائی نہیں کی،تو کیا پھر وہ ذات مبارکہ جس کی وجہ سے یہ دنیا معرض وجود میں آئی، جن کا نامِ نامی ہی اِس دنیا کے قیام اور بقاء کی ضمانت ہے،اُن کی عزت اور ناموس پر حملہ کرنے والوں کے خلا ف قانون توہین رسالت،قابل اعتراض قانون ہے۔؟

ہماری رائے میں قانون توہین رسالت پر اعتراض دراصل دین و مذہب بلکہ خود اپنی عقل و دانش اور فہم و فراست سے یکسر انکار ہے،لہٰذا یہود و نصاریٰ کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ مسلمان اپنے آپ کو گالی دینے والے کو تو سو بار معاف کر سکتے ہیں، لیکن اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کا ارتکاب کرنے والے کو ایک لحظہ بھی برداشت اور معاف نہیں کر سکتے،کیونکہ یہی اُن کے ایمان کا حصہ اور رمز ایمانی ہے،لیکن آج عالم اسلام کی کمزوری کی وجہ سے یہود و نصاریٰ کو اتنی جرات حاصل ہوگئی ہے کہ وہ مسلما نوں کی اساسِ ایمان پر ڈاکہ ڈالنے لگے ہیں اور کھلے عام اپنے خبث ِ باطن کا اظہار کرتے ہوئے کبھی مسلمانوں کے دین و مذہب کا مذاق اڑاتے ہیں،کبھی قرآن و سنت کو نشانہ تنقید بناتے ہیں اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو .…نعوذباللہ .... تختہ مشق بناتے ہیں،پھراِس فعلِ قبیح کو آزادی صحافت کی آڑ میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ایسے شرمناک اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والے اقدامات کا مقصد مسلمانوں کو ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و عقیدت سے دور کرنا ہے،لیکن اِس قسم کے اقدامات سے کبھی بھی روحِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کے بدن سے نہیں نکالی جا سکتی ہے،ہاں یہ ضرور ہے کہ اِس طرز عمل سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں اور انکے دل کٹ کر رہ جاتے ہیں،چند سال قبل ڈنمارک،سویڈن اور ناروے میں کچھ جرائد نے توہین آمیز خانے شائع کئے تو عالم اسلام سراپا احتجاج بن گیا،مسلمانوں کی طرف سے شاتمانِ رسول کو سزا دینے اور جرائد بند کرنے کے مطالبات کئے گئے،لیکن اِس پر کسی نے کان نہ دھرے،تاہم ایک لعین کارٹونسٹ کو اسکے ایک ہم وطن نے انجام تک پہنچا دیا اور ایک گھر میں لگی آگ میں جل کر جہنم واصل ہو گیا،لیکن مغرب نے عالم اسلام کے جذبات کو مجروح کرنے والی اِس شرمناک حرکت کا کوئی نوٹس نہ لیا۔

اگر حکومتی سطح پر مذکورہ جرائد بند کرا دیئے جاتے،گستاخانہ خاکے بنانے والوں اور انہیں شائع کرنے والے شیطانوں کو سزا دلا دی جاتی اور مسلم اُمہ کی طرف سے اِس کا بھرپور جواب دیا جاتا تو آج فیس بک انتظامیہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کی جرات نہ ہوتی،اِن حالات میں محب وطن پاکستانیوں اور مخلص مسلمانوں کو کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے یہ آج کا سب سے بڑا اہم اور سلگتا ہوا سوال ہے،ہم سمجھتے ہیں اِن حالات میں کوئی بھی جذباتی قدم اٹھانے کی بجائے انتہائی غور وفکر اور تدبر کے ساتھ کافروں اور منافقوں کی چالوں کا انہی کے انداز میں منہ توڑ جواب دینا چاہیے اور پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کو اِس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ کافر و منافق مسلمانوں کو اُن کے رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دور کرنا چاہتے ہیں،جس میں وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتے ۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 346634 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More