ترکی کے ایک یتیم بچے نے اپنی کلاس ٹیچر سے معصوم خواہش
ظاہر کی کہ Parent-Teacher Meetingکے لئے اس کے والد کے طور پر ترکی صدر
طیب اردگان کو بلایا جائے۔دی لندن پوسٹ ڈاٹ نیٹ کے مطابق ٹیچر نے اس کے
اصرار پر خط لکھ دیا لیکن ساتھ اسے سمجھا دیا کہ صدر بہت مصروف آدمی ہیں
اگر وہ نہیں آئے تو تم نے پریشان نہیں ہونا۔اور سب کے لئے خوشگوار حیرت کی
بات یہ ہوئی کہ صدر طیب اردگان اس میٹنگ کے دن سکول آگئے اور انھوں نے بچے
کے گارڈین کے طور پر میٹنگ میں شرکت کی۔اہم بات یہ نہیں کہ اس سے دنیا
تبدیل ہوگئی بلکہ اہم بات یہ ہے کہ اس سے بچے کی ذہنی زندگی ہمیشہ کے لئے
تبدیل ہوگئی۔یہ وہ مقام ہے جو تاریخ میں بہت کم حکمرانوں کو نصیب ہوا۔کوئی
بھی حکمران پوری قوم کا گارڈین ہو تاہے لیکن اس ذمہ داری کا احساس بہت کم
لوگوں کے حصہ میں آیا۔جن قوموں کو ایسے حکمران ملتے ہیں بجا طور پر وہ
قومیں خوش نصیب کہلاتی ہیں اور ایسی ہی قوموں کے حصہ میں ترقیاں اور
کامیابیاں آتی ہیں دوسری طرف ہمارے حکمران ہیں جن کی کرپشن کی نت نئی
کہانیاں سامنے آتی ہیں اب کی بار تو ان ٹھگ حکمرانوں کی کرپشن ایک عجیب
داستان کا منظر پیش کر رہی ہے ۔پاناما پیپرز میں دنیا بھر کے امیر و طاقتور
افراد کی جانب سے اپنے اثاثہ جات آف شورکمپنیوں کے ذریعے چھپائے جانے کا
انکشاف ہوا ہے جس کے بعد دنیا بھر کے مختلف ممالک میں تہلکہ مچا ہوا ہے ۔ایک
سال پہلے ایک جرمن اخبار سے ایک نامعلوم شخص رابطہ کرتا ہے اور اسے "موزیک
فونیسکا" نامی مشہور لا فرم کے انتہائی کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹس دینے کی پیشکش
کرتا ہے۔ اگر تو کوئی پاکستانی ٹی وی چینل ہوتا تو یہ انفارمیشن لے کر
بریکنگ نیوز دے دیتا لیکن جرمن اخبار نے یہ تمام ڈاکومنٹس " انٹرنیشنل
کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس" کے حوالے کردیں اطلاعات کے مطابق پوری
دنیا کی 80 صحافتی تنظیموں کے 107 نمائیندگان نے پورا ایک سال ان ڈاکومنٹس
پر ریسرچ کی اور بالآخر پتہ چلا لیا کہ وہ تمام ڈاکومنٹس بالکل اوریجنل اور
درست تھیں۔کچھ دن پہلے جرمن اخبار نے اس تمام ڈیٹا کی سمری رپورٹ جاری کردی
ھے اور اسے "پانامہ پیپرز لیک" کا نام دیا گیا ھے۔ آج تک ہونے والے تمام
لیکس میں یہ سب سے بڑا لیک ھے جس میں تقریباً سوا کروڑ ڈاکومنٹس ہیں جو کہ
2 اعشاریہ 6 ٹیرا بائیٹس پر مشتمل ھے۔ پانامہ لیکس ھے کیا؟جس لاء فرم کا
ڈیٹا چرایا گیا ھے وہ دراصل پانامہ میں قائم ہوئی اور اس کے پوری دنیا میں
40 کے قریب دفاتر ہیں۔ یہ فرم دنیا کی چوتھی بڑی لا ء فرم ھے اور اس کی وجہ
شہرت بڑی بڑی شخصیات کے اثاثے چھپانے اور ٹیکس چوری میں مدد دینا ھے۔ان
