ایک خبر کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر
جمالی نے جعلی ڈگری کی بنیاد پر نااہلی سے متعلق درخواستوں کی سماعت میں
ریمارکس دئے ہیں کہ ایک شخص اسلامی تعلیمات سے نابلد ہے ،آئین کے آرٹیکل
62,63پر پورا نہیں اتر تا ہے تو وہ نااہل ہوگاآئین کے آرٹیکل 62,63پر کسی
کو تاحیا ت نااہل کیسے قراردیا جاسکتا ہے اگر وہ شخص اپنے آپ کو تبدیل کرتا
ہے تو انتخابات کا اہل ہوگا سپریم کورٹ آف پاکستان میں جعلی ڈگری کی بنیاد
پر نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں
5رکنی لارجر بنچ نے کی جس میں آرٹیکل 62,63زیر بحث آیا اور چیف جسٹس نے
اپنے ریمارکس میں بتایا کہ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو تبدیل کرتا ہے تو وہ
تاحیات نااہلی کے زمرے میں نہیں آئیگا بلکہ نئی تعریف کے مطابق وہ اترے گا۔
آرٹیکل 62,63کی تلوار بھی بڑی عجیب ہے جب بھی انتخابات کا مرحلہ قریب آتا
ہے تو آئین کا آرٹیکل 62اور 63پھر کتابوں کے اوراق سے نکل کر سیاسی جماعتوں
اور قائدین کے جلسوں میں نشست سنبھال رکھتا ہے اور چند لمحوں کے لئے اپنی
مقبولیت کی بنا پر وہ بھول جاتا ہے کہ اس کی پیدائش اور تخلیق کس مقصد کے
لئے ہوئی تھی سیاسی جلسوں میں عوام کا جوش اور ان کے آمد کے لئے نعرے سن کر
خود بھی دونوں ہاتھ چندے سے نکال کر تالی بجانے لگتا ہے انتخابات کے دنوں
میں آئین کے آرٹیکل 62اور 63کے پاس مصروفیات زیادہ اور فرصت کم ملتی ہے
ممکن ہے کہ گھر کاراستہ بھی بھول جاتا ہے ان دنوں کے سیاسی قائدین آرٹیکل
62،63کے چاچا الیکشن کمیشن پر اس کے حقوق کے لئے بھی خوب دباؤ بڑھاتے ہیں
کہ پہلے 62,63کے حقوق دو پھر انتخابات کے لئے نیا سوٹ سینے کی اجازت دی
جائے اور وہ لوگ جنہوں نے کبھی اس آرٹیکل کا منہ تک نہیں دیکھا اس کو اپنے
ڈرائنگ روم میں خوب خاطر مدارت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور عوام کو مختلف
اسناد دکھاتے پھررہے ہیں کہ ہم نے اس معصوم آرٹیکل کا حق ادا کردیا ہے کچھ
لوگ اپنے معمولی اثاثہ جات کی تفصیلات لیکر عوام کے پاس پہنچ جاتے ہیں جبکہ
اپنی دیگر جائیداد پیاروں کے نام منتقل کرکے تسبیحات تک کا سہارا لیتے ہیں
کچھ لوگ تو اپنے 62,63کو بھول جاتے ہیں اور ہمسایوں یا دشمنوں کے 62,63کے
پیچھے پڑ جاتے ہیں یہ سلسلہ چلتارہتا ہے اور وہ حضرات جنہیں ایسے مراحل میں
سرخروہونے کا موقع نہیں ملتا وہ وقتاً فوقتاً سرخرو ہونے والے حضرات سے
62,63کے حقوق اور نشونما کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں بس یہی دن ہوتے ہیں جن
میں کوئی حق پہنچاتا ہے بصورت دیگر اس معصوم کے حقوق تو دور کی بات زکر بھی
نہیں چھیڑی جاتی ہے ۔ نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس کی تخلیق بڑی بھیانک ہے
اس معصوم کا خالق خود ایک غاضب تھا جس نے ایک منتخب جمہوری حکومت کاتختہ
الٹ کر اپنی آمریت قائم کردیا زوالفقار علی بھٹو کو تو پھانسی کے تختہ دار
پر پہنچاکر نعروں میں امر کردیا لیکن خود مملکت پاکستان میں ہونے والے ہر
جنگ اور فرقہ وارانہ فسادات میں کسی نہ کسی شکل میں زندہ رہ گیا صرف یہ ہے
کہ اس کے نام سے نعرے نہیں لگ رہے ہیں باقی عملاً ہر ایک بندہ یہی کررہا ہے
۔تاہم 29اکتوبر2013کو قومی اخبار میں چھپنے والی ایک خبر کے مطابق پہلی بار
تاریخ میں 40کے قریب اراکین اسمبلی آرٹیکل 62اور63پر پورانہ اترنے کی وجہ
سے نااہل قراردیا گیا تھا۔
گلگت بلتستان اور آرٹیکل 62,63کے درمیان دوقسم کے تعلقات بنتے ہیں ایک تو
گلگت بلتستان کونسل کے انتخابات شروع ہورہے ہیں جن کا انتخاب اراکین گلگت
بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ممبران کے حق رائے دہی کے زریعے ہوگا 33ممبران
کے اس ایوان میں حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے پاس 22اراکین کی واضح اکثریت
ہے اور ایک ممبر کے انتخاب کے لئے 5ووٹ درکار ہوتے ہیں ان اراکین کی بنیاد
پر حکمران جماعت 4ممبران کونسل کا انتخاب آسانی سے کرسکتی ہے جبکہ 2ممبران
کے لئے اپوزیشن کے پاس اختیارات موجود ہیں اگر متحدہ اپوزیشن کی شکل اختیار
کی جائے تو انہیں 2سیٹیں حاصل کرنے کا موقع ہے ایسا نہ کرنے کی صورت میں
حکمران جماعت پانچویں نشست پر بھی اپنا قبضہ جماسکتی ہے اپوزیشن کے پاس کل
11اراکین ہیں اور اپوزیشن میں پارٹیوں کی تعداد 6ہے جن میں ایک پارٹی
(اسلامی تحریک)کے پاس چار اراکین ،دوسری (ایم ڈبلیو ایم)کے پاس تین اراکین
اور باقی چار جماعتیں ( جے یو آئی، بی این ایف، پیپلزپارٹی ، تحریک انصاف
)کا ایک ایک ممبراسمبلی میں موجود ہے ۔جی بی کونسل میں کل اراکین کی تعداد
15ہے جن میں سے 6اراکین جی بی قانون ساز اسمبلی کے ممبران کے ووٹ سے منتخب
ہونگے جبکہ 6ممبران وفاقی حکومت اپنی صوابدید پر ’مقرر‘کرتے ہیں جبکہ
وزیراعلیٰ گلگت بلتستان ، وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان اس کے
ممبران ہوتے ہیں اور وزیراعظم پاکستان اس کونسل کے چیئرمین ہوتے ہیں یوں کل
تعداد 15ہے جبکہ گلگت بلتستان سے منتخب ہونے والے ممبران میں سے 2ممبران کو
وزیراعظم پاکستان کا مشیر لیا جاتا ہے (میاں نوازشریف نے اپنے شروع دو
سالوں میں گلگت بلتستان کونسل کے کسی ممبر کو اپنا مشیر نہیں لیا تھا )
گلگت بلتستان امپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر2009میں اراکین اسمبلی کے ووٹ
کے لئے کوئی شرط نہیں ہے جس کی وجہ سے بعض کاروباری حضرات پیسوں کی ریل پیل
کی بنیاد پر ممبران اسمبلی کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اس
بنیاد پر یہ خدشہ نظر آرہا ہے کہ ممبران اسمبلی ایک دم ہی کروڑپتی ہونے کے
خواب میں پارٹیوں کی ڈورتوڑ نکلنے میں کامیاب ہونگے اور سب سے زیادہ خطرہ
حکمران جماعت مسلم لیگ ن کو ہے اس خدشہ کی بنیاد پر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان
