اسلام اور خانقاہی نظام

اگر کوئی شخص مزاروں'خانقاہوں کا سفر کرتا ہے تو وہ ہمارے بیان کردہ واقعات کے ایک ایک حرف کو سچ پائے گا۔
مادر زاد ننگے چھتن پیر کے دربار پر: حضرت چھتن پیر کہ جنہیں امیر شاہ بھی کہا جاتا ہے ‘ جب ہم ان کی”درگاہ پاک“میں جوتا اتار کر داخل ہوئے تو دائیں طرف ان کا ”دربار شریف“ تھا اور سامنے”حجرہ مبارک“ - ہم پہلے حجرہ مبارک میں داخل ہوئے - جونہی داخل ہوئے تو ایک پلنگ پڑا تھا - جس پر بستر سجا ہوا تھا ‘ تکیہ لگا ہواتھا - پلنگ کے اوپر چھت کو اس طرح سے سجایا گیا تھا کہ جس طرح آج کل لوگوں کے ہاں دلہا و دلہن کی مسہری بنانے اور سجانے کا رواج ہے- ہم نے سوچا کہ حضرت چھتن شاہ صاحب اس پلنگ پر تشریف فرما ہوتے ہوں گے مگر تصوف کی دنیا کے مطابق وہ تو پردہ فرما چکے ہیں- جبکہ اس کے باوجود وہ اپنے اس پلنگ پر روحانی طور پر موجود ہوتے ہیں....

پلنگ کو بوسے..: بہر حال ہم دیکھ رہے تھے کہ ا ب جن عورتوں کو اولاد لینا ہوتی ہے‘ وہ اس پلنگ کو بوسے دیتی ہیں-اس پر ہاتھ پھیر کر اپنے جسم پر پھیرتی ہیں-اور بعض تو اس پلنگ کے نیچے لیٹ جاتی ہیں اور لیٹنے کے بعد خیال کیا جاتا ہے کہ اب بابا پیر اولاد دے گا- اس پلنگ کے اوپر ریشمی پردہ پڑا ہوا تھا اور پردے کے اوپر ہار(مالا) لٹک رہے تھے- مسہری والے کمرے میں ریشمی پردے اور ہاروں کے پیچھے کونسا حسین چہرہ چھپا بیٹھا ہے- عورتیں تو یہ گھونگٹ اٹھاتی ہیں اور پھر نیاز دیتی ہیں‘ سلامی دیتی ہیں- دور سے ہم نے لوگوں کو اس حسین چہرے کے بوسے لیتے ہو ئے دیکھا تھا- اب ہم نے بھی آگے بڑھ کر قریب ہو کر گھونگھٹ اٹھایا - پردہ سرکایا تو یہ تصویر تھی‘ حضرت ولی کامل چھتن شاہ قدس سرہ - اور ہم دیکھ کر حیران رہ گئے کہ حضرت کی تصویر بالکل برہنہ تھی- جی ہاں - ”ولیوں“ کی یہ وہ قسم ہے کہ جن کو مجذوب کہا جاتا ہے- یہ ولایت کا بڑا بلند مقام ہے کہ اس مقام پر پہنچ کر ولی اسی طرح پاک ہو جاتا ہے کہ جس طرح بچہ مادر زاد ننگا شکم مادر سے اس دنیا میں آتا ہے -اس طرح کے ولی بازاروں اور محلوں میں گھومتے پھرتے بہت دکھائی دیتے ہیں جن کے آس پاس عورتوں مردوں کا ایک گمبهیر جمع ہوتا ہے کچھ دوست شاید مجھ پر وہابی اور گستاخ اولیاء کا لیبل لگا دیں کہ میں یہ تمام مناظر اپنی طرف سے رقم کر رہا ہوں اگر زندگی نے وفا کی تو عنقریب میں آپ کے سامنے پاکستان کے نانگے شاہ پیروں اور ہندوں کے نانگے سادهوں کے چند مناظر بمعہ ویڈیو لنک ضرور پیش خدمت کروں گا-تو جی ہاں-یہ مجذوب اولیاءکرام کی ٹیم ہے کہ جو برصغیر میں اسلام پھیلانے میں ان کا بھی بہت بڑا حصہ ہے اور یہ اسلام ابھی تک پھیلتا چلا جارہا ہے یعنی دین خانقاہی-ہاں تو حضرت چھتن شاہ کا دربار بھی فیوض و برکات کا منبع ہے اور یہاں اسلام یعنی دین خانقاہی خوب پھیل رہا ہے.جو دین اسلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکهایا تها اور جس میں دنیا و آخرت کی بهلائی ہے اس دین اسلام کی جهلک تو دین خانقاہی میں دور دور تک نظر نہیں آتی.....