دہشت گردی،دہشت گردی اور پھر دہشت گردی

 پاکستان میں دہشتگردی نے پھلتے پھولتے ہوئے ایک صنعت کا روپ اختیار کرنے میں ایک طویل وقت لیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس کی جڑوں، شاخوں کو غذا فراہم کرنے والوں کا کسی کو ادراک نہیں تھا۔ کم سے کم انکو، جن کو اس دہشتگردی کی بیل کو پھیلنے سے روکنے کے لئے مامورکیا گیا تھا وہ لازمی آگاہ ہوں گے جس طرح ہر پودے کو تناور درخت بننے کے لئے ایک طویل وقت درکار ہوتا ہے اُسی طرح دہشتگردی نے اپنے قدم جمانے میں ایک طویل سفر طے کیا ہے دہشت گردی یکدم ہم پر نازل تو نہیں ہوئی پاکستان کے رکھوالوں کا فرض تھا کہ اُسی وقت ان پودوں کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکتے،لیکن مصلحتاًیادانستہ ایسا نہیں کیا گیااور آج پاکستان کی عوام اس کڑوے ،زہریلے پھل کو کھانے کے لئے مجبور ہیں۔ دہشت گرد خواہ ملک کے کسی بھی حصے میں ہوں پاکستان کے رکھوالے ان کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی استطاعت ہی نہیں بلکہ بھرپور صلاحیت بھی رکھتے ہیں اس کے باوجود پاکستان کے عوام حیران ہیں کہ نہ جانے وہ کون سی مجبوری ہے کہ پاکستان کے ہر صوبے میں دہشت گرد پے در پے حملے کئے جارہے ہیں اور ہم ہیں کہ عوام کو تقریر کے غلاف میں اُوڑھا کر، تسلی اور تشفی کی گولی کھلا کر نیند کی اتھا ہ گہرائیوں میں سُلانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔لیکن پاکستان کی عوام نے امید کے سہارے جینے کا ڈھنگ سیکھ لیا ہے ۔حالا نکہ پاکستان کی عوام ایک طویل عرصے سے ہر اقسام کی دہشت گردی سے نبرد آزما ہے ، چاہے وہ معاشی دہشت گردی ہو جسے ہم عرف عام میں کرپشن کہتے ہیں جس نے پاکستان کے تمام قومی اداروں کو نیست و نابود کر دیا ، چاہے مہنگائی کی دہشت گردی ہو،پیٹرولیم مصنوعات میں کمی اور ثمرات نہ ملنے کی دہشت گردی ہو،زندگی بچانے والے ادویات اور کھانے پینے کی ذخیرہ اندوزی کی دہشت گردی ہو، لوڈ شیڈنگ کی دہشت گردی ہو، اشیا ء ضروریہ پر ٹیکسز کے بھرمار کی دہشت گردی ہویا پھر نیپرا، کے الیکٹرک،پی ٹی سی ایل، سوئی سدرن گیس ، واٹر بورڈ کی دہشت گردی ہو غرضیکہ ہر قسم کی دہشت گردی پاکستانیوں کا مقدر بن چکی ہے ۔ہر اقسام کی دہشت گردی سے چکناچور عوام کو 27اپریل 2016 کوایسٹر کے موقعے پر گلشن اقبال پارک لاہور میں ایک اور دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا جب خوشی کے لحمات کا منظر یکدم بدل گیا ہر سو افسردہ تھی کیونکہ بانہوں میں لہولہان بچے ،بزرگ اورخواتین تھیں ،کسی کا ہاتھ نہیں ،کسی کا پیر نہیں،کسی کا سر نہیں، کسی کی انتڑیاں زمین پر بکھری ہوئی تھیں ہر سانس زندگی کی بقا کی جنگ لڑ رہی تھی،دہشت گردی کے بعد ایک اور دہشت گردی کہ ہسپتالوں نے مزید زخمیوں کو لینے سے انکار کر دیا تھا یہ محکمہ صحت کی نا اہلی کی منہ بولتی دہشت گردی تھی ،زخموں سے چور موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلابچے کواُٹھایا ہوا شخص کیایہ کہہ سکتا تھا کہ ـ"ہمیں دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے" کیا یہ جملہ یہ نظم کی اصطلاح کسی خاص بچوں کے لئے استعمال ہوتی ہے؟ بچے تو بچے ہوتے ہیں من کے سچے ہوتے ہیں یہ ہی حقیقت ہے کہ اس قسم کے کئی سوالات پنپ رہے ہیں عوام کے ذہنوں میں۔ کیا عوام یہ پوچھنے پر حق بجانب نہیں کہ دو سال گزرنے تک 20نکاتی قومی ایکشن پلا ن کے کتنے نکات پر عملدرآمد ہو سکاہے؟ قومی ایکشن پلان عوام کے لئے ایک اُمید کی کرن تھی، اسکے نکات کی کرنیں بھی بس ایک نکتہ بن کر رہ گئی ہے نتیجہ کیا ہوا دہشت گردی،دہشت گردی اور پھر دہشت گردی ،عوام کے ذہنوں میں سوالات پنپ رہے ہیں کہ کیوں دہشت گردوں کو پنپنے دیا گیا ؟ہم آگ اور خون کے دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں اور آپ نے سر حدیں کھول رکھی ہیں؟ جب بھی کوئی دھماکہ ہو دہشت گردی ہو تو انٹیلی جنس ایجنسیا ں یہ کہہ دیتی ہیں کہ اس دہشت گردی کی اطلاع ہم نے حکومت کو پہلے دے دی تھی، تو پھر کیسے ہو گئی یہ دہشت گردی؟بھئی کسی ذمہ دار کا تعین تو کیا جائے جمہوریت میں زندہ رہنے کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم علم ،عقل و فہم سے عاری ہو جائیں، لوگ کہتے ہیں ہم تنقیدی مزاج کے حامل ہیں تو کیوں نہ کریں تنقید ،ہر دہشت گردی کے بعد ہم یہ ہی سنتے چلے آئے ہیں کہ ہم نے دہشت گردی کو جڑ سے اُ کھاڑ کر پھینک دیاہے ، ہم بچوں ،بزرگوں ،خواتین،اور نوجوانوں کی لاشیں اُٹھا تے رہیں زندہ دلان شہر لاہور لہو لہو ہو، پاکستان پہ عفریتوں کا راج ہو ا ور ہم تنقید بھی نہ کریں ایک عرصے سے پنجاب میں آپریشن کا مطالبہ تھا اگر یہ پہلے کر دیا ہوتاتو 75معصوم جانیں تو نہ جاتیں آج اخباروں کی شہ سُر خیاں گواہی دے رہی ہیں کہ تمام صوبوں کی طرح پنجاب میں بھی دہشت گردوں کا نیٹ ورک مضبوط ہے ، تو کیا عوام انھیں ذمہ دار سمجھیں جو پنجاب میں آپریشن کی مخالفت کر رہے تھے یا اُن کو جن کی ملوں سے را کے ایجنٹ دریافت ہوئے ؟ ۔چلو نہیں کرتے تنقید،نہیں کرتے سوالات ،آپ کے مطلب کی بات کر لیتے ہیں ۔ پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے گلشن اقبال پارک لاہور میں ہونے والی ہولناک بربادی کے بعد عوام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آج میں اس عہد کی تجدید کرتا ہوں کہ میں جب تک شہیدوں کے ایک ایک خون کے قطرے کا حساب دہشت گردوں سے نہ لے لوں چین سے نہیں بیٹھونگا ۔ وزیر اعظم صاحب کا یہ عزم مستحسن ہے، ایک اُمید ہی تو ہے جو انسان کو زندہ رکھتی ہے کیا پتہ اس عروج کو بھی زوال نصیب ہو یا کیا پتہ اگلی باری ہماری ہو ،

Sheikh Muhammad Hashim
About the Author: Sheikh Muhammad Hashim Read More Articles by Sheikh Muhammad Hashim: 77 Articles with 97407 views Ex Deputy Manager Of Pakistan Steel Mill & social activist
.. View More