کیا بے غیرتی کی کوئی حد ہوتی ہے؟

کیا بے غیرتی کی کوئی حد ہوتی ہے؟ یہ میرا سوال ہے اور آپ اس سوال کا جواب سوچیں جب تک میں کچھ باتیں آپ سے شئیر کرلوں، سوال کا جواب مضمون کے آخر میں دونگا۔ بات کرتے ہیں موجودہ حکومت کی موجودہ حکومت کی کیا بات کی جائے، اس حکومت میں ایک سے بڑھ کر ایک نگینہ ایک سے بڑھ کر ایک ہیرا پڑا ہوا ہے جو کہ آئے دن اپنی قابلیت اور عقل کا مظاہرہ عوام کے سامنے کرتے رہتے ہیں اور جس کی ایک مثال محترمہ فوزیہ وہاب صاحبہ کا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان تھا۔ اب ان نگینوں میں سے ایک اور نگینہ محترمہ عابدہ حسین صاحبہ نے بھی اپنے شیریں لب کھولے ہیں اور نئی گوہر افشانی کی ہے۔ آپ بھی ان کا تازہ ترین بیان سنیے۔ محترمہ ایک فرمایا ہے کہ “ جب فاٹا میں ڈرون حملے ہوسکتے ہیں تو پھر ہم سب ایک ہی قوم ہیں اس لئے جنوبی پنجاب میں ڈرون حملے کیوں نہیں ہوسکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں بھی ڈرون حملے ہونے چاہئیں“۔

قارئین کرام جب یہ بیان میری نظر سے گزرا تو مجھے خیال آیا کہ یہ کس قسم کے لوگ ہیں جو اپنے ملک کے ایک حصے میں غیر ملکی حملے بند کروانے یا رکوانے کے بجائے اس کو جواز بنا کر ملک کے دوسرے حصوں میں بھی غیر ملکی حملوں کی خواہش ظاہر کر رہے ہیں۔ اصولی طور پر تو جب وہ ڈرون حملوں کی حمایت کرتی ہیں تو ان کو موجودہ حکومت میں رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے کیونکہ ملک میں امن و امان قائم کرنا، تخریب کاری و دہشت گردی کو ختم کرنا اور عوام کی جان و مال کا تحفظ کرنا تو حکمرانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے نا کہ کسی دوسرے ملک کی کہ وہ ہمارے ملک میں مداخلت بے جا کا مرتکب ہو۔ اور اگر کوئی حکومت اس لائق نہیں کہ وہ عوام کی جان و مال کا تحفظ کرسکے تو اس کو اقتدار چھوڑ دینا چاہیے۔ لیکن جب ضمیر مردہ ہوجائیں، تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔

اب اگر ان کے بیان کا تجزیہ کیا جائے تو اس میں کئی اہم باتیں ہیں اول تو یہ کہ جب انہوں نے فاٹا پر ڈرون حملوں کو جواز بنا کر پنجاب میں ڈرون حملوں کی بات کی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ محترمہ نے یہ مان لیا کہ فاٹا میں ڈرون حملوں میں صرف دہشت گرد مارے جارہے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ امریکی ڈرون حملوں میں بے گناہ لوگ مارے جارہے ہیں اور پرویز مشرف کے دور سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ مشرف کے دور میں باجوڑ میں ایک مدرسہ پر میزائل مارے گئے اور اس میں دو درجن کے قریب بےگناہ طلبہ مارے گئے، اس کاروائی کا جواز یہ دیا گیا کہ سیٹلائٹ کے ذریعے انہوں دیکھا کہ رات کو دہشت گرد اٹھ کر دہشت گردی کی مشق کرنے کی تیاری کر رہے ہیں جبکہ حقیقت میں مدرسے کے معصوم طلبہ نماز تہجد کی تیاری کررہے تھے کہ اس دوران ان پر قیامت گزر گئی اور اس حملے میں شہید ہونے والے طلبہ کی عمریں دس سے سولہ سال کے درمیان تھیں۔ اسی طرح گزشتہ سال ایک بارات پر ڈرون طیارے کے ذریعے میزائل داغے گئے اور اس میں بے گناہ عورتیں اور بچے شہید ہوئے۔ سن دو ہزار آٹھ میں امریکی کمانڈوز نے باقاعدہ پاکستانی حدود میں داخل ہوکر گھروں میں گھس کر ہمارے لوگوں کو شہید کیا جبکہ وہ لوگ اپنے گھروں میں سو رہے تھے۔ اسی طرح اسی سال ماہ اپریل میں ایک مسجد میں ڈرون حملے میں چالیس بے گناہ لوگ شہید ہوگئے ہمارے میڈیا اور امریکہ نے دعویٰ کیا کہ مرنے والے سارے کے سارے دہشت گرد تھے لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ مرنے والے تمام افراد کا تعلق نہ تو کسی سیاسی جماعت سے تھا نہ کسی کالعدم تنظیم سے ان کا تعلق تھا اور نہ ہی وہ وہاں لوگوں کو جہاد کے لئے تیار کر رہے تھے بلکہ ان تمام افراد کا تعلق “ تبلیغی جماعت “ سے تھا ( اور سب جانتے ہیں کہ تبلیغی جماعت کا کسی سیاسی و غیر سیاسی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور وہ لوگ جہاد کے بجائے سہہ روزہ اور چلے کے ذریعے تزکیہ نفس پر زور دیتے ہیں) لیکن محترمہ عابدہ حسین صاحبہ نے اپنے ایک بیان کے ذریعے امریکہ کی تمام بدمعاشی اور قتل عام کو سند جواز دیدیا اور مرنے والے تمام ہی افراد کو دہشت گردوں کی لسٹ میں شامل کرلیا۔

