کلبھوشن کی گرفتاری......حکومت کی مجرمانہ خاموشی

پاکستان کے اندرونی معاملات میں بھارتی مداخلت اوراس مملکت خدادادکوعدم استحکام سے دوچارکرنے کی سازش کوئی نئی بات نہیں،تقسیم ہندسے لمحۂ موجود تک پاکستان کے وجودمسعودکو صدقِ دل سے تسلیم کرنے سے صریحاًانکارکی متعصّب بنئے کی روش نے نہ صرف اس خطے کی سلامتی کیلئے سنگین مسائل پیداکررکھے ہیں بلکہ یہاں کے عوام کوغربت،جہالت اورپسماندگی کے جہنم میں دھکیل رکھاہے۔ بھارتی حکمرانوں کوجب بھی موقع ملاانہوں نے پاکستان کوداخلی ،علاقائی اور عالمی سطح پرنقصان پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔مسئلہ کشمیر کومتنازع بناکرپاکستان پرجنگیں مسلط کرنے سے سقوطِ ڈھاکہ ،سیاچین پرفوجی جارحیت سے پانی کی ترسیل کے معاہدوں کی خلاف ورزی تک پاکستان کو زک پہنچانے میں بھارت نے کبھی لمحہ بھر تغافل نہیں برتااورہمارے حکمرانوں کی کمزوریوں کابھرپورفائدہ اٹھاتے ہوئے دنیاکے ہرفورم پرپاکستان کونقصان پہنچانے کیلئے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اپنے غلط مؤقف کادفاع کرنے کیلئے موجود رہتاہے۔نائن الیون کے سانحے کے بعدپاکستان دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ کاحصہ بناتوبھارت نے اس موقع کوبھی ہمیں تکلیف میں مبتلاکرنے کیلئے استعمال کیا۔ افغانستان میں انتشاراور سیاسی ناپختگی کابھارتی پالیسی سازوں نے یہ استعمال کیاکہ اس کی سرزمین کو پاکستان دشمن سرگرمیوں کی آماجگا ہ بنادیا۔

پاکستانی میڈیا،سنجیدہ فکرعالمی حلقے اورعلاقائی امورپرنظررکھنے والے مبصّرین ایک عرصے سے کہتے آرہے ہیں کہ بھارت کی رسوائے زمانہ خفیہ ایجنسی''را''افغانستان میں بیٹھ کر بلوچستان کوغیرمستحکم کرنے کی سازشوں میں مصروف ہے۔بلوچستان میں احساسِ محرومی کے نام پرعلیحدگی پسندی کی جوشورش جاری ہے اسے ''را''کی جانب سے تربیت،اسلحہ،پیسہ اورتخریب کاری کیلئے منصوبہ سازی تک میں پوری پوری مدد فراہم کی جاتی رہی ،اس سے بھی آگے بڑھ کربھارت نے کراچی میں انتشاروافتراق کیلئے ایک مخصوص جماعت کواستعمال کرنے سے گریزنہیں کیا۔ایسے شواہدسامنے آتے رہے کہ ایم کیوایم کی قیادت اور کارکنوں کی بڑی تعداد ''را''کے اشارۂ ابروپربدامنی،قتل وغارت،بھتہ خوری اورماردھاڑکی سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے۔اب تواس جماعت کے منحرف رہنماء کراچی کے سابق ناظم مصطفٰی کمال اوراس کے دیگرساتھی بھی کھلے عام ایسے خوفناک الزامات کی تصدیق کررہے ہیں۔

