انتقال سیاسی جماعت،وجوہات اور عوامل!

 گزشتہ روز سوشل میڈیا ’فیس بک‘‘ پہ ایک اپ ڈیٹ دیکھی جس میں لکھا گیا تھا کہ ’’یہ جو لوگ روزانہ ایک جماعت سے دوسری جماعت جاتے ہیں ان کو کیا کہتے ہیں؟‘‘۔ اس پر کئی افراد نے کمنٹ بھی کئے۔ایک نے کہا ’’لوٹا‘‘ ،دوسرے نے کہا’’ سیاسی مسافر‘‘۔ایک ظالم نے ’’ پی وائی او‘‘ کے بیجز سے مزیں دومتضاد لیڈروں کی تصویر والا کمنٹ کر کے پوچھا کہ ’’ اس کو کیا کہتے ہیں؟‘‘۔ایک صاحب نے ایک جملے کے کمنٹ میں اپنی اعلی انگریزی کا رعب بھی جھاڑ دیا۔ایک نے کہا کہ ’’ نمک پاشی نہ کریں‘‘۔فیس بک پہ ہونے والی یہ تمام گفتگو خاص طور پر آزاد کشمیر کی سیاست کے حوالے سے کی گئی۔ایک صحافی نے کمنٹ کیا کہ ’’ تصویر والے جواب پر سانپ کیوں سونگھ گیا ہے؟‘‘۔

عمومی طور پرسیاست میں کسی سیاسی جماعت کو چھوڑ کر دوسری سیاسی جماعت میں جانے کے عمل کو اچھا تصور نہیں کیا جاتا۔لیکن یہ بات نظریاتی سیاست سے منسلک ہے جبکہ ہماری سیاست میں نظریات نام کو بھی باقی نہیں ہیں۔یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں نظریات تحلیل ہو چکے ہیں۔اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہمارے ملک میں سیاسی جماعتوں کے نام پر شخصی ،خاندانی،علاقائی ،مذہب کے نام پر اورفرقہ وارانہ گروپ قائم ہیں ۔ اس انداز سیاست میں نظریات کس طرح قائم رہ سکتے ہیں؟یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔شخصی ،خاندانی،علاقائی اور فرقہ وارانہ گروپوں کے مفادات کو کسی طور بھی نظریات سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔اسے شخصیات ،خاندانوں کے مفادات تو کہا جا سکتا ہے لیکن حاکمانہ اور غیر جمہوری طرز عمل رکھنے والے ان گروپوں میں لیڈر کے ہر حکم ،ان کے مفادات کو’’ شاہی حکم‘‘ سمجھنا ، کسی طور بھی نظریات کی پابندی قرار نہیں پا سکتا۔اب سیاسی جماعتوں میں مفاد پرستی کی پیروی اور ’’ پوجا‘‘ کی جاتی ہے اور اس بات پر اصرار کیا جاتا ہے کہ اسی کو نظریات کی پیروی سمجھا ،لکھا ،پڑھا اور کہا جائے۔

سیاسی جماعتوں میں نظریات کے خاتمے کی صورتحال میں آج کل کی سیاسی جماعتوں میں شامل ہونے والے اپنے امور و معاملات دیکھتے ہیں،اپنے مقاصد دیکھتے ہیں اور جس جماعت سے ان امور میں ہم آہنگی پائی جائے ،اسی میں شمولیت اختیا ر کر لی جاتی ہے۔اگر بات صرف آزاد کشمیر کی سیاست کی کی جائے تو آزاد کشمیر کی سیاست میں برادری ازم غالب ترین محرک ہے اور اکثر فیصلوں کی بنیاد برادری ازم کی بنیاد پر ہی استوار ہوتی ہے۔یہ بھی آزاد کشمیر کی برادریوں کی ’’ سیاسی مہارت ‘‘ ہے کہ وقت ،ماحول اور امکانات دیکھتے ہوئے مختلف سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم پر اپنی پو زیشن تبدیل کر دی جاتی ہے۔جب تک آزاد کشمیر میں مقامی امورو مسائل مرکز و محور بنے رہیں گے،جب تک تحریک آزادی کشمیر اور آزاد کشمیر کے قیام کے عزم ومقاصد سے لا تعلقی اختیار کرتے ہوئے سیاست کی جاتی رہے گی ،تو اس سیاست کا مقصدمحض مفادات،اختیارات،خود نمائی اور ایک دوسرے پر فتح پانے اور آزاد کشمیر کے عوام کو مزید خراب کرنے کے سلسلے کو جاری رکھنے میں محدود و مقید رہے گا۔بلاشبہ نظریاتی سیاسی جماعتوں میں شامل کسی کی طرف سے جماعت تبدیل کرنے پر اعتراض کیا جا سکتا ہے لیکن شخصیات ،خاندان وغیرہ کے مفادات اور ان کے ’’ سیاہ و سفید‘‘ احکامات و ہدایات کو نظریات قرار دیتے ہوئے قابل پابندی نہیں بنایا جا سکتا۔

غالبا1992ء کی بات ہے کہ مظفر آباد کے ایوان صدر میں تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو صدر آزاد کشمیر سردار سکندر حیات خان کی طرف سے مدعو کیا گیا تھا۔وہاں حکمران جماعت مسلم کانفرنس کے ایک وزیر نے کہا کہ ’’ آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کا وجود مسلم کانفرنس سے ہی ہوا ہے،لہذا مسلم کانفرنس آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کی ماں ہے‘‘۔ اپوزیشن رہنماؤں کی طرف سے یہ بات تسلیم کئے جانے پر ایک دوسرے وزیر نے کہا کہ’’ جس نے اپنی ماں کو چھوڑ دیا،اپنی ماں سے غداری کی، اس کو اپنی ماں کے پاس واپس آ جانا چاہئے‘‘۔اس پر ایک اپوزیشن رہنما ممتاز حسین راٹھور نے برجستہ جواب دیا کہ ’’جب ماں خراب ہو جائے تو بچوں کو ایسی ماں کو چھوڑنا ہی پڑتا ہے‘‘۔اس پر با آواز بلند جو اجتماعی قہقہہ لگا اس میں حکمران اور اپوزیشن آوازیں مشترکہ طور پر شامل تھیں۔چند سال قبل مظفر آباد کے ایوان وزیر اعظم میں نظریاتی کارکنوں کے الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کہا گیا کہ نظریاتی کارکن ہی جماعت کی اصل طاقت ہوتے ہیں اور مشکل وقت میں وہی نظریاتی کارکن کام آتے ہیں۔اس پر میں یہ کہے بغیر نہ رہ سکا کہ مشکل وقت میں ساتھ دینے کے معاملے میں نظریات کہاں سے آ گئے؟آج آپ اقتدار میں ہیں،جس جس کو آپ اس عرصہ میں فائدہ پہنچائیں گے انہی سے آپ توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ مشکل وقت میں ساتھ دیں گے،اس میں بھلا نظریات کہاں سے آ گئے؟
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 701559 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More