پاکستان میں بھارتی ایجنٹوں کی براہ راست
مداخلت کوئی نہیں بات نہیں ہے لیکن حالیہ مہینوں میں جس برق رفتاری سے را
کے ایجنٹ گرفتار ہو رہے ہیں اس سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ پاکستان کی
سلامتی کے دشمن جس تندہی کے ساتھ مصروف عمل ہیں وہ باعث تشویش اس لئے ہے کہ
را ایجنٹوں کی کثیر تعداد پاکستانی وطن فروشوں کی ہے جنھوں نے روپوں کے
خاطر اپنی ماں کا سودا کیا۔براستہ ایران سے پاکستان میں داخل ہونے والا
بھارتی ایجنٹ کو بھارتی حکومت نے اپنی نیوی فورس کا ملازم تسلیم کرلیا
ہے۔یہ بلوچستان میں ملک دشمن عناصر کے خلاف مصروف عمل پاکستانی سیکورٹی
فورسز کا اہم کارنامہ ہے ۔ پاکستان اس سے قبل بھی ’ را‘ ایجنٹس کو گرفتار
کرچکا ہے اور دنیا کے سامنے بھارتی مکروہ چہرہ و و غلا پن سامنے لا چکا ہے
کہ پاکستان کو روز اول سے ہی تسلیم نہ کرنے والا انتہا پسند ہندو بنیا
دراصل پاکستان کے حصے بخرے کرکے اکھنڈ بھارت کے خواب کی تکمیل چاہتے ہیں۔
کراچی اور بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کی سازشیں بھی منظر عام پر آچکی
ہے ،بد نام زمانہ عزیر بلوچ بھی اقرار کرچکا ہے کہ ایسے بلوچستان اور کراچی
کو علیحدہ کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا ، اس نے اپنے سرپرستوں کے نام بھی
بتائے لیکن ان پر نامعلوم کیوں ہاتھ ڈالنے سے حکومت گریزاں نظر آتی ہے ۔
کراچی میں متعدد جرائم پیشہ افراد گرفتار ہوئے جنھوں نے اقرار کیا کہ انھیں
بھارت میں پاکستان کے خلاف کام کرنے اور دہشت گردی پھیلانے کے ٹاسک دئیے
گئے ، لیکن ان کے سر پرستوں پر بھی ہاتھ نہیں ڈالا گیا، کراچی کی ایک لسانی
جماعت کے اہم اراکین اس بات کا اقرار کرچکے ہیں کہ 1992ء آپریشن کے بعد
صورتحال ایسی ہوگئی تھی کہ ان کے کارکنان اپنی مرضی سے بھارت گئے ، جاوید
لنگڑا ، اجمل پہاڑی سمیت کئی را کے ایجنٹ منظر عام پر آچکے ہیں اپنے
سرپرستوں کے نام لے چکے ہیں لیکن ان پر بھی قانون کے لمبے ہاتھ چھوٹے پڑ
گئے ہیں۔بات صرف کارکنان کی حد تک نہیں رہی بلکہ اسی جماعت کے سربراہ اور
ان کے اہم اراکین نے لندن منی لانڈرنگ کیس میں بھارتی فندنگ کا اقرار کرلیا
اور تحریری طور مان لیا کہ انھوں نے بھارت سے فنڈز حاصل کئے ، اب یہ لازمی
بات ہے کہ یہ فنڈز کسی گاؤں میں اسکول کی تعمیر کے لئے تو بھارت نے نہیں
دیئے ہونگے بلکہ ملک کو کمزور کرنے کیلئے مالی امداد سمیت کہیں مراعات بھی
دیں ہونگی ، لیکن ان پر بھی صرف بیان بازی تک ہی محدود ہو گئے۔ با کمال
پارٹی نے میڈیا کے سامنے گواہی دی کہ یہ نوجوان بھٹک گئے تھے انھیں کوئی
راہ دیکھانے والا نہیں تھا ، وہ جیل میں ہیں لیکن ان سے کام لینے والے آرام
کر رہے ہیں۔پاکستان کی توڑنے کی سازش پہلی بار نہیں ہو رہی کہ ہم تحمل سے
کام لیں اب تو پاکستان کے پاس ایسے نا قابل تددید ثبوت موجود ہیں کہ ہم
عالمی امن کے داعی اداروں میں اپنا کیس بے خوفی سے لے جاسکتے ہیں کہ
پاکستان میں بھارتی مداخلت کے ان ناقابل تردید ثبوت کے بعد بھی اقوام متحدہ