بلوچستان میں آئی ایس آئی نے عین رنگے ہاتھوں''را''کاانتہائی اعلیٰ سرونگ افسر کلبوشن یادیوکوگرفتار کرکے دنیاکے سامنے پیش کرکے بھارت کاسیاہ سازشی چہرہ بے نقاب کردیاہے جوپچھلے کئی برسوں سے بلوچستان میں علیحدگی پسندوںکی مدداورفرقہ واریت کوہوادینے کے عملی ٹاسک پرکام کررہا تھا۔ابتدائی تفتیش ہی میں بھارت کی سازشوں کے لرزہ خیزانکشافات سامنے آ گئے۔بھوشن جسے ایجنٹ کہناصحیح نہیں ہوگاکیونکہ ایجنٹ توبلوچستان کے مقامی باشندے ہوتے ہیں ،بھوشن کوتوبھارت نے نہ صرف اپناشہری تسلیم کرلیا ہے البتہ کم و بیش۳۶گھنٹوں کی سوچ بچارکے بعداسے اپنی فوج کاسابق اہلکار ظاہرکیااورکہاکہ ''کسی کے ذاتی فعل کو حکومت سے نہیں جوڑاجاسکتا''عیب پر پردہ ڈالنے کی اس نامسعودانہ اوربہت حد تک مضحکہ خیزسعی کوبھی بھارت کی ایک منفرد کاوش ہی قراردیاجاسکے گالیکن بھارت کی مکارانہ چال کی بلی اس وقت تھیلے سے باہرآگئی جب بھارت کے قومی سلامتی کے مشیراجیت دوول نے توباقاعدہ وزیر اعظم نوازشریف کوٹیلیفون کرکے اس کومیڈیاکے سامنے نہ پیش کرنے کی استدعاکی ۔

بھارت پاکستان کی طرف سے خبرآنے کے بعدکافی دیرخاموش رہااورپھراس کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جوبیان جاری کیا گیا:''بھارت کوکسی بھی ملک کے داخلی معاملات میں مداخلت میں دلچسپی نہیں ہے،بھارت اس بات پریقین رکھتا ہے کہ ایک مستحکم اورپرامن پاکستان پورے خطے کے مفادمیں ہے''۔ پاکستان اورپوری متوازن ومعتدل دنیااس ملک کی وزارتِ خارجہ کی یقین دہانی پر کیونکریقین کرلے جس کے پردھان منتری خوداعلان کرچکے ہیں کہ وہ پاکستان کودولخت کرنے والی مکتی باہنی کے ساتھ مل کر ''خدمات''انجام دے چکاہے۔

بھارت کی جانب سے بھوشن یادوکواپناشہری تسلیم کیے جانے پرپاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزازاحمد چوہدری نے سرکاری سطح پر امریکا،روس، جرمنی،برطانیہ،چین سمیت تمام اہم ممالک کوپاکستان میں''را'' کی سرگرمیوں سے آگاہ کیاہے۔ان ملکوں کوبتایاگیاکہ پاکستان نے گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران بلوچستان،کراچی اور فاٹامیں بھارت کی مداخلت کے مصدقہ ثبوت اوردیگرٹھوس شواہدپرمبنی دستاویزات حکومت امریکا ،اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اورتمام اہم ممالک اوراداروں کو فراہم کی تھیں۔ ان دستاویزات میں اس نیٹ ورک کابھی ذکرتھاجوبھوشن یادیوچلارہاتھااورجس کا اس نے تفتیش میں خوداعتراف بھی کیاہے۔پاکستان کے سیکرٹری خارجہ نے امریکااوراقوام متحدہ کو فراہم کی گئی ثبوتوں پرمبنی دستاویزات اوربھوشن یادیو کی سرگرمیوں کے حوالے سے رپورٹ اقوام متحدہ کے پانچ مستقل ارکان سمیت یورپین ممالک کوبھی فراہم کی ہے۔

یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ بھارت کے انتہاءپسندحکمران اور بعض ہندوتنظیمیں پاکستان کی سالمیت کونقصان پہنچانے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔اس ضمن میں گزشتہ تین دہائیوں میں لاتعدادثبوت بھارت سمیت امریکااور اقوام متحدہ کوپیش کیے جاچکے ہیں کہ وہ خاص طورپرکراچی اور بلوچستان میں بھارتی خفیہ ایجنسی ''را''کی کاروائیوں کانوٹس لیں تاکہ امن عالم کوکسی بڑے خطرے سے محفوظ رکھاجاسکے مگرافسوس کہ امریکاکیا،اقوام متحدہ کی جانب سے بھی اس حوالے سے کبھی کوئی ٹھوس تجویزسامنے نہیں آئی۔پاکستان کی جانب سے بھارت پرباربارواضح کیاگیاکہ چونکہ دونوں ہمسایہ ممالک کے سیاسی اورمعاشی مسائل ایک جیسے ہیں لہندادونوں کوچاہئے کہ وہ پرامن ہمسایوں کی طرح زندگی بسرکریں لیکن افسوس کہ بھارت کی''بغل میں چھری منہ میں رام رام''کی منافقانہ روش کبھی بدلنے کانام نہیں لیتی اوروہ قیام پاکستان سے تاحال پاکستان کی سالمیت کے منافی سرگرمیوںمیں مسلسل ملوث چلا آرہاہے جس کے نتیجے میں خطے میں امن کاخواب ابھی تک شرمندۂ تعبیرنہیں ہوسکا۔

بھارت کراچی اوربلوچستان میں کاروائیوں کے ذریعے پاکستان کوجس طرح عدمِ استحکام سے دوچارکرنے کی روش پرگامزن ہے اس طرح دونوں ملکوں میں کشیدگی کاخاتمہ ممکن نہیں۔ان حالات میں اقوامِ عالم پربھاری ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ جنوبی ایشیامیں قیام ِامن کی کوششوں کونقصان پہنچانے کے حوالے سے بھارتی مکروہ کاروائیوں کافوری نوٹس لیں۔سیاسی اورمعاشی نوعیت کے مسائل کاسبھی ممالک کوسامناکرناپڑتاہے اگرپاکستان کے کسی صوبے میں معاشی عدمِ استحکام ہوسکتا ہے توبھارت تواس سے کہیں زیادہ صوبائی انتشار کا شکارہے جہاں بنیادی حقوق کی پامالی کے نتیجے میں اس وقت ٣٢سے زائدمسلح علیحدگی پسندتحریکیں بھارت سے الگ ہونے کی جدوجہدکررہی ہیں جوبھارتی حکومت کے خلاف عوام کی نفرت کاکھلم کھلاثبوت ہے مگر پاکستان نے بھارت میں جاری ان تحریکوں کی کبھی طرفداری نہیں کی بلکہ ہمیشہ افسوس کااظہار کرتے ہوئے بھارتی حکومت سے ا ظہارِ ہمدردی کیاہے کیونکہ پاکستان سمجھتا ہے کہ جہاں یہ مسئلہ حقیقت ہے کہ ہمسائے تبدیل نہیں ہوسکتے وہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ بھارت میں استحکام ہوناہی پاکستان کے مفاد میں ہے۔یہی جذبہ بھارتی حکمرانوں میں پایاجاناضروری ہے تاکہ ایک توخطے کاامن تباہ ہونے سے بچ سکے دوسرادونوں ممالک یکسوئی سے اپنے اپنے عوام کے سماجی و معاشی مسائل حل کر سکیں مگرنجانے یہ بات بھارتی حکمرانوں کی سمجھ میں کیوں نہیں آئی۔وہ بظاہردعوے توپاکستان کے ساتھ دوستی کے کرتے ہیں مگرپاکستان کی سالمیت کے خلاف کام کرنے سے بازنہیں آتے۔

