بلوچستان سے''را''کے جاسوس کلبوشن کی رنگے ہاتھوں گرفتاری
کے بعدپاکستان اورایران کے حالات ایک نئے مدوجزر کا شکار ہوتے نظرآرہے ہیں
لیکن تازہ حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ دونوں ہمسایہ برادرممالک کے
تعلقات کو مزید بہتربنائے جائیں۔ایرانی صدر کادورۂ پاکستان اسی حقیقت کی
غمازی کرتاہے کہ دونوں ملکوں میں تعلقات بُرے بہرحال مگر اتنے اچھے بھی
نہیں کہ انہیں مزیداچھابنانے کی ضرورت ہی باقی نہ رہی ہو۔ امریکا اور دنیا
کے دیگرممالک کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کے بعدایران کا بالخصوص
مغربی دنیا کے ساتھ تعلقات کے حواالے سے ایک خوشگواردورکاآغازہوچکاہے لہندا
درپیش حالات میں ایرانی صدرروحانی کادورۂ پاکستان دونوں ملکوں کے استحکام
اورپائیداری لانے میں ممدومعاون ہوسکتاہے۔صدرایران ۲۵مارچ کودوروزہ سرکاری
دورے پراسلام آبادپہنچے جہاں وزیراعظم نوازشریف اوردیگراعلیٰ حکام نے ان
کاپرتپاک استقبال کیا۔ کچھ دیربعدہی دونوں ملکوں میں وفودکی سطح پرمذاکرات
شروع ہوگئے جن میں تجارت سمیت دیگرشعبوں میں تعاون کوفروغ دینے کی کئی
یادداشتوں پردستخط کئے گئے۔
اس موقع پروزیراعظم پاکستان نے کہاکہ پاکستان اورایران نے تجارت کوفروغ
دینے کیلئے دونئے سرحدی راستے کھولنے پراتفاق کیاہے۔ایران پر عائد پابندیاں
ختم ہونے سے اب دونوں ملکوں میں تجارت بڑھانے کے روشن امکانات ہیں۔ دونوں
ممالک میں اس وقت تجارت کاحجم۲۵کروڑ ڈالرہے جبکہ دونوں ملکوں نے آئندہ پانچ
برس میں باہمی تجارت بڑھاکرپانچ ارب ڈالرسالانہ تک لیجانے کی خواہش ظاہرکی
ہے اورخوش آئندبات یہ ہے کہ دونوں ممالک نے اپنی مقامی کرنسی میں تجارت
کاعندیہ بھی دیاہے ۔واضح رہے کہ آج ایران کواس وجہ سے دنیاکی ابھرتی ہوئی
اقتصادی قوت تصور کیاجاتاہے کہ ترقی پذیر ملکوں میں ایران واحدملک ہے جس کے
انسانی وسائل ترکی،خام تیل کے ذخائرسعودی عرب، قدرتی گیس کی فراوانی روس
جبکہ معدنی وسائل آسٹریلیا جیسے ہیں۔اقتصادی پابندیوں کے باوجودایران تیل
کے ذخائرکی وجہ سے اپنے ملک میں صنعتی ڈھانچے کو قائم دائم رکھنے میں
کامیاب رہا۔اس وقت ایران کاشمارلوہے کی پیداواراور آٹو موبائل انڈسٹری میں
پہلے پندرہ جبکہ سیمنٹ کی پیداوارمیں دنیاکے پہلے پانچ بڑے ملکوں میں
ہوتاہے۔ اس کے علاوہ سائنس کے کئی شعبوں میں ایران کی ترقی فقیدالمثال ہے۔
صنعتی اورانسانی ومعدنی وسائل کے حامل ایران کے متعلق ایران کے متعلق یہ
اندازہ لگانامشکل نہیں کہ آنے والے برسوں میں اقتصادی ترقی کرتے ہوئے عالمی
سطح پروہ کس مقام پر فائزہوسکتاہے ۔پاکستان کوبھی اللہ تعالیٰ نے زندگی کے
ہرشعبے میں ترقی کے وسائل عطاکررکھے میں ۔دونوں ہمسایہ ملکوں میں تعاون کے
یقینا بیش بہا فوائدکے امکانات و ممکنات موجودہیں اوراس حقیقت سے دونوں
ملکوں کے اکابر،دانشوراورمبصرین کماحقہ آگاہ بھی ہیں لیکن اس مقصد کیلئے
باہم دیگرتعلقات میں جو خوشگواری درکارہے اس میں بہتری لاناازبس ضروری ہے۔
پاکستان اورایران نے طویل عرصے سے گیس پائپ لائن کاایک مشترکہ منصوبہ شروع