ڈاکومنٹس میں ویسے تو کئی لوگوں کے نام آچکے ہیں جن میں 12 ایسے لوگ بھی
شامل ہیں جو اپنے اپنے ممالک کے نیشنل لیڈرز ہیں یا ماضی میں رھے ہیں۔ ان
میں آئس لینڈ، روس، عراق، یوکرائن، مصر وغیرہ شامل ہیں۔دل تھام کر پڑھیں ان
بارہ ممالک میں پاکستان کا نام بھی شامل ھے اور پانامہ پیپرز میں واضح
الفاظ میں بتایا گیا ھے کہ کس طرح شریف فیملی بشمول میاں نوازشریف،
شہبازشریف، حسن نواز ،حسین نوازاور مریم نواز کے اربوں ڈالر سوئیٹزرلینڈ،
برطانہ اور دوسرے ممالک میں " آف شور ٹیکس ہیون " کے طور پر محفوظ ہیں۔ ان
اثاثہ جات کو کسی شخصیت نے کبھی بھی ڈیکلئیر نہیں کیا کیونکہ اگر وہ ایسے
کرتے تو پہلے تو یہ بتانا پڑتا کہ یہ دولت کہاں سے آئی اور پھر یہ پوچھا
جاتا کہ اس پر ٹیکس کیوں نہیں دیا؟ایک تاثر یہ بھی ھے کہ پاکستانی میڈیا
میں پانامہ لیکس کو کوریج دینے سے روک دیا گیا حوالے کے طور پر کہا جا رہا
ہے کہ پاکستان کی ایک بڑی اخبار کے مین پیج پر اس کا کوئی ذکر نہیں۔ ایک
دوسرے بڑے ادارے کے پیج پر ایک چھوٹی سی سرخی موجود ھے لیکن اس میں میاں
نوازشریف کا نام گول کردیا گیا ۔ اس کے برعکس اگر آپ گارڈین، فنانشل ٹائمز
اور دوسرے غیرملکی اخبارات کی ویب سائٹس چیک کریں تو سب کچھ مل جائے
گا۔پانامہ لیکس کے دستاویزات کے مطابق 200سے زائد پاکستانی شخصیات براہ
راست اس کاروبار میں ملوث ہیں اور ممکنہ طور پر مزید افراد کے نام سامنے
آنے کا امکان ہے۔انتہائی دلچسپ امریہ ہے کہ ان دستاویزات میں 1977 تا 2015
تک کاروبار کرنے والے افراد کے نام شامل ہیں جبکہ پاکستانی شخصیات ان میں
1990ء کی دہائی سے شامل ہوئیں۔پاکستانی میڈیا کی نظر اس وقت شریف فیملی پر
ٹکی ہوئی ہے جبکہ پانامہ کے دستاویزات کے مطابق شریف فیملی زیادہ آف شور
کمپنیاں رکھنے والا خاندان نہیں ہے۔لکی مروت کی سیف اﷲ فیملی برطانوی جزیرہ
ورجن سے لیکر چیلز ،ہانگ کانگ ،سنگا پور اورآئرلینڈ میں 34آف شور کمپنیوں
کی مالک ہیں۔ پانامہ دستاویزات کے مطابق یہ تمام کمپنیاں سینٹر عثمان سیف
اﷲ ،سلیم سیف اﷲ ،انور سیف اﷲ ،ہمایوں سیف اﷲ،جاوید سیف اﷲ،ڈاکٹر اقبال سیف
اﷲ اور جہانگیر سیف اﷲ کے نام سے منسوب ہیں۔پانامہ لیکس کے خفیہ دستاویزات
کا خزانہ ہاتھ لگنے سے انتہائی رازداری سے کام کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں
میں ملوث پاکستان سمیت دنیا کے متعدد معروف شخصیات کے نام آشکار ہوئے ہیں
جس میں کئی ملکوں کے سیاستدانوں سمیت کاروباری شخصیات، بینکرز اور ہائیکورٹ
کے ججز بھی شامل ہیں۔ تاہم اب پانامہ لیکس کے دستاویزات میں ان تمام
پاکستانیوں کے نام سامنے آ گئے ہیں جو کہ آف شور کمپنیوں کے مالک
ہیں۔سیاستدان اور ان کے رشتہ دار۔پانامہ پیپرز میں جن شخصیات کا نام لیا