خاموش بیٹھی رہے گی تو یہ مجرمانہ چشم پوشی اور پشت پنائی گردانا جائے گا۔
لیکن پاکستان کو اس معاملے میں سنجیدگی سے سخت عمل لے لینا چاہیے ، پاکستان
میں بھارت کی جانب سے کراچی ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے
واقعات میں" را " کی بڑھتی مداخلت کے بعد اصولی طور پر پاکستان کو بھارت سے
سفارتی تعلقات وقتی طور پر ختم کردینے چاہیں اور ان کے سفارت خانوں کو بند
کرکے تمام سفارتی اہلکاروں کو بیدخل کردینا چاہیے ، پاکستان سے اپنے تمام
سفارتی عملے کو واپس پاکستان بلالینا چاہیے اور ہر قسم کی تجارت پر پابندی
عائد کردینی چاہیے ، امن کی آشا کا راگ الپانے کے بجائے جرات مندی کا
مظاہرہ کرنا چاہیے کہ بھارت ایک ہندو انتہا پسند حکومت پہلے ہی پاکستان کو
عظیم نقصان سے دوچار کرچکی ہے ، بر ملا اس کا ہر ملکی و غیر ملکی فورم پر
سرکاری سطح پر اقرار و ٖفخر بھی کرتی ہے ۔ اگر71ء میں ہی پاکستان بھارت سے
مستقل سفارتی تعلقات ختم کردیتا تو آج کراچی ، بلوچستان اور افغانستان میں
انارکی نہیں ہوتی ، دہشت گردی سے ہزاروں بے گناہ انسان شہید نہ ہوتے۔کراچی
پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنا چکا ہوتا ۔ لسانیت ، صوبائیت اور فرقہ واریت
کی بنیادوں پر پاکستانی مسلم کبھی تقسیم نہیں ہوتے۔چاردہائیوں میں پاکستان
آسمان سے زمین پر جا گرا ہے لیکن ہماری بیو رو کریسی کے مزاج ابھی تک
ساتویں آسمان پر ہیں۔اب یہ بچا کچا پاکستان بھی ان سے برداشت نہیں ہورہا اس
لئے کراچی اور بلوچستان میں بھارت کے ناقابل تردید ثبوت مل جانے کے بعد
کوئی جواز نہیں باقی نہیں رہتا کہ پاکستان اب بھی دوستانہ تعلقات کی امیدیں
رکھے۔حال ہی میں بھارتی میڈیا میں بھارتی ہندو انتہا پسند جماعت کے لیڈر
واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کو جتنا تقسیم کیا جاسکتا ہے تقسیم کیا
جائے۔ اس کے بعد بھی ہم کس بات کا انتظار کر رہے ہیں بھارت ایک اچھا ہمسایہ
ثابت ہوگا تو ہم ابھی تک بھنگ کے نشے میں ہیں جس میں ہمیں ہر طرف امن کی
آشا ئیں ، نظر آ رہی ہیں۔دو قومی نظریہ کو تو 71ء میں بنگالیوں نے سمندر
برد کردیا تھا ، اب کیا موجودہ پاکستان کو بھی حقوق نہ ملنے کے نام پر ٹکڑے
ٹکڑے ہو جانا چاہیے۔ بلوچستان اور کراچی میں جو رام لیلا رچی جا رہی ہے اس
سے آنکھیں کیوں بند کئے بیٹھے ہیں ، دشمن سے جب لڑائی ہو رہی ہوتی ہے تو
داغے جانے والے گولے یہ نہیں دیکھتے کہ کس کے جسم کے کتنے پرخیجے اڑے۔ اس
کا کام صرف تباہی اور نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ بھارت کی کنڈلی میں اژدھا اور
ہماری آستنوں میں سانپ بیٹھے ہوئے ہیں جو پاکستان کو ڈس بھی رہے ہیں اور
نگل بھی رہے ہیں اور ہم لکی رانی سرکس کا کوئی کھیل سمجھ رہے ہیں کہ ٹکٹ
ختم پیسہ ہضم۔اس بات کی قوی امید ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اپنے منشور میں
تبدیلی کرکے چیئرمین کسی اقلیت کو بنائے گی۔پاکستان کے نام سے اسلامی کا
لفظ ختم کرکے آئین میں تبدیلی کے لئے نئی ترمیم پیش کرے گی، پاکستان کا صدر
