یہ بات انسان کی فطرت میں ہے کہ اگراسے کسی
بڑے انعام کے ملنے کی توقع ہو تو وہ بڑ ی محنت سے اس کام کو سر انجام دیتا
ہے مثلاً ایک مزدور صبح سے شام تک اینٹیں ڈھوتا ہے ،کدال سے زمین کھودتا ہے
، اس امید پر کہ شام کو اسے پیسے کی شکل میں اس کی محنت کی اجرت ملے گی ۔
ایسے ہی اللہ تعالیٰ نے وقتی طو ر پر اس دنیا میں سب کے لیے آزمائشیں ،پریشانیاں
،مشکلات رکھیں ، گناہوں میں رغبت رکھی اور پھر اس کا احسان ہے کہ ساتھ ہی
ساتھ اس نے انسان کے اندر قوت بر داشت بھی رکھی تاکہ وہ ان تمام آ زمائشوں
اور پریشانیوں پر صبر کرے۔ گناہوں پر راغب ہونے کے بجائے اپنی قوت برداشت
کو استعمال کرتے ہوئے ان سے دور رہے۔ محترم قارئین کرام! یہ سب محنت وہ
کیوں کرے ؟ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس محنت کے کرنے والے کے لیے بہترین
اجر کا وعدہ کیا ہے ۔اس کے لیے جنت آراستہ کی ہے تاکہ جب میرامحبوب بندہ
تھک ہا ر کر میرے پاس آئے تو میں اس کے آرام کا پوراپوراخیال رکھوں۔ اللہ
تعالیٰ نے انسان کی فطرت کو سمجھتے ہوئے قرآن و حدیث کے ذریعے جنت کا
خوبصورت تصور بھی دیا تاکہ ہم اپنا ہدف اس معمولی دنیا کے بجائے جنت کو
بنائیں اور اس کو حاصل کرنے کے لیے اپنے رب کو راضی کرنے والے اعمال
اپنائیں، اپنی جانوں اور مالوں کو اللہ کے لیے کھپائیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں اور ان کے مالوںکو اس بات
کے عوض میں خرید لیاہے کہ ان کو جنت ملی گی۔ (سورة توبہ:111)
اللہ تعالیٰ نے دنیاوی نعمتوں کی محبت اور رغبت انسان کے دل میں ڈال دی ہے
کیونکہ ان ہی کے ذر یعے انسان کا امتحان لینا مقصود ہے کہ کون اس دنیاوی
نعمتوں،عیش و عشرت،روپیہ پیسہ،مال دولت ،شہرت وناموری اور اولاد کی محبت
میں گرفتار ہو کر آخرت کو بھول جاتا ہے اور ان ہی میں الجھ کر اپنے اصلی
مالک وخالق کو ،اس کے سامنے حاضر ہونے کواور حساب کتاب کو بھلا بیٹھتا ہے
اور کون ہے جو ان چیزوں کی اصل حقیقت اور ان کے فانی ہونے پر ان کو آخر ت
کے لیے کارآمد بناتا ہے اور ان نعمتوں کے دینے والے رب کو یاد رکھتا ہے اور
ان ہی نعمتوں کو اللہ کی معرفت اور محبت پانے کا ذریعہ بناتا ہے ۔ قرآن نے
ان نعمتوں کے ذریعے ہی جنت کی پہچان کروائی ہے اور ساتھ ہی ساتھ گناہوں سے
بچنے اور نیکیوں کی طرف بڑی رغبت دلائی ہے۔ دراصل دنیا کی یہ نعمتیں جنت کی
نعمتوں کا ہلکا سا عکس ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں فرماتا ہے:
اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! فرمادیجیے کہ کیا میں تمہیں ان سے بہتر چیز بتاﺅں؟
متقیوں کے لئے ان کے رب کی طرف سے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہ
ان میں ہمیشہ رہیں گے اور وہاں ان کے لئے پاکیزہ بیویا ں ہو ں گی اور انہیں
اللہ کی رضا حاصل ہوگی اور اللہ اپنے بندوں پر خوب نظر رکھنے والا ہے۔ (آل
عمران :15 )
دنیا کمانے کے معاملے میں ہر شخص اس اصول پریقین رکھتا ہے کہ جب تک وہ عملی
جدوجہد نہیں کرے گا گھر بیٹھے بٹھا ئے اسے وسائل زندگی میسر نہیں آئیں گے۔
انسانی زندگی میں محنت اور جدوجہد کرنے کا یہ اصول ایک فطری عمل ہے جس پر
سب عمل پیرا ہیں لیکن دین کے معاملے میں شیطان کا دھوکہ اور فریب ایسا ہے
جس کا شکا ر مسلمانوں کی اکثریت ہوچکی ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ نے
