سیاست دان نہیں راہنما کی ضرورت

حلقہ انتخاب گول ارناس میں نام نہاد لیڈرکثرت سے پائے جاتے ہیں۔ یہ شاید واحد شعبہ ہے جس میں حلقہ انتخاب گول ارناس خود کفیل ہے۔ اس کے لیے ہمیں کسی غیر حلقہ کی امداد کا سہارا نہیں لینا پڑتا۔بہت بار ایسا ہوا کہ عوام نے کسی غیر حلقہ یا ضلع سے امدادکی ضرورت محسوس کی کیونکہ حلقہ میں عوامی امیدوں کے مطابق آج تک ایسے کسی لیڈر نے جنم نہیں لیا جو واقعی اپنے اندر عوامی خدمت کا جذبہ رکھتا ہو۔اس تمام صورتحال کو لیکر حلقہ انتخاب گول ارناس کی عوام نے غیر حلقہ نمائندے کی ضرورت تو محسوس کی لیکن اظہار کرنے سے ہمیشہ قاصر رہے کیونکہ جب جب بھی کبھی اظہا ر کرنے کا وقت آیا یا نوبت آئی تو ہمارے نام نہاد خیرخواہ ہمیں کسی نہ کسی عزیز سے نواز دیتے ہیں۔ یعنی ہماری ضروریات کا مکمل خیال رکھا جاتا ہے یا اس کو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے خیر خواہ اپنی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں۔

اس خوبصورت حلقہ میں میں لیڈر اتنی وافر مقدار میں دستیاب ہیں کہ عوام کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ کس کا دامن پکڑ کر مشکلات کا دریاعبور کریں۔ اور یہ تمام لیڈران بھی اپنی مثال آپ ہوتے ہیں۔ یہ اپنی ازلی خصلت کے ماتحت عوام کو کبھی پار نہیں لگاتے۔کیوں کہ اگر وہ ایسا کر دیں تو ان کو پھرلیڈر بننے کا موقع میسر نہیں ہو گا۔ اور اسی خیال میں وہ ہمیشہ عوام کوبیچ منجھدار پر چھوڑنا اپنا فرضِ اولین سمجھتے ہیں۔ اور اسی میں ان کی بقاء ہوتی ہے۔

یہ وافر مقدار میں پائی جانے والی لیڈر کی قسم دراصل لیڈر نہیں ہوتے انہیں عام زبان میں سیاستدان کہا جاتا ہے۔ یہ لیڈر صرف اپنی دانست میں ہوتے ہیں اور خود کو ان داتا تصور کر لیتے ہیں۔ ان کے خیال میں وہ عوام کے سب سے بڑے خیر خواہ ہوتے ہیں اور ان کی ایک آواز پہ ہزاروں لوگ لبیک کہنے کو تیار ہوتے ہیں۔

حلقہ انتخاب گول ارناس کی بدقسمتی ہے کہ اس حلقہ کو سیاستدان تو بہت سے میسر آئے لیکن لیڈر یا رہنما جتنے ملے وہ انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ اس وقتحلقہمیں جو سیاستدانوں کی فوج ہے اسے دیکھ کے بے ساختہ دل کی دھڑکیں ذہن کا طواف کرنے لگتی ہے اور شاید حلقہ میں سیاستدانوں کی تعدادان دھڑکنوں سے بھی زیادہ ہو گی۔ کیوں کہ یہاں ہر وہ شخص سیاستدان ہے جس کے پاس چند لاکھ روپے اورزبان درازی کا ڈپلوموجود ہے۔لیکن افسوس کہ ہمیں لیڈر بہت کم میسر آئے۔ جس کی وجہ سے ہی حلقہ میں بے شمار وسائل ہوتے ہوئے بھی حلقہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔

خود کو لیڈریا رہنما سمجھنے والے حضرات ذرا غور کریں کہ جب کسی شخص میں رہنما یا لیڈر کے جراثیم ہوتے ہیں تو وہ اپنے مفادات کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ پھر اُسے یہ غرض نہیں رہتی کہ سیلاب کے پانی میں کھڑے ہو کر تصویریں بنوائے یا پھر سودن کا روز گاراسکیم کے تحت کسی راستے کا افتتاح کرتے ہوئے کیمرے کا فلیش اس کے چہرے پر پڑے یا پھر اخبارت میں مبارکبادی کے اشتہارات دیکر اپنی جھوٹی شان کو بڑھائے اور عوام کے سامنے توجہ کا مرکز بننے کی مشق کرے بلکہ جب اس میں راہنما جیسے اوصاف پیدا ہو جائیں تو وہ بغیر کسی ذاتی مفاد کے لوگوں کی خدمت کو ترجیح دیتا ہے۔