و وزیراعظم کسی غیر مسلم بنانے کیلئے انھیں آئین میں ترمیم کے لئے رضا
ربانی اور اعتزاز احسن ، عاصمہ جہانگیر سے فوری مدد لے لینی چاہیے۔امید یہ
بھی رکھنی چاہیے کہ بلاول بھٹو اور بہنوں کے رشتے بھی اقلیتوں میں ہونے
چاہیے ، انھیں مسلم اسلامی نظام سے چڑ جو ہے ، اس لئے آصف علی زرداری اپنے
بچوں کو آشیر باد دے سکیں گے۔ بات صرف صدر یا وزیر اعظم کے غیر مسلم بنائے
جانے تک محدود کیوں رکھی جائے ، انھیں اس بڑھ کر پہلے خود قدم اٹھانا ہوگا
۔پاکستان کو لبرل و سیکولر بنانے کی باتیں تو ارباب اختیار کر ہی رہے ہیں
تو پھر مذہب کا کیا کام ؟۔ اسلامی نظام جانے افغانستان جانے ۔فلسطین میں
مسلمانوں کے خون سے زمین تر ہوتی رہے اس سے بھی کیا فرق پڑتا ہے ، شا م ،
عراق میں فرقہ واریت کی جنگ میں مسلم امہ کی وحدت کو پارہ پارہ ہوجانے
دیجئے ۔ کیوں 34رکنی اسلامی فوجی بلاک کا حصہ بن رہے ہیں ۔ بھجن گا یئے اور
نعرے بندے ماترم کے لگائے۔آپ کو لگتا ہے کہ جذباتی ہوگیا ہوں اسلئے کہہ رہا
ہوں ، نہیں ایسی بات نہیں ہے ، بھارت کیخلاف ہمارے یہ سیاست دان اپنی اوقات
سے زیادہ اس لئے نہیں بڑھتے کیونکہ ان کے اپنے ذاتی مفادات ہیں،را کے
ایجنٹوں کی یلغار ایک جانب تو دوسری جانب ان کا کاروبار ہے ۔ان کے اپنے
ذاتی مفادات نے انھیں بھارت کے خلاف سخت ایکشن لینے سے روکے رکھا ہے ۔اس
بات کا کریڈٹ بھارت کو ضرور جاتا ہے کہ چاہے ان کی کسی بھی علیحدگی پسند
تنظیم نے بھارت میں کچھ کیا ہو ، اس کا جواب فوراََ دیتی ہے ۔سارا ملبہ
پاکستان پر ڈال دیتی ہے۔ انتہا پسندی کی عظیم مثالیں ہیں لیکن ان کو کسی کی
پرواہ نہیں ہے ۔یہ صوبائی ، قومی اور سینیٹ کی اسمبلیاں کر کیا رہی ہیں ،
ان کی کون سی قانون سازی اسلام کے مطابق ہو رہی ہے ۔اسلام کے آفاقی اصولوں
اور قوانین اور پاکستان کے آئین کا کھلم کھلا مذاق اڑایا جاتا ہے۔اگر
پاکستان میں کوئی کہہ دے کہ نظام خلاف راشدہ کا ہونا چاہیے تو ایک ہنگامہ
برپا ہوجاتا ہے ۔ پاکستان کا نظام اسلامی ہونا چاہیے تو جناح کو شیعہ اور
سیکولر بنانے کیلئے سر دھڑ کی بازی لگا دی جاتی ہے ۔ لیکن جب کوئی کہے کہ
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صدر و وزریر اعظم مسلمان کے بجائے ہندو یا اقلیت
سے ہونا چاہیے تو ہماری زبانوں پر تالے پر جاتے ہیں۔اس بے حسی کی وجہ
بھارتی ثقافتی یلغار ہے جو گھر گھر کی کہانی بن چکی ہے ۔ ہمیں ہندو او ر
مسلم میں فرق نظر نہیں آتا کیونکہ را کے یجنٹوں نے ملک سے باہر اور ملک کے
اندر بیٹھ کر پورے پاکستان کی برین واشنگ کردی ہے۔اس برین واشنگ کو روکنے
کا واحد طریقہ انگلی تیڑھی کرنا نہیں ہے اور نہ ہی گرم تاپ پر گھی کو
گھلانا ہے بلکہ اصولی دائرے میں رہتے ہوئے نئی نسل کی آبیاری تک بھارت سے
قطع تعلقات ، سفارتی تعلقات سمیت تمام معاملات کو لیپٹ کر رکھنے ہونگے ،
اگر پاکستانیوں کو آلو نہیں ملے تو مر نہیں جائیں گے۔بات رہ گئی کہ دونوں
ممالک میں رہنے والے رشتے داروں کی ، تو ملک کی اتنی قربانی تو دی جاسکتی
ہے۔پاکستان قائم رہا تو سب کا وجود ہے قائم دائم ہے ، رشتے داریاں بھی
حقیقت ہے لیکن !! |