یہ قائد کا پاکستان کب بنے گا۔۔۔؟
(Muhammad Riaz Prince, Depalpur)
جس ملک کو حاصل کرنے کے لئے ہم نے جانوں کے
نذرانے پیش کیے ۔ماؤں اور بہنوں کے سہاگ لٹ گئے ۔بچے اپنے والدین سے جدا ہو
گے ۔مائیں بیوہ اور بچے یتیم ہو گے ۔ہم نے اس ملک کی کیاخوب قدر کی ہے۔ہم
نے اپنے قائد کو شرمندہ کر دیا ہے ۔جس ملک کو ہم نے سنبھالنا تھا اس کو
تباہ کرنے میں ہم لگے ہوئے ہیں ۔ جن بچوں کے سر پر ہم کو ہاتھ رکھنا تھا آج
وہی رسوا ہو کر دردر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔جن ستاروں کو ہم نے وسائل اور
روزگا ر دینے تھے آج وہی ہماری غلط پالیسیوں کی بدولت چور ،ڈاکو اور دہشت
گرد بن کر اپنے ہی بھائیوں کو مار رہے ہیں ۔ کیا خوب قدر اوررکھوالی کی ہے
ہم نے قائد کے پاکستان کی ۔
ہمارے قائدمحمد علی جناح تو اپنے بھائی مسلمانوں سے اس قدر پیار کرتے تھے
کہ جب بھی مسلمانوں کے ساتھ کوئی ظلم وزیادتی کرتا تو اس کے خلاف آواز بلند
کرتے اور مسلمانوں کو انصاف دلوانے کے لئے دن رات ایک کر دیتے ۔ قائد اعظم
محمد علی جناح نے جو پاکستان ہمارے لئے بنایا تھا ۔ ہم نے کیا خوب اس کی
رکھوالی کی ہے ۔ ہم نے اس ملک کے لوگوں کو مرنے کے لئے چھوڑ دیاہے ۔ہم نے
ان شہیدوں کی کی کیا لاج رکھی ہے ۔جنھوں نے پاکستان کو حاصل کرنے کے لئے
اپنی جانوں کی پرواہ نہ کی۔اور ظالموں کے آگے نہ جھکے کے لئے ان کے ظلم کا
مقابلہ کیا ۔ ہمارے قائد نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کو انصاف نہیں مل رہا ۔
ان کی عزتوں سے کھیلا جاررہا ہے ۔ہندو مسلمانوں کو رسوا اور لاچار کر رہے
ہیں ۔ ہر شعبے میں مسلمانوں کو نکالا گیا ۔ہر جگہ مسلمانوں کو بدنام اور ان
سے نارواسلوک کیا گیا۔ ہمارے قائد سے یہ سب کچھ برداشت نہ ہو سکا اور انھوں
نے مسلمانوں کے حق کے لئے آواز بلند کی اور ان کو انصاف دلوانے کے ہر ممکن
کوشش کی ۔انھوں نے کبھی بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ میں پاکستان کا حکمران بن
کر اس ملک پر اپنے طور طریقوں سے حکومت کروں گا اور خوب پیسہ کماؤں
گا۔انھوں نے جو پاکستان ہم کو بنا کر دیا تھا ۔اس ارادے کے ساتھ کہ اس ملک
کے عوام اپنی زندگی آزادنہ طور پر گزاریں گے ۔ اور خوشحال رہیں گے ۔
اگر ہم اور ہمارے حکمران قائد جیسا بن کر اس ملک کے بارے میں سوچتے تو آج
ہم کہیں اور ہوتے ۔آج ہمارے ملک کا نام دنیا کے بہترین ملکو ں میں شامل
ہوتا ہمارا ملک ترقی میں سب سے آگے ہوتا اور ہماری عوام خوشحال اور آزاد
زندگی گزار رہی ہوتی ۔اگر ہم وسائل نچلی سطح تک مہیا کرتے تو ایسا ضرور
ہوتا ۔اور ہمارا ملک سب سے پرامن اور ترقی یافتہ ملک ہوتا۔
آج ہماری حالت یہ ہے کہ نہ تو ہم آزاد ہیں اور نہ ہم خوشحال ہیں ۔اس کی وجہ
آخر کیا ہے ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اپنے ملک کو بہتر بنانے کے لئے
دوسروں پر یقین کر رکھا ہے ۔اور یہی وجہ ہے کہ ہم عوام اس قابل نہیں رہے کہ
ہم اپنے ملک کے اچھے اور ایماندار نمائندوں کا چناؤ کر سکیں ۔ ہم بھی تو
صرف ان کو آگے لاتے ہیں جو چور اور ڈاکو ہوتے ہیں جن کو ملک اور ملک کے کسی
فرد سے محبت نہیں ہوتی بلکہ ان کو صرف کرسی اور روپے کی حوس ہوتی ہے اس لئے
