انقلاب کی دستک

مکرمی!
تاریخ گواہ ہے جس قوم نے بھی فطرت کے خلاف عمل کیا وہ تباہ و برباد ہو گئیں ۔تہذیب وتمدن کا عین فطرت کے مطابق اگر کسی قوم یا مذہب میں تصور ہے تو وہ اسلام کا نظریہ حیات ہے ۔اسلام کے خلاف نفرت اور عداوت میں باطل طاقتوں نے نئی تہذیب کو دنیا کے سامنے متعارف کرانے کا کام کیا ۔جس کے نتیجے میں وہ قوم تباہ و بردبا ہوگئیں اور ہلاکت خیز بیماری کو پیداکرنے کا سبب بنے جس میں سب سے موذی مرض ایڈس ہے ۔جس کا ابھی تک کوئی علاج ہی نہیں چونکہ یہ مرض نہیں بلکہ عذاب الہی ہے اس لئے دنیا کی ساری طاقتیں اس کا علاج متعارف کرانے میں ناکام و نامراد ہیں ۔چونکہ یہ اﷲ تبارک تعالی کا فیصلہ ہے جس میں کسی کو دخل دینے کا اختیار نہیں ہے۔غیر فطری عمل اور فکر سے انسان تباہ و برباد ہوجائیں گے ،لیکن فطرت کو تبدیل نہیں کر سکتے ہیں ۔اسی طرح آج ہمارے وطن عزیز میں فطری جذبہ اظہار پر بحث و تکرار جاری ہے ۔کمال کی بات یہ ہے کہ دنیا کی سب سے سپر پاور فکر و خیال رکھنے والی قوم مسلم کے کچھ لیڈروں کی طرف سے بھی غیر فطری بحث جاری ہے ۔جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان کے دلوں میں خوف ،طمع و لالچ اور سیکولر ہونے کا خوف طاری ہے ۔ورنہ ایک مسلمان کیسے زمین کے کسی ایک ٹکڑے کو خدا کا درجہ دے سکتا ہے ۔اور کیسے کسی جانور کو ماں کا درجہ دے سکتا ہے ۔شاید انہیں یہ پتہ نہیں کہ سیکولر اور مذہبی آزادی کا سب سے بڑا پاسدار اگر دنیامیں کوئی ہے تو وہ مذہب اسلام ہے ۔

بھارت ماتا کی جئے اگر کوئی غیر مسلم کہتا ہے تو ایک مسلمان اس کے جذبہ اظہار کی قدر کر سکتا ہے چونکہ ان کے مذہب میں اظہار محبت کی سب سے بڑی علامت ہے کسی کو ماں کا درجہ دینا ۔لیکن وہی مطالبہ تمام ہندوستانیوں سے کیا جائے یہ ہر حال میں نا انصافی پر مبنی دلائل تو ہیں ہی جمہوری نظام کے بھی خلاف ہے ۔اور اس کے ساتھ ساتھ فطرت کے بھی خلاف ہے ۔

ہر سال ہم ٹی وی پہ سنتے ہیں گنگا اور جمنا میں سائبیریا پرندے آتے ہیں اور پھر واپس اپنے ملک چلے جاتے ہیں ۔ہر روز صبح کے وقت ہم دیکھتے ہیں مشرق سے پرندے مغرب کی طرف قطار در قطار دانہ پانی کی تلاش میں جاتے ہیں اور شام ڈھلتے ہی وہ واپس اپنے اپنے آشیانے میں چلے جاتے ہیں ۔وطن سے محبت یہ ایک فطرعمل ہے جس پر بحث و تکرار کرنا بے جا ہی نہیں بلکہ احمقانہ اور جاہلانہ بھی ہے۔پرندے کے لئے تو کوئی سرحد ہی نہیں ہے جہاں چاہے شام کر لیں جہاں چاہے صبح کر لے لیکن پھر بھی ایسا نہیں ہوتا ہے ۔اور نا ہی اس کے پاس کوئی قیمتی آشیانہ ہوتا ہے اور نا اس کے پاس کوئی جائداد،پھر بھی وہ اپنے وطن سے انتہا درجہ محبت کرتا ہے ۔چونکہ یہ ایک فطری عمل ہے جو ہر ذی روح کے اندر بدرج اتم موجود ہے ۔

اگر یہ ملک ہندو راشٹر بھی ہوتا تب بھی تمام ہندوستانیوں پر اس نعرہ کا اطلاق نہیں ہوتا ۔کیونکہ ہر مذہب کو دوسرے مذہب کی پاسداری کرنے کا درس دیا گیا ہے ۔بلکہ اسلامی ملک میں بھی غیر مسلموں کو انکے مذہب کے مطابق عمل کرنے کی پوری پوری آزادی دی گئی ہے ۔یہاں تک کہ ان کی جان و مال کی حفاظت کا ذمہ دار بھی بنا گیا ہے ۔ایسے حالات میں کوئی کسی کو اپنے رنگ میں رنگنے پر مجبور کیسے کر سکتا ہے ۔

ایکسوی صدی میں جہاں ایک طرف ہندوستان میں میک ان انڈیا اور اسٹارٹپ کی کوشش ہو رہی ہے وہیں سورج ،زمین کو خدا اور دیوتا بنانے کی بات ہو رہی ہے ۔اس طرح کے فلسفہ کو نئی نسل کبھی تسلیم نہیں کرے گی اور یہ ضد بذات خود ہندوتو کے لئے انتہائی مضر ہے ۔اب خدشہ ہونے لگا ہے کہ وہ کام جس کو اورنگ زیب اور بابر نے کبھی نہیں کیا اس کام کو ہمارے برادران وطن خود انجام دینے لگیں گے ۔نئی نسل اپنے مذہب سے بیزار ہو کر سکون و امن کی تلاش میں اسلام میں تیزی کے ساتھ داخل ہو تے جا رہے ہیں جس سے ہندتوکی سالمیت پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں ۔اگر اس بحث کو یہیں ختم نہیں کیا گیا تو وہ وقت دور نہیں جب ہندوستان میں جوق در جوق برادران وطن اسلام میں داخل ہونے لگیں گے ۔ہمارا ایمان ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب اﷲ کی مرضی سے ہو رہا ہے اﷲ اپنے کام کو کر کے رہتا ہے چاہئے کوئی کرے یا نہ کرے وہ اپنے کام کے لئے کسی کا محتاج نہیں ہے بلکہ جب چاہتا ہے جہاں چاہتا ہے جس سے چاہتا ہے اپنا کام کر وا کر رہتا ہے ۔اس لئے مسلمانوں کو ان حالات سے ذرا بھی گھبرانے اور صفائی دینے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ سارے معاملے کو خدا کے بھروسے چھوڑ دیں ،شاید یہ کسی انقلاب کی دستک ہے ۔
 

Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 112546 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.