کررکھاہے جوابھی تک پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔ساڑھے سات ارب ڈالرکی
لاگت سے تیار ہونے والی یہ گیس پائپ لائن ایران سے پاکستان لائی جانے والی
ہے۔اس کاباقاعدہ افتتاح مارچ٢٠١٣ء میں ہوا تھاتاہم اس منصوبے کو اس وقت
دھچکالگاجب بین الاقوامی برادری کی طرف سے ایران پرسخت پابندیاں عائدکردی
گئیں۔پاکستان کواپنی حدودکے اندر اس پائپ لائن کی تعمیرکیلئے قرض چاہئے تھا
اورکوئی بھی بین الاقوامی ادارہ قرض دینے کیلئے تیارنہیں تھا۔ایرانی حکومت
اپنی طرف سے اٹھارہ سوکلو میٹرطویل یہ گیس پائپ لائن پہلے ہی تیار کرچکی
تھی اوراسے ابھی پاکستانی شہرنواب شاہ تک لایاجاناتھا۔دریں اثناء چین نے
پاکستاان میں چھیالیس ارب ڈالرکی لاگت سے اکنامک کوریڈورتعمیرکرنے کا
آغازکردیاہے۔پاکستان اورایران نے تجارت بڑھانے کیلئے دونئے سرحدی راستے
کھولنے پر اتفاق کیاہے۔پاکستان اورایران دیگرکئی شعبوں میں ایک دوسرے کی
مددکرسکتے ہیںخصوصاً ایران کے پاس توانائی کے وافر ذخائرموجودہیں جبکہ
پاکستان کوتوانائی کی قلت کاسامنا ہے،پاکستان ایران سے گیس اورتیل لیکر
توانائی کی قلت پرقابوپاسکتاہے۔ اسٹرٹیجک معاملات پربھی دونوں ملکوں میں ہم
آہنگی بہت ضروری ہے۔
ایرانی صدرکے دو
رۂ پاکستان کے دوران دونوں ملکوں کے اکابرین کی طرف سے رسماًاورروایتاً
تعاون بڑھانے پربڑازور دیاگیا۔اس حوالے سے دیگر ہمسایہ ممالک کوبھی مفاہمت
وتعاون کی فضاء پیداکرنے پرآمادہ کرنے کی ضرورت پر بھی زوردیاگیامگرایرانی
صدرکی جانب سے جب یہ کہاگیاکہ ایران دونوں پڑوسی ممالک پاکستان اوربھارت کے
ساتھ بہترتعلقات کاحامی اورکوشاں ہے ۔ایران اگر پاکستان کے ساتھ بہترتعلقات
بنانے کی ضرورت کااحساس رکھتاہے تواسے اپنے عمل سے بھی ایساثابت کرناہوگا۔
پاکستان نے بلوچستان سے گرفتار''را'' کے جاسو س اوربھارتی نیوی کے حاضر
سروس آفیسرکلبوشن یادیوسے متعلق دستاویزی ثبوت وشواہدایران کے حوالے کئے جن
میں کلبھوشن یادو کی تصویر،پاسپورٹ وایرانی ویزہ کے علاوہ دیگراہم
دستاویزات بھی شامل ہیں۔پاکستاانی حکام نے ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ
پاکستان تحقیقات آگے بڑھاناچاہتاہے،بھوشن سے متعلق تفتیش سے جلدآگاہ
کیاجائے خاص طورپر''را''کے جاسوس کے اس اقبال جرم کی تفصیل سے پاکستان
کوجلد ازجلد آگاہ کرکے تعاون کے تقاضے پورے کئے جائیں کہ بلوچ علیحدگی
پسندوں کو (دہشتگردانہ)حملوں کی تربیت کیلئے بھارت بھیجاجاتارہا ہے۔ایرانی
حکام نے تحقیقات کیلئے یقین دہانی کرادی ہے مگراس پرعملدرآمدیقینی
بناناضروری ہے اور ایرانی اکابراس ضرورت سے بخوبی آگاہ ہیں۔
ذرائع کے مطابق پاکستان نے ایران کوقانونی مراسلے میں یہ مطالبہ کیاہے کہ
چاہ بہارمیں بھارتی ''را''کانیٹ ورک کی تمام سرگرمیوں کی معلومات بھی فراہم
کی جائیں کیونکہ بھوشن نے بتایاہے کہ اس کاساتھی راکیش عرف رضوان اب چاہ
بہار میں ''را''کاسیکنڈان کمانڈ ہے ۔بھوشن سے حاصل شدہ معلومات کی روشنی
میں بلوچستان اورکراچی کے مختلف علاقوں سے اس کے پندرہ سہولت کاربھی
گرفتارکرلئے گئے ہیں۔ملزم نے ایران اور افغان خفیہ اداروں سے روابط کا
