اسلام آباد دھرنا

یہ 1986ء کا ذکر ہے جب پاکستان میں توہین ِ رسالت پر موت کی سزا منظور ہوئی ۔ اس قانون کے نفاذ میں ، مذہبی ذہن رکھنے والے اُس وقت کے اراکینِ اسمبلی نے بڑی تگ و دو کی۔ اِن میں محترمہ نثار فاطمہ، علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری، علامہ سید شاہ تراب الحق قادری، محمد حنیف حاجی طیب، محمد عثمان خان نوری، صاحبزادہ محمد احمد نقشبندی، قمر النساء قمر، میر نواز خاں مروت(سابق وفاقی وزیر ِ مملکت برائے قانون) اور دیگر ہم خیال افراد کا کردار بہت اہم رہا۔ قائمہ کمیٹی میں علامہ سید ریاض حسین شاہ اور ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے دلائل دیئے۔ اسمبلی کے باہر عدالتی بحث میں ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے قابلِ تحسین کردار ادا کیا۔جنرل محمد ضیاء الحق کے بعد ایک طرف اسلام سے الرجک آزاد خیال طبقے نے پر پرزے نکالے تو دوسری طرف اس قانون کو، غلط استعمال کئے جانے کے الزامات کا بھی سامنا کر نا پڑا۔ جبکہ دیگر قوانین کے بھی غلط استعمال کے شواہد موجود ہیں مگر ان کے خلاف کبھی اس انداز میں آواز بلند نہ ہوئی۔ یہاں تک کہ عالمی سطح پرطاقتور ممالک بھی پاکستان سے قانونِ توہین رسالت کے خاتمے کا مطالبہ کرنے لگے۔

اس قانون کے تحت کئی افراد کو موت کی سزا سنا ئی گئی مگر عمل در آمد غالباًکسی عدالتی حکم پر نہ ہوا۔ اس کی وجہ وہ داخلی اور عالمی دبا ؤ ہے ، جس کا سامنا کرنے کی پاکستان میں ہمت و صلا حیت ہے اور نہ سکت ۔ ورنہ عراق، لیبیا،فلسطین، کشمیر افغانستان،، مصر کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔دوسری طرف پاکستان عالمی سطح پر ، پروپیگنڈے ، خارجہ پالیسی اور ملکی استحکام و ترقی کے محاذ پر کامیاب نہ ہو سکا اور کشمیر، سیاچین، پانی اور دہشت گردی سمیت مختلف اشوز پر بھی اپنے مطالبات کو عالمی دنیا سے منوانے میں نا کام رہا۔مختلف سطوح پر ہونے والی سازشوں اور کرپشن مافیا نے اس ملک کو جو زخم دیئے ، اُن کی داستاں بڑی طویل ہے۔ یہ پاکستان کی کمزوری ہی تو تھی کہ اِسے دہشت گردی میں ملوث امریکی اور بھارتی جاسوس رہا کرنا پڑے اور پاکستان اپنے توہین رسالت کے قانون پر بھی عمل کرنے سے قاصر ہے۔ صرف اس لیے کہ یہ ملک اور اس کے غیر منظم عوام، آزاد خیال میڈیا اور مغربی ممالک کے ردّعمل کا سامنا نہیں کر سکتے۔