گیاہے جو کہ آف شور کمپنیاں رکھتے ہیں ان میں وزیراعظم نوازشریف کے بیٹے
حسین نواز ،حسن نواز،مریم نواز ،شہید بینظیر بھٹو اور ان کے بھتیجے حسن
بھٹو شامل ہیں اور سینیٹر رحمان ملک شامل ہیں۔وزیراعلیٰ شہبازشریف کی رشتہ
دارالیاس مہراج اور سمینہ درانی کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے۔جبکہ
وزیراعظم نوازشریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کے نام پر کوئی بھی آف
شور کمپنی نہیں ہے۔پاکستان مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کے
قریبی رشتہ دار وسیم گلزار اورحج سکینڈل کے مرکزی ملزم زین سکھیرا کے نام
بھی پانامہ کی فہرست میں شامل ہیں۔کاروباری شخصیات ۔پانامہ کی جانب سے لیک
کیے گئے دستاویزات میں جو کاروباری شخصیات آف شور کمپنیاں رکھتے ہیں ان میں
صدر الدین ہاشوانی اور ان کے بیٹے مرتضیٰ ہاشوانی،ملک ریاض اور ان کے بیٹے
احمد علی ریاض،اینگرو کارپوریشن کے حسین داؤد،سفائر ٹیکٹسائلز کے یوسف عبداﷲ،شاہد
عبداﷲ،ندیم عبداﷲ ،عامر عبداﷲ کے نام شامل ہیں۔ان کے علاوہ لکی ٹیکسٹائلز
کے گل محمد تابا ،مسعود ٹیکسٹائلز کے شاہد نذیر ،ہلٹن فارما کے شہباز یاسین
ملک ،حبیب بینک لمیٹڈ کے سلطان علی آلانہ ،بکسلی پینٹس کے بشیر احمد اور
جاوید شکور ،برجر پینٹس کے ڈاکٹر محمود احمد ،اے بی ایم گروپ آف کمپنیز کے
اعظم سلطان ،پیزاہٹ کے اکیل حسن اور ان کے بھائی تنویر حسن ،یونیورسل
کارپوریشن پرائیویٹ لیمیٹڈ کے ذوالفقارپراچہ ،سورتی انٹرپرائزز کے
عبدالراشد سورتی اور ان کے خاندان کا نام شامل ہے ۔میڈیا مالکان ۔پانامہ
لیکس کے دستاویزات میں پاکستانی میڈیا گروپس متعدد برجوں کے نام بھی شامل
ہیں جن میں ایکسپریس میڈیا گروپ کے ذوالفقار لاکھانی فہرست میں ٹاپ پر ہیں
جبکہ چینل 24کے گوہر اعجاز ،جیو اور جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمان بھی
آف شور کمپنیا ں رکھنے والے افراد میں شامل ہیں۔وکلاء اور ججز۔پانامہ
دستاویز کے مطابق آف شور کمپنیاں رکھنے والے افراد میں متعدد پاکستانی
وکلاء اور ججز کے نام بھی شامل ہیں جن میں لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس فرخ
عرفان اور جسٹس (ر)ملک قیوم کا نام شامل ہے۔ان انکشافات کے بعد پاکستان میں
ایسا لگتا ہے جیسے الزامات کا کوئی سیلاب ہی آگیا ہوہر طرف الزام تراشی کا
ریلہ ہے اس لئے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کے دانت
دکھانے کے اور کھانے کے اور ۔اس ساری صورتحال میں ایک چیز کھل کر سامنے آئی
ہے کہ ہماری بحثیت پاکستانی قوم کوئی اخلاقی اقدار و روایات عزت نہیں ہے
ورنہ یہ لٹیرے سیاستدان اس طرح ہمارے خون پسینے کی کمائی سے نہ کھیلتے۔
|