جمہوری حکومت کا غیر جمہوری بجٹ 2010-11

عوام کو آٹے، گھی اور دالوں پر سبسڈی سے محروم کر کے ایوان صدر کا بجٹ بڑھا دیا گیا ہے
685ارب روپے خسارے اور 32کھرب 59ارب روپے کا بجٹ 2010-11

لیجئے جناب! اِس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوری حکومت کے دعویداروں نے ایک بار پھر واشنگٹن، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی مداخلت سے اپنی حکومت کا 685ارب روپے خسارے اور32کھرب 59ارب روپے کا دوسرا ایسا غیر جمہوری اور عوام دشمن وفاقی بجٹ 2010-11پیش کردیا ہے کہ جس میںا ِس حکومت نے ملک کے ساڑھے سولہ کروڑ مفلوک الحال اور غریب عوام کے لئے کوئی ریلیف نہیں دیا ہے یہاں مجھے یہ کہنے دیجئے کہ اُلٹا اِس حکومت نے اپنے آقاؤں کی آشیرباد سے اِس بجٹ میں الفاظ اور ہندسوں کے ہیر پھیر سے ملک کے وہ مفلس اور غریب عوام جو بیچارے پہلے ہی مہنگائی، بیروزگاری اور کرپشن کے مارے ہوئے تھے اِن غریبوں کے منہ سے روٹی کا خشک لقمہ بھی چھیننے کے لئے آٹے، گھی اور دالوں پر سبسڈی ختم کرنے کا اعلان کر کے اِنہیں زندہ درگور کرنے کا سامان کرلیا ہے۔

یہاں میں اپنے قارئین کے لئے یہ واضح کرتا چلوں کہ اِس بجٹ میں عوامی مسائل جن میں خوراک، صحت، تعلیم اور روزگار کے مد میں کیری لوگر ایکٹ کے تحت آئندہ پانچ سالوں میں ملنے والی7.5ارب ڈالرز کی اُس امداد میں سے 5.9ارب روپے کی وہ امداد بھی شامل ہے جِسے حکومت نے عوام کے فلاح و بہبود کے لئے ہاتھ پھیلا کر اپنے کشکول میں ڈالوایا تھا مگر اِس کے باجود بھی حکومت عوام کو اِس رقم سے اِس بجٹ میں نہ تو خوراک کی مد میں ہی کوئی ریلیف دے سکی ہے اور نہ ہی صحت اور تعلیم کے مد میں کسی قسم کی کوئی خاطر خواہ رقم مختص کرنے میں کامیاب ہوسکی ہے۔

اگرچہ میں یہاں یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ امر یقیناً قابلِ افسوس ہے کہ خود کو غریبوں کی ہمدرد اور خیرخواہ ظاہر کرنے والی اِس حکومت نے موجودہ وفاقی بجٹ2010-11 جس کا باضابطہ اعلان ہفتہ پانچ جون کی شام نومولود وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے اِسی روز اپنی وزارت کا حلف لینے کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے کیا کہ آئندہ سال 2010-11کے دوران مختلف شعبوں، اداروں اور اشیا کے لئے سبسڈی کی مد میں صرف ایک کھرب 26ارب 68کروڑ 30لاکھ روپے مختض کئے گئے ہیں اور اِس موقع پر اِس سے زیادہ ہمارے حکمرانوں کی بے حسی اور کیا ہوگی کہ اُنہوں نے بجائے کفِ افسوس کے اپنے مخصوص انداز سے اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا کو مخاطب کرتے ہوئے کیمرے کی جانب اپنے خوبصورت چہرے کا بھرپور پوز دیتے ہوئے کہا کہ سبسڈی کی مد میں رکھی گئی یہ رقم رواں مالی سال کے مقابلے میں 45فیصد کم ہیں جبکہ اِس موقع پر اِن کا برملا یہ بھی کہنا تھا کہ رواں مالی سال کے دوران حکومت نے مختلف شعبوں کے لئے 2 کھرب28ارب 99کروڑ20لاکھ روپے کی سبسڈی دی تھی یوں اُنہوں نے کہا کہ اِس سال حکومت نے ملک کے غریب عوام کے لئے ملک کی ترقی اور خوشحالی کے بہتر مفادات میں غریبوں کے لئے حکومت کی جانب سے آٹے، گھی اور دالوں پر دی جانے والی سبسڈی ختم کردی ہے اِس طرح یہ پیسہ کسی اور کام میں لگ سکے۔ تاکہ ملک کے غریب عوام بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں شامل ہوسکیں۔

اور شائد اِسی جواز کے پیشِ نظر ہی حکومت نے اِس بجٹ میں جی ایس ٹی کی شرح میں ایک فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے۔ جس سے متعلق ملک کے سیاسی، سماجی اور کاروباری حلقوں کا خیال ہے کہ جی ایس ٹی کی شرح میں ایک فیصد ہونے والے اضافے سے ملک میں پہلے سے منہ زور اور سینہ زور بے لگام مہنگائی میں زبردست اضافہ ہوجائے گا جس کا سارا بوجھ غریبوں کے کاندھوں پر ڈال دیا جائے گا۔