بھارتی حکمرانوں کے قول وفعل میں پایاجانے والایہی تضادجنوبی ایشیامیں قیام امن کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بناہوا ہے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ ایک طرف حکومت پاکستان ''را''کی پاکستان میں کاروائیوں کے حوالے سے بھارت سے کھل کربات کرے کہ وہ اپنی یہ روش بدلے ،دوسرااقوام متحدہ کو چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے بھارت کو جارحانہ اقدام سے بازرکھے تاکہ اس عالمی ادارے کے قیام کے مقاصدپورے ہوسکیں۔جب اقوام عالم اس بات پرمتفق ہیں کہ مسائل کاحل جنگ کے بجائے بات چیت ہی میں پوشیدہ ہے توپھربھارت کوچاہئے کہ پاکستان کے ساتھ مسئلہ کشمیرسمیت تمام امورپربامقصدمذاکرات کرے تاکہ کشیدگی کاخاتمہ یقینی بنایاجا سکے۔بھارت اگر یہ چاہتا ہے کہ وہ امن کی خواہش کازبانی اظہارکرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں مذموم کاروائیاں بھی جاری رکھے تویہ صورتحال قابل قبول نہیں ہوسکتی۔بھارت کی اس دوغلی پالیسی کی بناء پر اگرخطے میں جنگ بھڑک اٹھی تواس کی ذمہ داری بھارت ہی پرہوگی جوپاکستان سمیت اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ہیڈماسٹر بننے کاخواب تودیکھ رہاہے لیکن اسے تعبیرمعلوم نہیں کہ جنگ کی صورت میں ساری دنیامیں ہندوریاست کانام ونشان باقی نہیں رہے گا۔

بلوچستان میں حاضرسروس نیوی کمانڈرکی بطورکارندۂ''را''گرفتاری سے یہ بات کھل کرسامنے آگئی ہے کہ بھارت ہمسائیگی کے آداب سے قطعی ناواقف، طاقت کے زعم میں پاکستان کوسیاسی،معاشی اورعسکری لحاظ سے نقصان پہنچانے پر ادھار کھائے بیٹھا ہے مگربھارت کویہ بات مدنظررکھناہوگی کہ پاکستان کے۲۰ کروڑغیورعوام دشمن کے سامنے سینہ سپر ہیں اورعساکر پاکستان بھارت کی دوغلی پالیسی کوکبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گی اورہرمحاذ پردشمن کودندان شکن جواب دیں گی۔اہل نظرحلقوں سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ پندرہ برس سے پاکستان کودرپیش دہشتگردی،انتہاء پسندی اورعدم برداشت کے پس پشت بھارتی ہاتھ پوری قوت سے ملوث رہاہے۔گزشتہ دورِحکومت میں سابق وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی نے بھی اس وقت کے بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ کو شرم الشیخ مصرمیں ہونی والی ملاقات میں بلوچستان میں''را''کی مداخلت کے دستاویزی ثبوت دیئے تھے۔اس کے بعدسفارتی و سیاسی میدان میں بھارت کی کارگزاریوں کے بارے میں احتجاج کیاجاتارہا۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی ایک سے زیادہ مرتبہ پاکستان میں بدامنی اور دہشتگردی میں بھارتی کردارکی نشاندہی کرچکے ہیں۔

پاکستان کی طرف سے بھارت کاباربارکہاجاچکاہے کہ سرحدوں پرکشیدگی اور شرپسندی کی پشت پناہی کے ذریعے وہ دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی فیصلہ کن جنگ کومتاثرکرنے کی کوشش نہ کرے ۔اس کے برعکس ''الٹاچورکوتوال کو ڈانٹے''کے مصداق بھارت کارویہ ہمیشہ منفی،غیرمعاون اورالزام تراشی پرمبنی رہاہے۔مودی حکومت کے دوبرسوںمیں بھارتی قیادت نے سیاسی سطح پرجس قسم کاجارحانہ اندازاختیار کیا،اس سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا۔بلوچستان،کراچی ،فاٹااورملک کے دیگر حصوں میں شر انگیز مداخلت پراپنی روش میں تبدیلی لانے کی بجائے بھارتی حکام پاکستان سے ٹھوس سامنے لانے کامطالبہ کرتے رہے ہیں۔اپنے کرتوتوں پرپردہ ڈالنے کیلئے پہلے ممبئی حملوں کی لکیرکو پیٹاجاتا رہااورپھرپٹھانکوٹ ایئربیس پر حملوں کوبنیاد بناکر پروپیگنڈے کاایک نیااورشرانگیزسلسلہ شروع کردیا۔ اس تناظرمیں بلوچستان سے''را'' کے کارندے کی گرفتاری نے صورتحال میں انقلابی تبدیلی پیداکردی ہے۔ ''را'' کایہ جاسوس بلوچستان کے علیحدگی پسندوں سے رابطوں کی تصدیق کرتے ہوئے اعتراف کرچکاہے کہ وہ بلوچستان اور کراچی کوپاکستان سے علیحدگی کی سازش پرکام کررہاتھا۔