اس کے ساتھ ساتھ دوسرے لفظوں میں انہوں نے حکومت کی ناکامی کا بھی اعتراف کیا جیسا کہ ہم نے کالم کے آغاز میں عرض کیا تھا کہ “ ملک میں امن و امان قائم کرنا، تخریب کاری و دہشت گردی کو ختم کرنا اور عوام کی جان و مال کا تحفظ کرنا تو حکمرانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے نا کہ کسی دوسرے ملک کی کہ وہ ہمارے ملک میں مداخلت بے جا کا مرتکب ہو۔“ اگر وہ سمجھتی ہیں کہ حکومت کے بجائے امریکہ دہشت گردوں کو ختم کرے تو ان کو اخلاقی طور پر اقتدار چھوڑ دینا چاہیے لیکن! لیکن صاحبو یہ کام تو ضمیر والے کرتے ہیں درد دل رکھنے والے کرتے ہیں اعلیٰ اخلاقی اقدار کے حامل افراد کرتے ہیں ہم معذرت کے ساتھ یہ عرض کردیں کہ اگر محترمہ عابدہ حسین صاحبہ نے اقتدار چھوڑنا ہوتا تو وہ کبھی بھی مسلم لیگ چھوڑ کر پی پی پی میں شامل نہیں ہوتیں، خیر یہاں ہم پارٹی تبدیلی کے حوالے سے کوئی بات نہیں کریں گے کیونکہ عین ممکن ہے کل پی پی پی کی حکومت ختم ہونے کے بعد محترمہ ایک بار پھر مسلم لیگ جوائن کرنے کی کوشش کریں اور میاں صاحب انہیں بسرو چشم نہ صرف قبول کریں گے بلکہ ان کو کسی نہ کسی حلقہ سے انتخابات لڑنے کے لئے پارٹی ٹکٹ بھی دیدیں گے ( یہاں سب کا یہی حال ہے)۔

تو قارئین مضمون کے آغاز میں ہم نے سوال کیا تھا کہ کیا بے غیرتی کی کوئی حد ہوتی ہے؟ اب یہ سوال سامنے رکھیں، میری مندرجہ بالا باتیں بھی سامنے رکھیں تو جواب مل جائے گا اور جواب یہ ہے کہ غیرت کی تو حد ہوتی ہے لیکن بے غیرتی کی کوئی حد نہیں ہوتی، عزت کی تو ایک حد ہوتی ہے لیکن ذلت کی کوئی حد نہیں ہوتی ہے، بلندی کی تو ایک حد ہوسکتی ہے لیکن پستی کی کوئی حد نہیں ہوتی اور جب کوئی انسان یا گروہ یا قوم ایک بار ذلت کے ساتھ سمجھوتہ کر لے، بے غیرتی کے ساتھ جینا شروع کردے اور پستی کے سفر کا آغاز ہوجائے تو پھر اس کی کوئی انتہا نہیں ہوتی ہے اور مثال آپ کے سامنے ہے کہ کہاں تو امریکہ ہم سے اڈے مانگتا تھا، پھر ہمارے کمانڈو صدر نے ایک فون پر ڈھیر ہو کر ان کے مطالبات مانے یعنی ایک دفعہ ہمارے ذلت اور پستی جو سفر شروع ہوا تو ہو اس حد تک پہنچا ہے کہ اب ہمارے ارباب اقتدار امریکہ کی مداخلت کو مداخلت نہیں سمجھ رہے بلکہ اس کو جواز بنا کر مزید ایسی کاروائیوں کا موقع فراہم کر رہے ہیں اور یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ہم اس سے بھی زیادہ ذلت آمیز مناظر دیکھیں گے۔

لیکن دوستوں کہا جاتا ہے کہ جیسی روح ویسے فرشتے، جیسے عوام ویسے حکمران ،اگر آج ہمارے اوپر ایسے ناہل اور بے ضمیر لوگ حاکم بن گئے تو ہمیں اللہ سے رجوع کرنا ہوگا اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنی ہوگی اور صرف توبہ و استغفار ہی نہیں کرنا بلکہ موجودہ حالات کو بدلنے کے لئے سعی و جہد بھی کرنا ہوگی نیک اور صالح لوگوں کو منتخب کرنا ہوگا۔ یاد رکھیں اللہ بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جس کو آپ اپنی حالت کے بدلنے کا خیال نہ ہو۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1520315 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More