سیاستدان اور لیڈر میں فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ ایک سیاستدان لعن طعن سن کر بھی منافقانہ مسکراہٹ کی لالی چہرے پہ سجائے رکھتا ہے۔ لیکن ایک لیڈر اگر چند دنوں کیلئے ہیں لیڈر بنا تو وہ ایسا کوئی کام کر جاتاہے کہ لوگوں اُس کی چند دنوں کی محنت کو صدیوں تک یاد کرتے رہتے ہیں ۔بے شک اُس کا اپناذاتی کردار کیسا ہی ہو۔یاد رہے جب لفظ صفحات کی زینت بنتے ہیں تو ہو سکتا ہے لکھنے والا عوام کے سامنے کاغذوں کے ٹکڑے کرنے والے سے ہزار اختلافات رکھتا ہو لیکن پھر بھی شاید وہ ان سیاستدانوں سے بہر حال بہتر تصور کیا جا سکتا ہے جو ہاتھ باندھ کر جی حضوری کو اپنی کامیابی تصور کرتے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے بھی رہنما اس دنیا سے ہو گزرے ہیں جنھوں نے اُس وقت بھی دولت دیکھی جب عوام غلامی کی کی زنجیروں میں قید تھی ۔لیکن ان کے لیے روپے پیسے سے بڑھ کر کچھ مقصد تھااور اسی مقصدیت نے ان کو ایک عظیم رہنما کے طور پر متعارف کرایا۔وہ ایک سیاستدان تھے لیکن ان کے خمیر میں خصوصیات ایک رہنما کی تھیں۔ اسی لیے تو لوگ آج تک اپنے دل میں ان کے لیے عزت رکھتے ہیں۔ جب سیاستدان اپنی زمینیں ، جاگیریں و ملیں بچانے کے لیے سیاست کریں،سرمایہ داری کی دنیا میں ڈوبے رہیں پھر بھی عوام کے دل میں گھر نہیں کر سکتے۔ عوام کا لیڈر تو اس شخص کو ہونا چاہیے جس کے پاس پیسہ کمانے کا موقع بھی ہو پھر بھی وہ اپنی عوام کا سوچے جس عوام نے انہیں اس قابل بنایا ہیخواہ اس کے پیچھے محدود لوگ ہی کیوں نہ ہوں لیکن اُس بھاری تعداد سے بہتر ہیں جن کے ضمیر مکار سیاستدانوں کے ہاں بک چکے ہوں ……لیکن بد قسمتی اس قوم کی کہ اس کے کرتا دھرتاعربوں کے مالک اور عوام سڑکوں پہ خوار،شاعر نے شاید یہ شعرسیاسی حالات کے متعلق ہی کہا تھا کہ…………
یہاں تہذیب بکتی ہے، یہاں فرمان بکتے ہیں
ذرا تم دام تو بدلو ، یہاں ایمان بکتے ہیں

مجھے موجودہ در کے نوجوان طبقہ سے اُمید کے کہ یقیناجب وہ ماضی کے اوراق پلٹیں گے اور سیاست دانوں کی جی حضوری کرنے والوں کے کرتوتوں کو پرکھیں گے تو وہ بھیڑ چال میں فیصلہ نہیں کریں گی۔ بلکہ وہ حالات و واقعات کا مشاہدہ عقلی دلائل سے کریں گے۔ وہ ان سیاستدانوں کو نہیں سراہیں گی جنہوں نے اپنا سرمایہ تک اس حلقہمیں رکھنا گوارا نہ کیا۔ جنہوں نے اس حلقہ کے غریب طبقے کو تعمیرو ترقی کے لالی پاپ کے سوا کچھ نہ دیا۔ بلکہ ان کی نظر میں وہی سیاستدان لیڈر کا رتبہ پائے گا جو دولت کے انبار میں سے خود کو نکال کر اس دیس میں لایا۔ جس کے اس دعوے میں حقیقت ہو گی کہ اس کا کوئی ذاتی مفاد نہیں ہے۔ اور لیڈر یا رہنما تو کہا ہی اسے جا سکتا ہے جو چند دن کے مفاد کے بجائے آنے والی نسلوں کے دلوں میں زندہ رہنے کی جہدو جہد کرے۔حلقہ میں ایسے بھی لیڈر ہیں جو حلقہ کو خوشحال اور خودکفیل دیکھنا تو چاہتے ہیں اور وقتاً فوقتاً وہ بے پناہ جدو جہد کرتے بھی ہیں لیکن وہ بے پناہ جدو جہد کرنے کے باجود جب ناکام ہو جاتے ہیں تو وہ میدان چھوڑ کر گمشدہ ہو جاتے ہیں جبکہ اس جہدو جہد میں ضروری نہیں کہ عارضی ناکامی اسے ناکام رہنما بنا دے بلکہ اس کی عارضی ناکامی شاید مستقبل کی نسلوں کو اپنا راستہ خود بنانے کا فن سکھا دے۔ اور اگر مستقبل کی نسلیں اس کی جہدو جہد سے یہ فن سیکھ گئیں تو اس رہنما کو اس کی جہدو جہد کا صلہ مل جائے گا۔

MOHAMMAD SHAFI MIR
About the Author: MOHAMMAD SHAFI MIR Read More Articles by MOHAMMAD SHAFI MIR: 36 Articles with 30026 views Ek Pata Hoon Nahi Kam Ye Muqader Mera
Rasta Dekhta Rehta Hai Sumander Mera
.. View More