مگر یہاں اِس منظر اور پس منظر میں اتنا ضرور ہے کہ اِس حکومت نے جہاں الفاظ اور ہندوسوں کے ہیر پھیر سے گھمڈ گھوٹلا کیا ہے تو وہیں حکومت نے اِس بجٹ میں وفاقی بجٹ کا تخمینہ حجم27کھرب 64ارب لگاتے ہوئے29اشیا کی قیمتوں پر کسٹم ڈیوٹیوں میں کمی کردی ہے اور کسی حد تک اِس مہنگائی کو قابو کرنے اور اِس کا بوجھ غریب عوام پر کم سے کم ڈالنے کے لئے پے اینڈ کمیشن کی سفارشات پر تین سال کے دوران عملدرآمد کا اعلان کرتے ہوئے حکومت نے اِس بجٹ کو کسی طرح غریب پرور بجٹ بنانے کے لئے اِس کے پہلے مرحلے میں سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہ پر صرف 50فیصد ایڈہاک الاؤنس اور سرکاری ملازمین کی پنشن میں صرف 15سے20فیصد اضافہ کا اعلان کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جیسے اِس سے بہتر مراعات سرکاری ملازمین اور پنشنرز کو کوئی بھی حکومت بجٹ میں دے ہی نہیں سکتی ....جتنا اچھا اور غریب پرور بجٹ موجودہ حکومت نے پیش کیا ہے۔

حالانکہ اِس بجٹ میں ملک کے غریب عوام کے لئے کوئی ریلیف نہیں دیا گیا ہے۔ اُلٹا ملک کے غریب عوام کو آٹے، گھی اور دالوں کی مد میں ملنے والی سبسڈی کی بھی کٹوتی کردی گی ہے جب کہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت ملک کے غریب عوام کے لئے زیادہ سے زیادہ اشیائے ضروریہ پر سبسڈی دینے کا اعلان کرتی کیونکہ یہ ایک جمہوری حکومت ہے اور جس کا نعرہ ہی روٹی، کپڑا اور مکان ہے اِس لحاظ سے حکومت کو یہ بھی چاہئے تھا کہ جہاں اِس نے سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہ پر 50فیصد ایڈہاک الاؤنس دینے کا اعلان کیا ہے اِسے مستقل بنیادوں پر کم ازکم80فیصد کر کے اِن کی تنخواہوں میں ضم کردیا جاتا تو یہ اِس حکومت کا کوئی بڑا اور عظیم کارنامہ ہوتا اور اِسی طرح پنشنرز کو پنشن کی مد میں بھی 100فیصد تک کا اضافہ کرنا چاہئے تھا تو پھر عوام کہہ اٹھتی کہ یہ ایک جمہوری حکومت کا غریب پرور اور عوام دوست بجٹ ہے ورنہ تو اَبھی کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ یہ اِس ملک کی جمہوری حکومت کا جمہوری بجٹ ہے کیونکہ اِس بجٹ میں نجی اداروں سمیت اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ملازمین کی تنخواہوں کے لئے نہ تو کوئی اعلان کیا گیا ہے اور نہ ہی نجی اداروں اور اخبارات اور نجی ٹی وی چینلز کے مالکان کے لئے اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے لئے کسی قسم کے لائحہ عمل کا کوئی اعلان کیا گیا ہے۔

البتہ! اِس بجٹ میں یہ بات کسی حد تک قابلِ تعریف کہی جاسکتی ہے اگر اِس پر اِسی طرح سے عمل کردیا جائے تو اچھا ہوگا کیونکہ بجٹ میں اِس کا بھی اعلان کیا گیا ہے کہ وفاقی وزرا کی تنخواہوں میں 10فیصد کمی کا اعلان اور مزدور کی ماہانہ اجرت کم ازکم اَب 7ہزار روپے ہوگی۔ اور اِس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک اچھی بات ہے کہ اِس بجٹ میں ویلیو ایڈڈ ٹیکس جس کے یکم جولائی 2010 سے نفاذ سے متعلق عوام میں پریشانی لاحق تھی اِسے اِس بجٹ میں یکم اکتوبر2010تک مؤخر کرنے کی نوید سُنا کر عوام کے نیم مردہ جسموں میں جان ڈال دی گئی ہے۔

مگر اُدھر ہی دوسری جانب اِس بجٹ میں ایوان صدر کے بجٹ میں 3کروڑ 70لاکھ 10ہزار روپے کا اندھا دھند اضافہ کر کے اِس حکومت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ عوام کے منہ سے روٹی کا لقمہ جو آٹے، گھی اور دالوں پر سبسڈی ختم کر کے چھینا گیا ہے اُس لقمہ کو اَب ایوانِ صدر کے بجٹ میں تین کروڑ ستر لاکھ دس ہزاز روپے کی صورت میں چبایا جائے گا۔

گو کہ یہ ایک ایسی جمہوری حکومت کا عوامی بجٹ ہے جس میں عوام کو تو کچھ نہیں ملا یعنی کہ عوام آٹے، گھی اور دالوں پر ملنے والی سبسڈی سے بھی محروم ہوگئے مگر جمہوری حکومت کے جمہوری صدر کو ایوانِ صدر کے لئے اِس بجٹ3کروڑ 70لاکھ10ہزار روپے کی رقم تو چٹکی بچاتے ہی مل گئی۔

اَب کوئی کیسے.....؟؟؟؟ یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک عوامی حکومت کا خالصتاً عوامی بجٹ ہے جس میں عوام کے منہ سے کھانے پینے کی اشیا پر سبسڈی ختم کر کے اِنہیں محروم کر دیا گیا ہو تو پھر یہ کیسی عوامی حکومت ہوئی ......؟؟؟اور کیسا اِس کا یہ عوام دوست بجٹ ہوا.....؟؟؟؟
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 895219 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.