ہم عوام کدھر جائیں، ہم اور ہماری پوری قیادت غصے میں ہے،
ایک دوسرے سے الجھ رہی ہے، الزامات لگائے جارہے ہیں، جوابات دیئے جارہے ہیں۔
صورت حال یہ ہے کہ ٹی وی کھولیں یا اخبا رپڑھیں، انسان کے جسم میں چلنے
والے خون کی گردش تیز ہوتی جاتی ہے۔ پاناما لیکس نے صرف پاکستان میں ہی
تہلکہ نہیں مچایا بلکہ دنیامیں بہت سے ممالک ایسے ہیں جن کے حکمرانوں کے
خلاف کاروائیاں بھی شروع ہوچکی ہیں، ایک آدھ مستعفی بھی ہوچکے ہیں، باقیوں
کے خلاف احتجاج بھی ہورہے ہیں، پاکستان میں بھی ایسا ہی ہے، کیونکہ
سیاستدانوں کو تو ایسے مواقع کی تلاش ہوتی ہے، اب اپنے ہاں بھی اپوزیشن اس
ایک ایجنڈے پر متحد ہے، کہ ہم تو کب سے یہ الزام دہرا رہے تھے، کسی نے سنا
نہیں، یا پوچھا نہیں، یا کوئی متاثر نہیں ہوا۔ مگر اب یہ معاملہ سازش نہیں
بلکہ عالمی تنازع بن چکا ہے، اب حکمرانوں کا جواب دینا بنتا ہے۔ اگرچہ
وزیراعظم نے اپنے ایک نشری نماخطاب میں اپنے معاملے کی وضاحت پیش کرنے کی
کوشش بھی کی ہے، اور ایک سابق جج کی نگرانی میں کمیشن بنانے کی نوید بھی
سنائی ہے، مگر اپوزیشن مطمئن ہونے پر آمادہ نہیں، جواب ہے کہ موجودہ جج کی
نگرانی میں کمیشن بنایا جائے۔ پاناما لیکس نے دنیا کے بہت سے بڑے لوگوں کی
منی لانڈرنگ اور خفیہ کاروبار وغیرہ کی باتیں سامنے لا کر عوام کو مزید
پریشان کردیا ہے۔
حکومت کی مخالفت میں عمران خان نے بھی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے، اور
حکومتی ارکان نے عمران کو۔ ان بیانات سے بھی عوام کو بہت حد تک ذہنی کشیدگی
کا شکار ہونا پڑ رہا ہے، کہ اب اگر احتساب نہ ہوا اور کمیشن نے درست رپورٹ
نہ دی تو اب اسلام آباد کے ڈی چوک کی طرف نہیں، رائے ونڈ کی طرف رخ کیا
جائے گا۔ عمران خان نے اپنا روٹ کیوں تبدیل کیا ، اس کی تو خبر نہیں، تاہم
یہ ہوسکتا ہے کہ اب وہ آب وہوا کی تبدیلی چاہتے ہیں، یا انہوں نے یہ خبر
بھی سن لی ہوگی کہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں اب پارک بنانے کا فیصلہ کرلیا
گیا ہے، تاکہ وہاں احتجاج کی گنجائش ہی نہ رہے۔ دوسرا یہ کہ بہت سیاست کرنے
کے بعد انسان کبھی مذہب کی جانب مائل ہوجاتا ہے، عمران نے یہ بھی مناسب
سمجھا ہو گا ایک تو مولانا طارق جمیل صاحب سے ملاقات ہوجائے گی، دوسرا
وزیراعظم پر دباؤ کی صورت بن جائے گی، یعنی ایک ہی تیر سے دو شکار ہوجائیں
گے۔ انہوں نے ن لیگ والوں کو ایک مشور ہ بھی دیا ہے، اگرچہ ن لیگ والے
عمران کے مشورے کو سننے کے بھی روادار نہیں، تاہم جب مشورہ یہ ہو کہ پارٹی
والے اپنے لیڈر سے حساب مانگیں، تو یا تو عمران خان بھولے ہیں، یا پھر ن
لیگ کے کارکنوں کو بھولا تصور کرتے ہیں، یہاں تو عالم یہ ہے کہ پارٹی کے
منتخب ممبران اسمبلی بھی اپنے قائدین سے ملنے اور بات کرنے کو ترستے ہیں،
ان بیچاروں کی کیا مجال کہ وہ اپنے لیڈروں سے کوئی سوال بھی کرسکیں؟ اگر
مارگریٹ تھیچر اور ٹونی بلیئر کو پارٹی نے نکال دیا تھا تو ن لیگ کیوں نہیں
پوچھ سکتی۔ عمران یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ برطانیہ ہے اور یہ پاکستان،
لیڈروں کے سامنے سوال نہ کرسکنا بھی جمہوریت کا حُسن ہی ہے۔
جذباتی ماحول میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے اورنج ٹرین سے متعلق ایک سیمینار
سے خطاب کیا، اول سے آخر تک وہ جذبات کی رو میں بہتے رہے۔ اورنج ٹرین کے
مخالفین کو انہوں نے انوکھا چیلنج کیا، کہا کہ اگر قیامت تک بھی مجھ پر
کرپشن ثابت ہوجائے تو قبر سے نکال کر مجھے پھانسی دے دی جائے۔ انہوں نے
مخالفین سے عدالتوں، میدانوں اور پہاڑو ں میں مقابلہ کرنے کا اعلان بھی کیا،
پیجارو اور مرسڈیز پر گھومنے والے مخالفین کو انہوں نے عام آدمی کا دشمن
قرار دیا، جو غریب کا بھلا نہیں چاہتے۔ اپنے جذبات میں مزید رنگ بھرنے کے
لئے انہوں نے ڈائس سے ہٹ کر میز پر زور زور سے مکے بھی رسید کئے ۔ یہ الگ
بات ہے کہ جتنی دیر سیمینار کی تیاری ہوئی، اس کا انعقاد ہوا اور وزیراعلیٰ
وہاں سے تشریف نہیں لے گئے، اس مقام سے دور دور تک ٹریفک جام رہی، (یقینا
وہاں عام آدمی نہیں ہونگے)۔ جذبات کی کہانی چلی ہے تو پنجاب اسمبلی میں
اپوزیشن نے پاناما لیکس کے معاملے میں تحریک التوا جمع کروانے کی اجازت نہ
دینے پر احتجاج کیا، اس دوران انہوں نے حکومت مخالفانہ نعروں پر مشتمل
فلیسز نکالے اور لہرانے شروع کردیئے، جس پر سپیکر نے نہایت برہمی کا اظہار
کیا اور آئندہ تمام ارکان کی تلاشی لے کر اسمبلی میں آنے کے احکامات بھی
جاری کئے، خواتین کے پرسوں کی بھی تلاشی لی جائے گی، اس کے بعد کیا ہوگا،
آنے والے دنوں میں پتہ چلے گا۔ |