نے اپنی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے اول الذکر معصوم آرٹیکل(62و 63) کی
دھمکی دی ہے اور کہا ہے کہ اگر کسی رکن اسمبلی نے پارٹی فیصلے کے خلاف کوئی
حکمت عملی اپنائی اور کسی ایسے امیدوار کی حمایت کی جس کی حمایت پارٹی نے
نہیں کی تو وہ مذکورہ آرٹیکل کے تحت نااہل کہلائے جائیں گے جس سے ان کی
رکنیت منسوخ ہونے کا امکان ہے ۔یوں ان انتخابات میں ایک بار پھر اس معصوم
آرٹیکل کے حق کا زکر شروع ہوگیا ہے ۔اور دوسرا تعلق یوں بنتا ہے کہ اگر
گلگت بلتستان کی سیاسی تاریخ اور حالات کو دیکھا جائے تو بااثر طبقات اور
حکمران جماعتیں بھی گلگت بلتستان کو اسی طرح استعمال کرتی ہیں جس طرح اس
آرٹیکل کا استعمال کیا جاتا ہے ۔
اس سے قبل چیدہ چیدہ حقوق کا زکر کرتے ہیں
آئین پاکستان کا آرٹیکل 62اور63کہتا ہے کہ وہ بندہ ہی 446(183پنجاب،75سندھ
،43خیبرپختونخواہ،17بلوچستان،12فاٹا،2وفاق،104سینیٹ)افراد کے خاندان میں
شامل ہوسکتا ہے جس نے پاکستانی شہریت منسوخ نہیں کی ہو،زہنی طور پر تندرست
ہو،نظریہ پاکستان کے خلاف کسی قسم کے اقدام میں شامل نہیں رہا ہو، آزاد
کشمیر کے اسمبلی سے باہر نہیں نکالاگیا ہو،اور ان کے اوپر کسی بھی صورت غلط
بیانی دھوکہ دہی اور فراڈ کا کوئی کیس رجسٹرڈ نہیں ہویعنی اگر وہ خود کو
صادق اور امین ثابت نہیں کرسکا تو وہ بھی کسی صورت قومی اسمبلی اور سینیٹ
کے رکنیت کا اہل نہیں ہوگا آرٹیکل 62میں قابلیت اور اہلیت پر بحث کی گئی ہے
جب کہ آرٹیکل 63میں نااہلی پر بحث کی گئی ہے ۔یہ آرٹیکل اگر قانونی نقطہ
نظر سے یا آئینی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو 600کلومیٹر سے طویل راستہ طے
کرکے گلگت بلتستان تک نہیں پہنچ سکتا ہے اس کے علاوہ بھی کوئی ایسا زاویہ
نہیں ہے جس کی بنیاد پر یہ معصوم چہرہ آرٹیکل گلگت بلتستان میں پہنچ کر
اپنے آپ کو کسی ’مصیبت‘میں ڈال دیں لیکن اس کے گلگت بلتستان تک پہنچانے کا
اکلوتا راستہ ’سابقہ تجربہ‘ ہے جس میں آئین پاکستان کی 21ویں ترمیم کو گلگت
بلتستان تک توسیع دی گئی اور گلگت بلتستان میں فوجی عدالتوں کاقیام بھی
ہوگیا اور باقاعدہ کئی کیسز زیر سماعت ہیں اگر چہ آئینی طور پر 21ویں ترمیم
بھی گلگت بلتستان تک نہیں پہنچ سکتی لیکن چونکہ اس کے معاشرے پر انتہائی
مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں اور شرپسندعناصر کا قلع بھی قمع ہوگیا ہے اسی
راستے اگر آرٹیکل 62اور63کو بھی گلگت بلتستان تک رسائی دی جائے تو ممکن ہے
کہ اس سے بھی گلگت بلتستان کے سیاسی فضاء اور معاشرے میں مثبت اثرات مرتب
ہوں ایسا نہ ہوں کہ ممبران اسمبلی ایک بریف کیس دیکھ کر ہزاروں افراد کی
نمائندگی کو بیچ ڈالے آرٹیکل 62 اور 63کو گلگت بلتستان تک توسیع دینا اور
لاگو کرنا وقت کی ضرورت ہے تاکہ ماضی قریب کے لمحات اور حادثات کو مستقبل
قریب میں فیصلوں کی شکل مل سکے۔
|