چیف جسٹس عدلیہ کی کارکردگی سے نالاں
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
"‘ عوام انصاف کیلئے دیگر ذرائع تلاش کر رہے ہیں"۔چیف جسٹس عدلیہ کی کارکردگی سے نالاں |
|
‘ عوام انصاف کیلئے دیگر ذرائع تلاش کر رہے
ہیں"‘ نظام عدل بے ثمر ہوتا جا رہا ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان عدلیہ کی
کارکردگی سے نالاں یہ ہیں ہمارئے چیف جسٹس آف پاکستان جناب انور ظہیر جمالی
کے تاثرات۔جس ملک کے چیف جسٹس صاحب یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ عدلیہ کی
کارگردگی درست نہ ہے۔اور ساھ یہ بھی کہہ ڈلیں کہ مجرموں کو سزائیں نہ ملنے
سے ملک میں انصاف کی بے توقیرہ ہو رہی ہے ۔ تو اِس سے اندازہ لگا لیں کہ
ملک میں عدلیہ کے حالات کیسے ہیں ۔چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ہے کہ
ریاست میں انصاف کی فراہمی کو ممکن بنانا عدلیہ کی ذمہ داری ہے، آئینی
اقدار کی بے توقیری ہو رہی ہے، شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کے بارے میں
عدلیہ کی کارکردگی بہتر نہیں ہے، کمزور پراسیکیوشن اور ناقص تفتیش کے باعث
عدالتیں جرائم پیشہ عناصر کیخلاف موثر کارروائی کرنے سے قاصر ہیں، مجرموں
کو سزائیں دینے کی شرح میں کمی تشویش کا باعث ہے جس سے عدالتی نظام اور پر
منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں، عوام کا اعتماد متزلزل ہو رہا ہے ہمیں اپنی
صفوں سے بدعنوانی اور مجرمانہ طرز عمل ختم کرنا ہوگا، یہ بات خوش آئندہ ہے
کہ پولیس نے جرائم روکنے کیلئے معلومات اکھٹی کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے،
ملک کو بدعنوانی، اقربا پروری، دہشت گردی سمیت دیگر چیلنجز کا سامنا ہے اس
کیلئے اداروں کو مضبوط اورجدید بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے،
صوبائی انصاف کمیٹیاں انصاف کی مناسب حدتک فراہمی کیلئے بنیادی عنصر ہیں
انصاف کے نظام کو موثر بنانے کیلئے پالسیی، پلاننگ، مانیٹرنگ، اصلاحات میں
باہمی تعاون ضروری ہے، معیاری انصاف کی فراہمی کیلئے قانون سازی اور ٹھوس
اقدامات کے بارے میں سوچنا حکومت کا کام ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم گزشتہ
کئی سالوں سے انتہائی مشکل دور سے گزر رہے ہیں، ہمارا فوجداری نظام انصاف
دہشت گردی، تشدد اور بدعنوانی کے چیلنجز سے نبردآزما ہے۔ ان خیالات کا
اظہار انہوں نے صوبائی انصاف کمیٹیوں کی پہلی کانفرنس سے خطاب میں سزاؤں کی
کم شرح ہم سب کیلئے باعث تشویش ہے، اس سے نہ صرف اداروں کی انفرادی
کارکردگی بلکہ پورے عدالتی نظام پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، چونکہ کوئی
ایک ادارہ از خود سزایابی کی شرح میں تبدیلی نہیں لاسکتا ہے، اسلئے ضرورت
اس امر کی ہے کہ شعبہ انصاف سے وابستہ تمام ادارے باہم ملکر مربوط کوشش
کریں، ہمیں ادارہ جاتی بدانتظامی اور نااہلیت کو کم کرنا ہے، جو ہماری
آئینی اقدار، قانون کی حکمرانی اور خدمات کی فراہمی کے نظام کی بے توقیری
کا باعث بن رہی ہے، ہمیں اپنے اداروں کو جدید بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات
اٹھاتے ہوئے انفارمیشن ٹیکنالوجی،خصوصی مہارت میں اضافہ اور تربیتی نظام کو
بہتر اور قابل عمل بنانا ہوگا، فوجداری نظام انصاف دہشت گردی اور بدعنوانی
کے چیلنجز سے نبردآزما ہے، مقننہ نے اس حوالہ سے اپنی بصیرت کے مطابق
اقدامات اٹھائے ہیں، انتظامیہ بھی محدود وسائل سے اس قسم کی دردناک صورتحال
سے نبردآزما ہے لیکن شعبہ انصاف سے وابستہ ہم لوگوں کو بھی اپنے دائرہ
اختیار اور بساط کے مطابق دستیاب وسائل میں اس منظر نامہ کا کوئی حل نکالنا
چاہئے۔چیف جسٹس نے کہاکہ انصاف کی فراہمی میں ناکامی عوامی اعتماد کو متاثر