ہمارے لئے جنت یا جہنم پہلے سے لکھ دی ہے تو پھر عمل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
لوگوں کا اس طرح سے دنیا کے معاملے میں محنت ومشقت اور جدوجہد کرنا اور دین
کے معاملے میں تقدیر پر الزام رکھنا اور اللہ کی رحمت کے آسرے پر بے عملی
کامظاہرہ کرناشیطان کا دھو کہ اور فریب ہے جس کے بارے میں اس نے صاف صاف
کہا تھا اس نے کہا کیا تو نے دیکھا ،یہ شخص جسے تو نے مجھ پر عزت
بخشی،یقینااگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں بہت تھوڑے لوگوں کے
سوا اس کی اولادکوہرصورت جڑسےاکھاڑدوںگا(بنی اسرائیل:62 ) غور کریں دنیا کی
جتنی بھی نعمتیں ہیں وہ عارضی ہیں مثلاََجوانی ، روپیہ پیسہ ،مال دولت،
اولاد، والدین،تفریح،گھومنا پھرنا ، ان سب چیزوں کی معیاد ختم ہونے کی ایک
تاریخ ہے جبکہ جنت میں ان نعمتوں سے بڑھ کر جو نعمتیں ہوں گی وہ لازوال
ہوگی ،ابدی ہوں گی،کبھی نہ ختم ہونے والی ، یہ سوچ بھی انسان کو جنت کی طرف
رغبت دلا تی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں جنت کی شکل میں ایک بہترین نصب العین
دیا ۔ ایک امید افزاءخوشی دی کہ آج نہیں تو کل جنت میں ہماری تمام خواہشات
پوری ہوں گی۔بس یہ چند روزہ زندگی کے امتحان کو کسی طرح ہم کامیابی سے
گزارلیں ۔یہ سوچ ہمیں نیکیوں کی دوڑ میں آگے سے آگے بڑھاتی ہے اور ہمیں ان
اعمال کی طرف راغب کر تی ہے جنہیں کرکے ہم اللہ کے محبوب بن جائیں۔ دنیا
میں ہر خواہش ہر حسرت ضروری نہیں کہ پوری ہو ۔ ایک نیک شخص ہوسکتا ہے کہ
مشکلات اور آزمائشوں میں گھرا ہوا ہو اور دین سے دوری اختیار کرنے والے اس
دنیا میں خوش وخرم اور مزے میں ہوں۔ یہ نا انصافی صرف دنیا کی حد تک ہے
کیونکہ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ دنیا دار الامتحان ہے ۔ یہاں ہر شخص
کاامتحان ہورہا ہے۔ وہ نعمتیں دے کر بھی آزمایا جاتا ہے اور لے کر بھی ۔
محترم قارئین کرام آخر وہ کونسا مسلمان ہوگا جو جنت کی نعمتیں حاصل کرنے کی
تڑپ اور خواہش نہ رکھے ؟جنت کی طلب جہاں دنیا کی بڑی بڑی آزمائشوں اور
قربانیوں کو آسان بنادیتی ہے وہاں نیک اعمال کی رغبت بھی پیدا کر تی ہے ہم
دنیا میں مال، اولاد، عزت، شہرت، گھروں کی زیبائش اورآرائش،گاڑیوں کے نئے
نئے نمونے میں مقابلہ بازی کرتے ہیں ۔ آئیے آج ہم مقابلہ بازی کا ایک اور
معیاربنائیں اور آخرت اور جنت کی طلب کے لئے نیکیوں میں دوڑ لگائیں تاکہ ہم
جنت کی غیر معمولی نعمتوں کے حقدار بنیں۔سورة المطففین آیت نمبر26میں اللہ
تعالیٰ نے مقابلہ کا یہی میدان ہمیں دیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے
جنت کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا:
وفی ذالک فلیتنا فس المتنافسون۔جو لوگ دوسروں پر بازی لے جا نا چاہتے ہیں
وہ اس چےز کو حاصل کرنے میں بازی لے جانے کی کوشش کریں۔
آئیے !اب ہم بھی جنت کی لازوال نعمتوں کی اپنے اندرطلب اور آرزو پیدا کریں
اورہم آج سے ہی اس بلندواعلیٰ،خوبصورت مقام کو حاصل کرنے کے لیے نیکیوں کی
تگ ودو میں لگ جائیں ۔مزید فرمایا!
وسارعوا اِلٰی مغفرة من ربکم و جنة عرضھا السمٰوات والارض اُعدت للمتقین(آل
عمران : 133)
اپنے پروردگار کی مغفرت کی طرف جلدی دوڑو،دیر نہ کرو، اس جنت کی طرف دوڑو
جس کی چوڑائی سارے آسمان اور زمین کے برابر ہے۔جو متقیوں کے لیے تیار کی
گئی ہے ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرما ئے۔ (آمین) |