انکشاف کیاہے ۔اس نے بلوچ علیحدگی پسندلیڈراللہ نذربلوچ سے افغانستان میں
سے افغان انٹیلی جنس کے حکام کی موجودگی میں ملاقاتیں اوربلوچ علیحدگی
پسندوں کوکراچی اورگوادرکی بندرگاہوں پرحملوں کی تربیت کیلئے ممبئی بھارت
بھیجاجس کیلئے ایرانی پورٹ چاہ بہارسے ایک کشتی خریدی تھی۔''را'' کایہ
خطرناک جاسوس اپنے اعترافی بیان میں افغان اورایرانی سرزمین کواستعمال کرنے
کااعتراف کرچکاہے اس لئے ایران پراس حوالے سے بھاری ذمہ داری عائدہوتی ہے
جس کی فوری انجام دہی تک ایران تعلقات میں فی الواقع بہتری کیلئے ناگزیرہے۔
آئی ایس پی آرکے مطابق جنرل راحیل شریف نے بھی ایرانی صدر سے جی ایچ کیومیں
اپنی ملاقات میں جہاں خطے کی موجودہ صورتحال پرتبادلہ خیال کیاگیاوہاں
ایرانی صدرکے سامنے بلوچستان میں دہشتگردانہ کاروائیوں کیلئے''را'' کی طرف
سے ایرانی سرزمین کے استعمال کا معاملہ بھی اٹھایاگیا۔ایرانی صدرنے پاک فوج
کی پیشہ وارانہ مہارت کی تعریف اوردہشتگردوں کے خلاف آپریشن ضربِ عضب کوبھی
سراہا۔
یہ حقیقت توروزِ روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ بھوشن ایرانی بندرگاہ چاہ
بہارمیں ٢٠٠٣ء سے متعین تھااور تقریباً تیرہ سال سے ایرانی سرزمین سے
پاکستان کے خلاف تباہ کن سازشوں میں ملوث تھالیکن اس کایہ مطلب نہیں کہ
ایران کوبھارتی سازشوں میں عملی طورپرشامل سمجھاجائے بلکہ بھارت چاہ بہار
کی بندرگاہ پربھاری سرمایہ کاری کررہاہے اور بندر گاہ کی تعمیرکیلئے سیکڑوں
بھارتی باشندے وہاں کام کررہے ہیں،بندرگاہ کے تعمیری عملے کی آڑمیں بھارت
''را'' کے جاسوسوں کوبھیج کرپاکستان کے خلاف اپنے مذموم مقاصدکی تکمیل
چاہتاہے اوریہ سازشیں جس پیمانے پرکی جارہی ہیں ان سے یہ اندازہ قائم کرنا
مشکل نہیں کہ ان کی پشت پربراہِ راست بھارتی وزیراعظم مودی کاہاتھ ہے
کیونکہ نیوی کے کمانڈرکی سطح کے افسرکا پاکستان میں جاسوسی کیلئے آناکوئی
معمولی بات نہیں ہے۔اس سے ظاہرہوتاہے کہ بھارت کراچی اوربلوچستان میں بھی
سابقہ مشرقی پاکستان کی طرح کسی مکتی باہنی کا قیام عمل میں لاناچاہتاہے
تاکہ وہ اپنی بیان کردہ سازش کے مطابق خدانخواستہ پاکستان کے چار اور
پھرآٹھ ٹکڑے کریں۔
موجودہ حالات میں ایران کوخلوص کے ساتھ پاکستان کاساتھ دیناچاہئے کیونکہ
اگرپاکستان عدم استحکام کاشکارہواتواس کے منفی اثرات سے ایران بھی محفوظ
نہیں رہ سکے گا جبکہ افغانستان پہلے ہی شدیدعدم استحکام کاشکارہے اوراس میں
بھی بھارت کاہاتھ کارفرماوکارگزارہے جس نے امریکی مدد سے وہاں داعش جیسی
انتہاء پسندتنظیم بھی قائم کررکھی ہے اور طالبان اورافغان حکومت کے درمیان
مذاکرات میں بھی شمالی اتحادکواستعمال کرتے ہوئے رکاوٹ بناہواہے اور ان
سازشوں میں اسرائیل بھرپوراندازمیں بھارت کاساتھ دے رہاہے۔ایرانی قیادت
اچھی طرح جانتی ہے کہ جس سازش میں اسرائیل شامل ہوگاوہ یقیناًایران اور
پاکستان کونقصان پہنچانے کاخفیہ ایجنڈاہی ہوگالہندااسرائیل اوربھارت کے گٹھ
جوڑ کے خلاف متحد کاروائی اوران کی سازشوں کاتوڑ وقت کی بنیادی اوراہم ترین
ضرورت ہے جس کیلئے پاک وایران کی اہمیت مسلمہ ہے۔ |