کر رہی ہے‘ عوام انصاف کیلئے دیگر ذرائع تلاش کر رہے ہیں‘ نظام عدل بے ثمر
ہوتا جا رہا ہے۔ہماری سوسائٹی میں اگر صورتحال دیکھی جائے تو وطن پاک میں
انسانی حقوق کی پامالیوں کی درد نا ک داستانیں ہیں۔ خاص طور پر دیہاتی
علاقوں ، گوٹھوں اور دورافتادہ علاقوں میں تو انوکھا راج ہے۔ وڈیرہ،
جاگیردار، تھانیدار یہ ہیں لوگ جو عام انسان کا جینا دوبھر کیے ہوئے ہیں۔
جس جمہوریت کا راگ ا لاپا جاتا ہے اُس میں کامیاب صرف وڈیرے اور جاگیردار،
سرمایہ دار ہیں۔ اگر راہبر ہی راہزن ہیں تو پھر قافلے کے مقدر میں تو لٹنا
ہی ٹھر گیا ہے۔ انسان کتنا مجبور ہے اس کا اندازہ اُن کرائم رپورٹوں سے
لگایا جاسکتا ہے ۔ جن کے مطابق قتل، ڈاکہ زنی ، اغوا عام ہو چکا ہے۔ عوام
کو تحفظ دینے والی پولیس کو اس جاگیردانہ ، وڈیرہ شاہی نے کرپٹ کرکے اپنے
زیر اثر رکھا ہوا ہے۔ اب غریب عوام کی حالت یہ ہے کہ کھل کے جی بھی نہ سکیں
اور موت بھی نہ آئے۔ حا لیہ کچھ عرصے سے یہ بات شدت سے محسوس کی جارہی ہے
کہ ایڈیشنل سیشن جج صا حبان بطور جسٹس آف پیس جو حکم جاری کرتے ہیں پولیس
اُس کی تعمیل میں لیت و لعل سے کام لیتی ہے۔اور 22A , 22B, کے قانون کی روح
کو پامال کرتی ہے۔پولیس کی طرف سے جسٹس آف پیس کے احکامات کی بروقت بجا
آوری نہ ہونے سے عدلیہ کی طاقت پر بھی اُنگلیاں اُٹھ رہی ہیں۔ جب جج صاحب
کے فیصلے پر عمل درآمد ہی نہ ہو تو پھر فیصلہ جتنا بھی اچھا ہو اُسکی اہمیت
اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔۔ اس لیے ضروری ہے کی پولیس کو ہر قسم
کے سیاسی کنٹرول سے آزاد کر دیا جائے۔ایس ایچ او کی تعیناتی صرف اور صرف
میرٹ پر ہو۔ پولیس نے اپنے نجی ٹارچر سیل بنا رکھے ہیں اور تھانے کے ساتھ
ساتھ ایک اور متوازی تھانے کا نظام بھی قائم کر رکھا ہے۔ انصاف ہوتا نظر تو
تب آے گا جب حکومتی مشینری عوام کو انسان تصور کرے گی۔ اس ضمن میں یہ بھی
کیا جاسکتا ہے کہ پولیس محتسب کا محکمہ قا ئم کیا جائے پولیس کے ظلم و ستم
کے خاتمے کے لیے پولیس محتسب کو اختیارات دئیے جائیں۔ پولیس افسران کی
ناجائز جائیدادوں کا پتہ چلا کر اُن کو ضبط کیا جائے۔ پولیس کے نظام کی سوچ
بدلنے کی ضرورت ہے۔ جب تک جائیدادیں بنانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے پولیس کے
محکمے سے کرپشن ختم نہیں ہو سکتی ۔ پولیس کا حتساب ہونا چاہیے وہ بھی اس
طرح کی ہر پولیس افسر کی بیلنس شیٹ تیار ہو۔ ذرائع آمدنی ، سماجی مقام،
اخراجات اور شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کا پتہ چلانا چاہیے۔ دین اسلام ایک ضابطہ
حیات ہے لیکن نہ جانے کیوں ہمارے معاشرے میں روحانی انداز پنپ نہیں سکا۔
ہمارئے قانونی ڈھانچے میں آخر اتنی لچک کیوں نہیں کہ معاشرے میں رواداری کو
فروغ مل سکے۔ اگر کریمنل پر و سیجر کوڈ کی متذکرہ شقوں پر اُس کی روح کے
مظابق عمل ہو تو پھر کسی طور بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو سکے گی۔
اِس ساری گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ اگر خیبر پختون خواہ میں آن لائن ایف آر
کا نظام شروع کیا جاسکتا ہے تو پھر پنجاب جس کی آبادی دس کروڑ سے تجاوز کر
چکی ہے وہاں اِس نظام کو لاگو کیوں نہیں کیا جاسکتا۔پولیس صرف اِس لیے ایف
آئی کا اندراج نہیں کرتی کہ اُسے اِس کیس کی پھر انوسٹی گیشن کرنا پڑئے گی۔
یا پھر لوگوں کو ذلیل کرکے دونوں پارٹیوں سے پیسے بٹور کر یہ کام کیا جاتا
ہے۔ملک میں انصاف کے تقاضے پورئے نہ ہونے بلکہ انصاف کی جو بُری حالت ہے
اُس حوالے سے چیف جسٹس کا یہ فرمان کہ لوگا عدلیہ سے مایوس ہو کر انصاف کے
لیے اور ذرائع کی تلاش میں ہیں۔ حکمرانوں کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے۔ |
|