پاکستان نے بلوچستان سے بھارتی بحریہ کے اہم عہدیداراور''را''کے خطرناک ایجنٹ کی گرفتاری پر بھارت سے احتجاج کیاہے۔ وزارتِ خارجہ نے بھارتی ہائی کمشنرکوطلب کرکے اس معاملے کوسفارتی سطح پربھارت کے سامنے اٹھایابھی ہے لیکن پاکستانی عوام کے نزدیک سیکورٹی اداروں نے جتنی بڑی بھارتی سازش کوناکام اوربے نقاب کیاہے اس کیلئے یہ رسمی احتجاج قطعاًناکافی ہے۔ حکومت،وزارتِ خارجہ اور سفارتی پالیسی سازاچھی طرح جانتے ہیں کہ اس قسم کی گرفتاری بھارت میں ہوئی ہوتی تواب تک اس کاکیساردّعمل سامنے آتا۔پاکستان کی سیاسی حکومت ،وزارتِ خارجہ اورعالمی پالیسی سازوں کواس مسئلے پر خاموشی یامصالحانہ احتجاج کی بجائے بھارت کے ساتھ دوٹوک بات کرنے کی ضرورت ہے۔

حیرت اس امرپرہے کہ بھوشن کی حراست پروزیراعظم اوران کی حکومت خاموش اورقوم ان کی مجرمانہ خاموشی پرشورمچارہی ہے ۔بظاہرلاہورسانحے کی وجہ سے۳۱مارچ کووزیراعظم نوازشریف نے امریکامیں ہونے والی عالمی نیوکلیرکانفرنس میں شرکت سے گریزکرتے ہوئے وزیردفاع خواجہ آصف اور خارجہ امور کے مشیرطارق فاطمی کوبھیجااورقوم بجاطورپرتوقع کررہی تھی کہ وہاں امریکی صدراوبامااوردوسرے عالمی سربراہوں کوبھارت کی پاکستان میں کھلی مداخلت اوربھارتی جاسوس کامعاملہ ضروراٹھایاجائے گالیکن طارق فاطمی نے اوباما کے ساتھ فوٹوسیشن توکیالیکن عالمی میڈیامیں ابھی تک ایک بھی لفظ شائع نہیں ہواجس سے پاکستانی قوم میں شدیداضطراب کی کیفیت ہے۔

موجودہ حکومت کوفوری طورپریہ معاملہ اقوام متحدہ اوردیگرتمام عالمی اور علاقائی سطح پربھارت کی اس گھناؤنی سازش کوپوری قوت کے ساتھ سامنے لانا ازحدضروری ہے جس میں بھارت کودوٹوک اورواضح اندازمیں احساس دلایا جائے کہ پاکستان اپنی سالمیت ،داخلی سلامتی اوراستحکام کے معاملے میں کبھی اورکسی بھی سطح پر رتی بھربرداشت کامظاہرہ نہیں کرے گا۔حکومت پاکستان کی طرف سے جرأت مندانہ ردِّعمل کاایک بڑافائدہ یہ ہوگاکہ الطاف حسین،حسین حقانی،نجم سیٹھی اورامن کی آشاؤں کادن رات چرچاکرنے والے دیگرتمام ایجنٹ بھی اپنی کھال میں آنے کی سوچیں گے اوران کے استعماری آقابھی اپنے ان ایجنٹوں پرہاتھ رکھنے کے مضمرات ومضرات کااحساس کرلیں گے-

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 391030 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.