دہشتگردی کی روک تھام مگر کیسے۔۔۔۔۔۔۔ !

 پاکستان میں دوبڑے ایسے سانحہ ہوئے ہیں ، جن میں سینکڑوں معصوم پھول صفحہ ہستی سے مٹ گئے ’’سانحہ پشاور‘‘ اور ’’سانحہ لاہور ‘‘۔

سانحہ پشاور میں’’ آرمی پبلک سکول ‘‘کے ننھے پھول ایسے زمین میں بکھرئے تھے کہ پوری قوم دم باخود یکجا ہو گی۔ بقول عمران عامی ؔ ؂
کھلتے پھولوں کی تباہی نہیں دیکھی جاتی
ہم سے گلشن کی سیاسی نہیں دیکھی جاتی
خون کا خون ہوا کرتا ہے بدلہ عامی ؔ
اس میں ملاّ کی گواہی نہیں دیکھی جاتی

سانحہ پشاور کے بعد پاکستانی قوم پر قیامت صغریٰ کا نزول تب ہوا جب ’’سانحہ لاہور‘‘ اقبال پارک میں پیش آیا ، ایک بار پھر ملک دشمن عناصرنے معصوم بچوں کو ہی نشانا بنایا ۔ان دونوں حادثات پر ہزاروں لکھاریوں نے اظہار قلم کیا ،مگر بات کا اختتام یہی پر نہیں ہوتا ،میرے مطابق اب فوج اور حکومت کو مل کر ہنگامی بنیادوں پر ایسے اقدامات کرنا ہوں گئے کہ جس سے دہشتگردی کو مکمل ختم کیا جا سکے۔

دہشتگردی کی روک تھام کیلئے حکومت کو چاہیے کہ ’’ ملک بھر میں شناختی کارڈ کی چیکنگ کو یقینی بنایا جائے تا کہ پتہ چل سکے ملکی اور غیر ملکی کون ہے ،جس شہری کے پاس CNIC نہ ہو اسے 15 دن کیلئے جیل بھیج دیا جائے،دوسری دفعہ وہ دوران سفر اپنے پاس CNIC لازمی رکھے گا‘‘

دہشتگرد ٹرانسپورٹ کے ذریعے ہی ایک شہر سے دوسرے شہر جاتے ہیں ،حکومت کو چاہیے کہ وہ ’’ تمام ٹرانسپورٹرز کو اس بات پر پابند کریں کہ وہ کسی کو CNIC کے بغیر سوارنہ کریں ،خلاف ورزی کرنیوالے ڈرائیور کا چالان ہونا چاہئے ،‘‘پھر اس کے بعد حکومت’’ ہر ضلع و تحصیل سطح پر دہشتگردوں کے بارے میں عوام سے معلومات حاصل کرنے کیلئے’’ آرمی انفارمیشن سیل‘‘ AICقیام کرے ،جہاں عوام بغیر خوف اور ڈر کے اپنی شکایات ’’اے آئی سی‘‘ میں درج کروا سکیں ‘‘کیوں کہ ہر ضلع و تحصیل میں قاتل ،بھتہ خور اور ٹارگٹ کلرز موجود ہیں۔

جڑاوں شہر’’ اسلام آباد اور راولپنڈی میں سینکڑوں افغان پناہ گزیر ہیں ،ان کو فلور افغانستان بھیجا جائے ،CDA اور RDA نے افغان پناہ گزینوں کو آباد کر کے راولپنڈی اسلام آباد کو غیر محفوظ بنایا ہے ،لہذا چیئر مینCDA اور RDA کیخلاف کاروائی ہونی چاہئے، جن جن علاقوں میں بار بار وارداتیں اور جرائم ہوں جیسے کراچی ،پشاور اور راولپنڈی وہاں کے ایس ایس پی، ایس ایچ اواور دیگر اعلیٰ قیادت کو بر طرف کر دیا جائے‘‘ کیونکہ ساری وارداتیں ان کی ملی بھگت سے ہوتی ہیں۔ہر ضلع و تحصیل میں ایک انفارمیشن سیل I.C) ( قائم ہوجہاں لوگ پولیس کے بارے میں شکایات درج کروا سکیں ،ہر سیل میں رینجرز تعینات ہو ،جس پولیس افسر کے بارے میں سیل کوبد عنوانی، کرپشن اور دیگر وارداتوں میں ملوث ہونے کی شکایت درج ہو اسے بھی فوری بر طرف کر دیا جائے۔ راولپنڈی اسلام آباد میں گداگری کا پیشہ شدت اختیار کر گیا ہے اکثر فٹ پاتھوں پر ہاتھ پاؤں کٹے ہوئے لوگ نظر آتے ہیں ۔جنہیں صبح کوئی فٹ پاتھ پر آکر چھوڑ جاتا ہے اور شام کو لے جاتا ہے،ان افراد کے پیچھے چند گروہ ہیں جو لوگوں کے ہاتھ پاؤں کا ٹ کر انہیں گدا گری کا پیشہ اپنانے پر مجبور کرتے ہیں ان جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف کاروائی کی جائے۔اس کے علاوہ پنڈی اسلام آباد میں کئی ہوٹلز اور ریسٹورنٹ افغانیوں نے کرایے پر لیے ہوئے ہیں جہاں وہ لٖڑکیاں اغواء کر کے ان سے دھندا چلاتے ہیں،ایسے مرتکب افراد کیخلاف سخت مگر عبرت ناک کاروائی کی جائے۔