مزید مشاہدہ کرنے کے لئے اب ہم اس مقدس حجرے سے نکل کھڑے ہوئے اور بائیں جانب حضرت کے دربار کی طرف چل دئیے-حضرت کی قبر جسے دربار شریف کہا جاتا ہے -اس پر کھلونا نما تین عدد پنگھوڑے پڑے تھے تو جنہیں اولاد لینا ہوتی ہے‘ وہ کمرہ عروسی میں ننگے بابے کی تصویر کو سجدہ کرنے اور بوسے دینے کے بعد یہاں پنگھوڑوں میں نیاز ڈالتے ہیں اور پھر اس کو ہلاتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اب اس پنگھوڑے میں یہ جو نوٹ جھولے جھول رہے ہیں تو یہ درحقیقت مستقبل کے پیراں دتہ اور غوث بخش جھولے جھول رہے ہیں-اب ہم حضرت چھتن شاہ کے دربار سے نکلے تو حجروں کی طرف چل دیئے-ایک حجرے کے اندر قدم رکھا تو دوسرا قدم اندر رکھنے کی جرات نہ ہوسکی -حضرت چھتن شاہ کے ملنگوں نے ہمیں اندر آنے کو کہا -مگر ہم نہ جاسکے -کس طرح جاتے‘ ہمارا یہ مقام ہی نہ تھا -یہ مقام تو اصحاب طریقت کا ہے-وہ اصحاب طریقت کہ جو ولایت مجذوبیت کے مقام سے آشنا ہیں اور ہم نا آشنا تھے- اب ہم چرس اور ہیروئن سے آشنا ہوتے تو اندر داخل ہو جاتے-کہ یہاں تو جو پاکباز ہستیاں تھیں.... وہ ہیروئن اور چرس کے کش لگا رہی تھیں-اور وہ جذب و مستی کی نہ جانے کن کن منزلوں اور فیضں میں پہنچ کر تصوف کی منزلوں پہ منزلیں سر کر رہی تھیں-چنانچہ ہم چھتن شاہی ولایت کے اس سیاہ ماحول میں دوسرا قدم رکھتے تو آخر کیسے ؟ہم نے تو اگلا قدم بھی پیچھے کو ہٹا لیا..- اے اہل توحید !ذرا غور کیجئے کہ یہ امت تو قبر پرستی سے بڑھ کر اب تصویر پرستی اور بت پرستی تک جاپہنچی اور پھر تصویر اور بت بھی وہ کہ جو شرک کی آخری حد کے ساتھ ساتھ فحاشی کو بھی اپنے دامن میں تقدس کے پردے میں چھپائے ہوئے ہیں اور یہ ناٹک کسی اجڑ دنیا میں نہیں-یہ ڈھونگ کسی دور دراز جنگلی مقام پر نہیں رچایا جارہا ‘بلکہ ملک پاکستان کے ایک بڑے اور مہذب شہر کے عین وسط میں رچایا جارہا ہے-تصوف وطریقت کے پردے میں فحاشی بیچ چوراہے کے ناچ رہی ہے-شرم وحیا اپنا دامن بچا کر یہاں سے بھاگ رہی ہے- قارئین کرام!میں ان درباروں پر جو خرافات دیکھتا ہوں ان کو ورق و قرطاس پر منتقل نہیں کرسکتا -صرف انہی خرافات کو نقل کرتا ہوں جن کا نقل کرنا ممکن ہوتا ہے- میرے بھائیو!میں جو یہ کام کرتا ہوں تو اس سے میرا مقصد کسی کا دل دکھانا نہیں بلکہ میں جان جوکھوں میں ڈال کر یہ کام اس لئے کرتا ہوں کہ میرے باپ آدم کے بیٹے اور میری ماں حوا کی بیٹیاں جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ سے بچ جائیں-میں تو جنت کے گلزاروں کے راستے دکھاتا ہوں اور یہ راستے اسی طرح دکھلاتا ہوں جس طرح میرے آخری اور پیارے رسول امام الھدی علیہ السلام کے فرامین دکھلا رہے ہیں-ذرا ملاحظہ فرمائیے! یہ حدیث ترمذی کی ہے-یہ حدیث پڑھئے اور اندازہ کر لیجئے کہ کیا ہم تصویر پرستی کے اس انجام کی طرف نہیں بڑھ رہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا کہ”قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک مسلمانوں کا ایک گروہ بت پرستوں کی جماعت سے مل نہ جائے-“( سنن الترمذی ·کتاب الفتن باب ما جاءلاتقوم الساعة حتی یخرج کذابون رقم الحدیث2219) ( حدیث صحیح ہے دیکھئے صحیح الجامع الصغیر رقم الحدیث 7418) اسی طرح ترمذی کی ایک اور حدیث ہے-اس میں حصرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے باپ حصین سے کہا-:اے حصین‘ آج کل کتنے مشکل کشا کی تو بندگی کرتا ہے-اس پر میرا باپ کہنے لگا: سات کی- ان میں چھ زمین پر ہیں اورایک آسمان پر - تب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ان میں سے امید اور خوف کے وقت تو کس کو پکارتا ہے-کہنے لگا وہ جو آسمان پر ہے-اس پر قرآن نے خوب تبصرہ کیا ہے-اس طرز عمل پر اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سورة لقمان میں یوں مخاطب ہوتے ہیں: وَ لَئِن سَا لتُھُم مَن خَلَقَ السَّمَوٰاتِ وَ الا رضِ لَیَقُو لُنَّ اللَّہُ - قُلِ الحَمُدُ لِلَّہِ بَل اَکثَرُ ھُم لاَ یَعلَمَُُونَ ترجمہ: میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا تو یہ بہر صورت کہتے ہیں کہ اللہ نے-( میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم )اس پر تم الحمد للہ کہو- جبکہ ان کے اکثر لوگ جانتے ہی نہیں-( لقمان :25) اسی طرح سورة یونس کی آیت نمبر31 میں فرمایا: قُل مَن یَّر زُ قُکُم مِّنَ السَّمآ ئِ وَ الارضِ امَّن یَّملِکُ السَّمعَ وَالابصَارَ وَمَن یُّخرِجُ الحَیَّ مِنَ المَیِّتِ وَ یُخرِجُ المَیِّتَ مِنَ الحَیِّ وَ مَن یُّدَ بِّرُ الاَ مرَ - فَسَیُقُولُونَ اللَّہُ فَقُل اَفَلاَ تَتَّقُونَ ” میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم (ان مکی بزرگوں) سے پوچھو کون ہے؟جو تمہیں آسمان و زمین سے رزق دیتا ہے- سننے اور دیکھنے کی قوتیں کس کے اختیار میں ہیں- کون بے جان میں سے جاندار کو اور جاندار سے بے جان کو نکالتا ہے- کون اس نظم عالم کی تدبیر کرہا ہے....؟؟ تو یہ بول اٹھیں گے کہ” اللہ ہے-“تب کہہ دو پھر کیا تم (شرک کرنے سے)بچتے نہیں-یاد رکھئے! اللہ کو ماننا اور اس کے ساتھ ان بزرگوں کو بھی حاجت روا‘ مشکل کشا اور داتا و دستگیر تسلیم کرنا‘ یہی شرک ہے- نوح علیہ والسلام کی قوم بھی یہی شرک کرتی تھی- انہوں نے بھی اپنے پانچ ولی”پنج تن“ بنا رکھے تھے‘ جن کا قرآن نے ذکر کیا ہے اور باقاعدہ ان کے نام لئے ہیں- ان کے نام حضرت سواع‘ حضرت ود‘ حضرت یغوث‘ حضرت یعوق اور حضرت نسر تھے- یاد رکھئے! ہندو بھی اسی طرح کا شرک کرتے ہیں- آپ ان کے جوگیوں پنڈتوں اور سادھوں سے پوچھ کر دیکھئے! وہ کہیں گے ہم شرک کہاں کرتے ہیں-ہمارا ہر بت ہمارے اصلی خدا بھگوان یا رام کا ہی ایک روپ ہے-بت بے شک جدا جدا ہیں مگر ان سب میں ایک بھگوان ہی کی پوجا مقصود ہے -ان بتوں میں بھگوان ہی دکھائی دیتا ہے اور یہ کہ ہم ان بتوں کو نہیں پوجتے‘یہ تو عوام ہیں کہ جنہوں نے ان بتوں کو ہی خدا سمجھ لیا ہے- بالکل اسی طرح جس طرح آج کا دین خانقاہی کا پجاری دربار خود بناتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ جی سجدہ کرنا جائز نہیں-مزاروں درباروں کی حرمت خود بیان کرتا ہے اور قبروں پر جانے کے راستے اور جهوٹے کہانیاں قصے خود بیان کرتا ہے اور پهر کہتا ہے جو مزاروں پر بعض خرافات ہوتی ہیں یہ تو لوگ ہیں جو کرتے ہیں لیکن آج تک کسی دین خانقاہی کے علمبر دار نے کسی مزار پر جا کر لوگوں کو اس شرک اور ان خرافات سے روکا...؟ بالکل نہیں-روکیں بهی تو کس منہ سے روکیں...

تو میرے بھائیو! اب ظلم یہ ہے کہ مسلمان کہلانے والے بھی پیر پرستی‘پھر قبر پرستی اور اب بت پرستی میں مبتلا ہو چکے ہیں-اور پھر ظلم پہ ظلم یہ ہے کہ یہ بت پرستی بھی ننگ پرستی کی شکل میں ہے- آئیے! دعوت نوح علیہ السلام پھر زندہ کریں ‘ دعوت ابراہیم کا پھر احیا کریں اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح پھر سے توحید کا چرچا کریں کہ اب یہ امت شرک کی آخری حد پھلانگنے لگی ہے-

واٹس اپ اور سوشل میڈیا کے استعمال کندہ میں سے کون ہے جو دعوت توحید کے داعیوں کی صف میں کهڑا ہونا چاہئے...تو آج ہی ہم سے رابطہ کریں اور سلسلہ کی تمام اقساط منگوا کر جہاں تک ہو سکے آگے لوگوں تک پہنچائیں. ..یہ تمام اقساط آپ اس لنک پر بهی پڑھ سکتے ہیں
عمران شہزاد تارڑ
About the Author: عمران شہزاد تارڑ Read More Articles by عمران شہزاد تارڑ: 43 Articles with 42535 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.