جب عدالت نے آسیہ مسیح کو توہین ِرسالت کے ارتکاب پر سزا سنائی توسلمان تاثیر سمیت ، نام نہاد انسانیت پسند اور روشن خیال طبقے نے عدالتی فیصلے کی مخالفت کی۔ قانون کو بے بس اور لا چار دیکھ کر محمد ممتاز حسین قادری نے از خود قانون کی پاسدار ی کی، جس کے نتیجے میں ممتاز قادری کو پھانسی دے دی گئی ۔جبکہ جیلوں میں ایسے افراد بھی ہیں جنہیں ممتاز قادری سے پہلے پھانسی کی سزا ئیں سنائی گئی تھیں۔ممتاز قادری کی پھانسی نے اُن کے امن پسند حامیوں کو شدید ذہنی اذیت سے دوچار کیا۔ ممتاز قادری کے جنازے پر لاکھوں افراد کی شرکت نے پھانسی کے فیصلے پر عدمِ اعتماد کا اظہار کیا تو دوسری طرف جمہوریت اور آزادی ٔ اظہار کے لبرل دعویداروں نے پُر امن عوام کی جنازے میں شرکت کو بھی کور نہ کیا۔ یہ اقدام ، ممتاز قادری اورقانونِ توہین رسالت کے حامیوں کی مزید دل آزاری کا باعث بنا اور اِس نے اُن میں غم و غصے اور اشتعال کو پروان چڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ تاہم انھوں نے لوٹ مار اور قتل و غارت گری کا وہ بازار گرم نہ کیا جو بے نظیر بھٹو کے قتل پر اُن کے چاہئے والوں نے کیا تھا۔ آسیہ مسیح کوعدالتی فیصلے کے با وجود پھانسی نہ دیئے جانے، قانونِ نسواں، حکومتی و عدالتی فیصلوں میں تضادات اور پاکستان کو من پسند لبرل بنانے کے عزائم کے اظہار نے محبانِ پاکستان کو تشویش میں مبتلا کر دیا ۔ پھر حکومتی ایما پر ممتاز قادری کے پُر امن چہلم کی تقریب کو بھی میڈیا پر، مطلوبہ کور نہ کرکے گویا آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کیا گیا۔ بعض اینکرز اوراُن کے من پسند تبصرہ کاروں نے تو اس کی آڑ میں غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز تبصروں سے بھی گریز نہیں کیا۔

حکومت اور میڈیا نے پُر امن عوام میں جس نفرت اور اشتعال کو پروان چڑھایا، اس سے عوام کو پارلیمنٹ کے باہر دھرنا دینے کی راہ ملی۔ دھرنے کے لئے مختلف مذہبی تنظیموں اور راہنماؤں نے اپنا کردار ادا کیا۔ دھرنے کے موقع پر قابلِ احترام مذہبی جذبہ اور ولولہ انگیز نعرے اپنی جگہ مگر اِس موقع پر بعض نادان اور جذباتی افراد نے ملکی املاک کو نقصان پہنچایا توبعض نے اپنی تقریروں میں نا زیبا زبان استعمال کی ، جس کی دوران ِ مذاکرات معذرت کی گئی۔ کئی چینل نے دھرنے کی وجوہات اور قائدین کے مؤقف سے عوام الناس کو آگاہ کرنے میں چشم پوشی سے کام لیا اور یک طرفہ انداز میں دھرنے کی بھرپور مخالفت کی۔ جس میڈیا نے امن پرور اور قانونی اجتماعات کا بائیکاٹ کیا تھا ، اب وہ کچھ کچھ دھرنے کی کوریج کر کے اس کو لا قانونیت اور بد امنی پھیلانے کی سازش قرار دینے لگا۔ ضروری سہولتوں کا فقدان، کھانے کی فراہمی پر پابندی، پریشانی میں اضافہ، حکومت کی ہٹ د ھرمی اور پُر تشدد عزائم کے باعث کچھ لوگ آگے آئے تاکہ با عزت واپسی کا راستہ تلاش کیا جا سکے اور دھرنے کا باوقار خاتمہ ممکن ہو۔ اس ضمن میں وفاقی وزیر محمد امین الحسنات شاہ، شاہ محمد اویس نورانی، حاجی رفیق پردیسی اور محمد نور الحق قادری نے وفاقی وزیر محمد اسحاق ڈار اور خواجہ سعد رفیق کو درمیان میں ڈالا ۔خواجہ سعد رفیق کے گھر مذاکرات ہوئے، جس کے نتیجے میں دھرنا ختم کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔
moinnoori
About the Author: moinnoori Read More Articles by moinnoori: 10 Articles with 14975 views Ex- Rukun of ATI
Complier of a book on students politics name "ANJUMAN TALABA-E-ISLAM: NAZARIYAT, JIDDOJEHED, ASRAAT" AND HAFIZ MUHAMMAD TAQI
.. View More