فوج اور حکومت کو مل کر اُن سیاسی جماعتوں کیخلاف بھی بھرپور کارروائی کرنی چاہیے ، جو سیاسی ونگز دہشتگردوں کو اسلحہ و دیگر مالی معاونت کر رہے ہیں ، ایسے لوگوں کے کیسز کو ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہونا چاہئے ،تاکہ یہ لوگ ’’ایم سی‘‘ میں ٹرائل سے نہ بچ سکیں ،کیوں کہ بیماری ختم کرنے کیلئے شاخیں کاٹنا کافی نہیں بلکہ جڑیں کاٹنا ضروری ہیں۔جو جو سیاستدان ٹارگٹ کلرز اور دہشتگردوں کو مال معاونت فراہم کر رہے ہیں انہیں تختہ دار پر لٹکایا جائے۔پولیس اور آرمی کی وردی بنانیوالے ادارے(ٹیلرز) شہروں میں نہیں بلکہ’’ پولیس لائن‘‘ اور ’’GHQ‘‘ کے اندرہو نے چاہئیں ، جی ایچ کیو اور کامرہ ایئر بیس پر حملہ آور آرمی کے یونیفارم میں تھے،،اس کے بعد ایسا کرنا چاہیے کہ ہر ضلع و تحصیل میں جو اسلحہ کے ڈپولگے ہوئے ہیں ان کو بھی فی الفور ختم کر دیا جائے،کیا اسلحہ ڈپو قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو اسلحہ سپلائی کرنے کیلئے بنائے گئے ہیں یا عام شہریوں کو۔۔! عوام کو اسلحہ سے پاک کیا جائے ،جگہ جگہ چھاپے مارے جائیں ،جس گھر سے اسلحہ بارود برآمد ہو اس کو سیل کیا جائے ،کیونکہ جب تک عوام میں اسلحہ موجود ہے اس وقت تک ٹارگٹ کلنگ نہیں رک سکتی،حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ مساجد کا خطیب اس شخص کو مقرر کرنے کی ہدایات جاری کریں جن کے پاس وفاق المدارس کی آٹھ سالہ درس نظامی کی سند ہو ،تاکہ ان پڑھ جاہل مولوی عوام میں اشتعال انگیز تقاریر اور مذہبی منافرت نہ پھیلا سکیں۔ فرقہ ورانہ ، اشتعال انگیز مواد اور مذہبی منافرت پر مبنی مواد کی اشاعت پر بھی پابندی عائد کی جائے،صرف اس شخص کو کتاب لکھنے اور اشاعت کرنے کی اجازت دی جائے جسے متعلقہ وزارت تعلیمی کمیٹی اجازت دے یہ کمیٹی ڈاکٹر ز پر مشتمل ہو،اگر فوج اور حکومت سچ میں ایک پیج پر ہیں تو انکو مل کر ہنگامی بنیادوں پر ایسے چند اقدامات کرنے ہونگے تاکہ پوری قوم کو دہشتگردی کے اس عذاب سے نکالا جا ئے ،اگر اب بھی اس مسئلے کو سنجیدہ نہ لیا گیا تو سانحہ پشاور اور سانحہ لاہور جیسے واقعات ہر ماہ میں رونماء ہو سکتے ہیں ۔
M A Doshi
About the Author: M A Doshi Read More Articles by M A Doshi: 20 Articles with 19331 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.