باغوں کا شہر لاہور ، جو کبھی اپنے باغات
کی وجہ سے مشہور تھا ، کبھی داتا کی نگری کہلایا ، کبھی مادھوں لال حسین کی
آنکھ کا تارہ تھا تو کبھی شاہ جمال نے اپنا ڈیرہ جمایا، شاہ عنایت قادری کے
دل کو بھی لاہور ہی بھایا ،کبھی اپنے بازاروں کی رونق کی وجہ سے لاہور کو
چار چاند لگے ، کبھی پہلوانوں کے اکھاڑوں کی وجہ سے، کبھی کھیل کے میدانوں
کی وجہ سے،کبھی اپنے اندر سموے تعلیمی اداروں کی وجہ سے ، کبھی اپنی ٹھنڈی
سڑکوں کی وجہ سے ، کبھی پورے ہندوستان کی فلمی صنعت کو پروان چڑھانے کی وجہ
سے ، راوی لاہور کے پاس سے گُزرا تو اُسی کا ہو گیا،خاندان غلاماں کے قطب
ائدین ایبک ہوں یا مغل سلطنت کے بڑے بڑے نام۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ ہو
یاانگریز حکمران ، سب ہی لاہور پر مر مٹے ،
لاہور کو لوٹنے والی بھی بہت ملے ، لاہور کو سنوارنے والے بھی بہت ملے ،
مسلم ہوں یا غیر مسلم لاہو ر کے سحر سے کوئی نہ بچ سکا، شائد یہ لاہور کا
ہی سحر تھا کہ اکبر نے لاہور کا شاہی قلعہ بنوایا مغل بادشاہ اورنگزیب نے
لاہور کے سینے پر بادشاہی مسجد کھڑی کر دی جس میں آج کئی صدیوں بعد بھی
تکبیر کی صدائیں صبح و شام گونجتی ہیں سر گنگا رام نے اپنے نام سے گنگارام
ٹرسٹ ہسپتال بنا دیا گلاب دیوی ہسپتال پنجاب کے ٹی بی کے مریضوں کے لیے ایک
نعمت بنا، گوروں نے میو ہسپتال بنا دیا ، لیڈی ولنگڈن اور لیڈی ایچیسن
ہسپتال بھی لاہور سے محبت کا منہ بولتا ثبوت بنے ، گورنمنٹ کالج لاہور
ایچیسن کالج ،ایف سی کالج، ایم اے او کالج، پنجاب یونیورسٹی ، لاہور کی
تہذیب و ثقافت کا آئینہ دار بنے، علامہ اقبال لاہور آے تو لاہور میں دفن ہو
ناپسند کیا ،تحریک پاکستان شروع ہوئی تو قائد اعظم نے لاہور میں قرارداد
پاکستان منظور کروائی ، لاہوردن دُگنی رات چوگنی ترقی کرتارہا گیارویں صدی
سے لیکر 19 صدی تک لاہور کو لوٹنے والے بھی بہت بسانے والے بھی بہت ، سب
لُٹیرے ختم ہو گئے اﷲ کے فضل سے لاہور ختم نہ ہو سکا ،لاہور پھلتا رہا
لاہور پھولتا رہا قیام پاکستان کے بعد جدید لاہور کی بنیاد رکھی گئی، نئے
نئے تعلیمی ادارے بنے ، ہسپتال و عوامی فلاح کے نت نئے منصوبے شروع ہوے ،
لاہور کو جو بھی حاکم ملااس نے لاہور کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالا، ایک وقت
تھا لاہور کا امن مثالی تھا کراچی سے لیکر پشاور تک لوگ رزق کی تلاش میں
لاہور کی طرف کھنچے چلے آتے تھے -
مگر پھر امریکہ میں 9/11 کا واقعہ ہو گیا ، بس پھر کیا تھا حالات عجیب صورت
اختیا ر کرتے چلے گے ،کبھی لاہور کے کسی چرچ پر حملہ ، کبھی لاہور کے دل