وہ صرف اپنے اور بارے میں سوچے گا کہ وہ کب اور کس طرح کروڑپتی بن سکتا ہے۔
اگر ہم ایسے نمائندوں کو آگے لائیں گے اور ایماندار اور شریف لوگوں کو ہم
بھول جائیں گے تو پھر یہی ہو گا جو ہو رہا ہے ۔ جیسی عوام ویسے ہی حکمران
ہم پر مسلط ہوتے رہیں گے ۔اگر ہم عوام نے اپنے قبلے درست نہ کیے تو ہماری
زندگیوں کے ساتھ اسی طرح کھیلا جائے گا ۔ ہمارے بچے دہشت گردی کی نظر ہوتے
رہیں گے اور ہمارا سکون تباہ ہو جائے گا۔ زندگی کے ہر شعبہ میں ہم دوسروں
کے طریقوں کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کیا ہمارے ملک کی کوئی ثقافت نہیں
ہے۔ جس کے طرز زندگی ہم اپنا سکیں ۔اور اپنے مسلمانوں والے رسم ورواج کو
اپنا سکیں ۔اگر ہم نے غیروں کے طریقوں پر اپنی زندگیوں کو گزارنا ہے توپھر
ہم میں اور غیروں میں کوئی فرق نہیں رہا ۔ اگر فرق نہیں رہا تو ہمارے قائد
نے ان کو پاکستان کیوں بنا کر دیا جن سے اس کی رکھوالی نہیں ہو رہی ۔ بہت
افسوس کے ساتھ کے کہ ہم اب غیروں سے بھی بتر ہو گئے ہیں ۔آج ہم شرمندہ ہیں
اے قائد کہ ہم اس ملک کی قدر نہیں کر سکے ۔ اس ملک میں امن پیدا نہیں کر
سکے اس ملک کے لوگوں کو انصاف نہیں دے سکے۔ اس ملک کے بچوں کو محفوظ نہیں
رکھ سکے ۔ اس ملک کے نوجوانوں کو وسائل مہیا نہیں کر سکے ۔ آج ہم بہت
شرمندہ ہیں کہ آپ نے جو ہمارے لئے کیا ہم اس کے بدلے میں کیا کر رہے ہیں ۔آج
وہ پاکستان نہیں رہا جو آپ نے ہمارے لئے بنایا تھا ۔
آج وہی دن لوٹ کر آگئے ہیں ہمارے بچے یتیم ہو رہے ہیں ہماری مائیں بیوہ اور
ہماری بہنوں نے سہاگ اجڑ رہے ہیں ۔ہمارے ملک کے اندر کسی کو کوئی انصاف
نہیں مل رہا ۔ سب ایک دوسرے کو لوٹنے اور مارنے پر لگے ہوئے ہیں۔ہمارے ملک
کا ہر فرد کسی بھی جگہ محفوظ نہیں ۔ ہر طرف دھواں ہی دھواں ہے ۔ سب کچھ
برباد ہو رہا ہے ۔اب ہم ساری زندگی گھروں میں چھپ کر تو نہیں گزار سکتے ۔اب
تو بچے سکولوں میں بھی محفوظ نہیں رہے ۔ ہمارے ملک کا نظام اور حکمران اتنے
گندے ہو گے ہیں ان سے کنٹرول ہی نہیں ہو رہا ۔کیا اب ہم میں آزادی والا
جذبہ نہیں رہا جس کے ذریعے ہم نے پاکستان حاصل کیا تھااور اگر وہی جذبہ ہم
میں دوبارہ پیدا ہو جائے تو ہم دشمن کو دنیا سے مٹا سکتے ہیں اور اگر ہم اس
کو کنٹرو ل نہ کر سکے توہم تباہ و برباد ہو جائیں گے جس کا ہمارے دشمن کو
بہت فائدہ ہو گا۔ ہما را دشمن کسی بھی لمحہ ہم کو نقصان پہنچانے سے نہیں
ڈرتا اور ہم ہیں کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہیں ۔کیا ہم دہشت گردی کو
ختم نہیں کرسکتے کیا ہم میں اس کو ختم کرنے کا جذبہ نہیں ۔ اس کو ختم کرنے
کے لئے ہم کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ۔دہشت گردوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا
ہو گا اور پاکستان کو پرامن اور خوشحال بنا کر قائد اعظم اور علامہ اقبال
کے خواب کو تعبیر کرنا ہو گا ۔ہم پھر قائد کا پاکستان بنا کر ثابت کرنا ہو
گا کہ ہم ا س ملک سے بہت محبت کرتے ہیں اور ہم اس کی طرف اٹھنے والی ہر نظر
کو ہمیشہ کے لئے بند کرنا جانتے ہیں اس میں ہی ہم سب کی بھلائی اور ترقی ہے۔ |
|