مون مارکیٹ میں دھماکہ ، اور تو اور سری لنکا کی کرکٹ ٹیم کو بھی نہ بخشا
گیا ، جس سے پاکستان میں کرکٹ کے گرونڈ غیر آباد ہوے ، واہگہ باڈر پر
درجنوں لوگ لقمہ اجل بنے ، مگر خون کے پیاسوں کی پیاس ختم ہونے کا نام نہیں
لے رہی ،جس لاہور نے کبھی دہشت گردی کا نام نہیں سنا تھا اسی لاہور کے
باسیوں کے لیے 27 مارچ2016 کی شام شام غریباں بن کر آن پہنچی ، ، گلشن
اقبال پارک سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا ، پارک میں حسب معمول بچے
اپنے ماں باپ کے ساتھ موج مستی کر رہے تھے کئی لوگ اپنے دوست احباب کے ساتھ
سیر کر رہے تھے یکایک ایک زور دار دھماکہ ہوا، تین سو کے قریب افراد زخمی
اور 72 افراد شہید ہوے ،شہید ہونے والوں میں 30 بچے بھی شامل تھے ، اس شام
پہلی بار لاہورکے باسی افسردہ نظر آے ، بچے اپنی ماوں کی آغوش میں سہم گئے
، پرندے رات درختوں پر بے چین رہے ،اُسی شام بچوں نے اپنی ماوں سے سوال کیا
آخرہمارا قصور کیا ہے ،
شائد بچوں کا خون بہانے والے بھول گے، دنیا کی تاریخ گواہ ہے ، بد سے
بدترین جنگوں میں بھی عورتوں اور بچوں کو قتل نہیں کیا جاتا تھا ، مگر یہ
اتنے پتھر دل ہیں کہ اﷲ کی پناہ، کیا پشاور کے بچوں کو قتل کر کے تمھارا دل
نہیں بھرا ،جو اب تم نے لاہور کا رخ کر لیا ، پُرانے وقتوں میں اگر کسی
بستی میں کوئی کُتاباولہ ہو جاتا تھاتو سب بستی پر لازم ہو جاتا تھا کہ اس
باولے کتے سے جان چھڑائی جاے، لوگ اپنے اختلافات ختم کرتے اور ساری بستی
اکھٹ کر لیتی اسکے بعد باولے کتے سے نجات تک لوگ چین سے نہیں بیٹھتے تھے -
اہل لاہور 27 مارچ کی شام گلشن اقبال پارک سانحہ کا پیغام سمجھیں، دہشت گرد
باولے ہو چکے ہیں ، انکے منہ کو بچوں کا خون لگ چکا ہے ، ان سے جان چھڑانے
کا وقت آگیا ہے ،گلی محلے کی سطع پر خبردار و ہوشیار رہنے کا وقت آن پہنچا
، آیے اپنی نسلیں محفوظ کرنے کے لیے پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے شانہ
بشانہ کھڑے ہو جائیں،ہمھیں کھڑا ہونا ہو گا ، اپنے بچوں کے تحفظ کے لیے ،
آنے والی نسلوں کے لیے ، اہل اسلام کے لیے ، پاکستان کے لیے ، پاکستان کی
مسلح افواج کے لیے ، اور ان سب دہشت گردوں سے بدلہ لینے کے لیے جو ہمارے
خون کو خون نہیں سمجھ رہے جو یہ بھول چکے کہ ایک انسان کا قتل دراصل ساری
انسانیت کا قتل ہے ، اٹھو،،،، اٹھو ،،،،،،اٹھو،،،،،،،
اہل لاہور اٹھو ، اہل کراچی اٹھو ، اہل پشاور اٹھو ، اہل کوئٹہ اٹھو ،
کیونکہ ان باولے دہشت گردوں سے حساب لینے کا وقت نکلتا جا رہا ہے ، |