ڈاکٹر قدیرخان۔۔۔۔ ہیرو ؟ یا زیرو؟

کچھ عرصہ سے ہمارے ملک میں ہمارے قومی ہیروز، لیڈرز، علماء اور سکالرز بزریعہ میڈیا بدنام کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ استعماری طاقتیں اس کوششوں میں ہے کہ ہماری تاریخ کو مسخ کریں۔ اور ہمارے دلوں پر راج کرنے والے ہمارے ہیروز کو زیرو بنالیں۔ اور ان کی اِن کوششوں میں ہمارے کالم نگار- اینکر اور نام نہاد سکالر حضرات ان کی مدد کر رہے ہیں۔ استعمار جو کام ہزار سالوں میں نہیں کرسکے ہمارے اپنے اپنا ایمان بیچ کر ان کیلئے سالوں میں کر رہے ہیں۔

ہم پاکستانیوں نے اپنے محسنوں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ اس پر نظر ڈالتے ہیں۔ سب سے پہلے قائداعظم۔۔ وہ اگر وفات نہ پاتے تو ہمارے آج کے دانشور ان کو بھی ثکٹیٹر جیسے الفاظ سے یاد کرتے۔ ہم نے اپنے ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو شہید کروایا۔ ان کے اصل قاتل آج تک بے نقاب نہ ہوسکے۔ زوالفقار علی بھٹو کو ہم نے خود پھانسی دی۔ اس کے بعد ان کی بیٹی کو بھی سرعام قتل کروایا گیا۔ لیکن قاتل آج بھی دندناتے پھر رہے ہیں۔ اور اب آتے ہیں محسن اعظم کی طرف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس نے اس قوم کو دنیا کی استعماری قوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی ہمت دی۔ ڈاکٹر قدیر خان کا نام دنیا کیلئے انجان نہیں۔ جنہوں نے محدود وسائل کے اندر رہتے ہوئے ایک غریب اسلامی ملک کو ایٹمی طاقت بنایا۔ اور اسلامی دنیا کو بھی ایک تحفہ دیا۔ جنہوں نے اپنی زندگی کا بلیدان دیا۔ اپنی آزادی اور عیش وعشرت کی زندگی کو قوم کیلئے قربان کیا۔ سالہا سال تک نظربندی کی زندگی گزاری۔ سارے مغربی ممالک ان کی جان کے دشمن بنے ہوئے تھے۔ امریکہ اب اس کو اس عمر میں بےعزت کر کے باقی نوجوانوں کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ اگر پھر کبھی کسی نے اس طرح کی جرآت کی اس کو بھی عبرت کا نشان بنا دینگے۔

ہمارے نام نہاد کالم نگار حضرات حسن نثار اور نذیر ناجی جو خود کوئی خاص بیک گرؤانڈ کے حامل نہیں انہوں نے استعمار کی کوششوں میں ایک سیڑھی کا کردار ادا کیا ہے۔ اپنی زندگیوں میں ناکام رہنے والے لوگ ہمیشہ دوسروں پر کیچڑ اچھالنے سے نہیں ہچکچاتے۔ اور اپنی ذہنی اختراعات کو دوسروں پر تھوپنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔

کچھ عرصہ پہلے حسن نثار صاحب کا ایک پروگرام آنکھوں کے سامنے گزرا جس میں صاحب نے ڈاکٹر قدیر خان کو ایک چور کہا۔ اور کہا کہ انہوں نے یہ فارمولا چوری کر کے ایٹم بم بنایا۔ اور کہا کہ اس میں اس کا کونسا کمال ہے کہ اس نے ملک کو دنیا کی ان سات طاقتوں کی لسٹ میں لاکر کھڑا کیا۔ یہ حضرت تو وہی کہییں گے جو پٹی یہود اور ہندو بنیہ نے پڑھائی ہوگی۔ اور صاحب فرماتے ہے کہ باقی ممالک میں بھی سائنسدانوں نے کارنامے دکھائے۔ کیا ان کے عوام نے ان کو ہیرو بنایا۔ حسن نثار میرے خیال میں آنکھیں بند کر کے بولتے اور لکھتے ہیں۔ بہت دور جانے کی ضرورت نہیں۔ بھارت کے ایٹمی سائنسدان عبدالکلام کو ہندوؤں نے ملک کا صدر بنایا۔ اور ہم نے ان کو جیل کا قیدی۔۔۔۔۔

اس صاحب نے صرف ڈاکٹر قدیر خان کو ہی نہیں باقی تمام مسلمانوں کو بھی نہیں بخشا۔ اپنے ایک پروگرام میں فرماتے ہے۔ کہ اسلام کی پچھلے 500سال کی تاریخ میں ایک نامور بندہ تو بتا دیں۔ جب ان سے کہا گیا کہ علامہ اقبال۔۔۔۔۔ تو کہتے ہے کہ ان کو پاکستان سے باہر کون جانتا ہے۔ بہت افسوس ہوتا ہے جب اس طرح کے نالائق لوگوں کو ہمارے میڈیا میں بلا کر ان سے ہمارے ہیروز اور ہمارے محسنوں کی تضحیک کروائی جاتی ہے۔ کیا تم بھول جاتے ہو کہ علامہ اقبال وہ شاعر ہے جس کے اشعار نے مسلم معاشرے کو خواب سے بیدار کیا۔ اور ان کی شاعری یورپین اور امریکی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ اور اقبالیات کے نام سے ان یونیورسٹیوں میں مخصوص شعبے کام کر رہے ہیں۔ اور اقبالیات میں پی ایچ ڈیز ہوتی ہیں۔ افسوس کے ان صاحب کے منہ پر پیسوں اور لالچ کی پٹی بندھی ہوئی ہے۔ اور یہ یہود اور نصارہ کے ایجنٹوں کو مسلمانوں میں کوئی نامور شخص نظر نہیں آتا۔ یہ لوگ گاندھی اور نہرو کی تعریف اچھی طرح کر سکتے ہیں۔

ہمارے ایک دوسرے دانشور نذیر ناجی صاحب ہے جن کے کالمز جنگ اخبار میں روزانہ چھپتے ہیں۔ اور اپنے آپ کو دانشور اعظم گردانتے ہیں۔ حال ہی میں ان کا ایک کالم “ڈاکٹر صاحب کا ایک اور دعویٰ“ کے عنوان سے ٣١ مئی کو شائع ہوا۔ اور اس میں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی تھی کہ ایٹمی دھماکے میں ڈاکٹر صاحب کا کوئی کردار نہیں تھا۔ اگر تھا بھی تو جزوی سا تھا۔ اس کے اصل خالق تو ثمر مبارک تھے۔ اب آپ لوگ ہی فیصلہ کرو کہ کیا، ناجی کے ہوش وحواس ٹھکانے پر ہیں۔ اس حقیقت سے تو قوم کا بچہ بچہ واقف ہے کہ انکا محسن اعظم کون ہے۔ ایٹمی دھماکوں سے پہلے تک تو ثمر مبارک نامی کسی سائنسدان کو کوئی جانتا بھی نہیں تھا اور ثمر مبارک نے بھی اپنی پہلی پریس کانفرنس میں اس کا سارا کا سارا کریڈٹ ڈاکٹر صاحب کو دیا۔

ہم احسان فراموش قوم ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں ہی ان کے احسانات کو مٹانے کے درپے ہیں۔ ایک بھارت ہے۔ جس کے ساتھ ہر چیز میں ہم برابری کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے محسن عبدالکلام کو صدر بناکر احسان کا بدلہ دیا۔ اور ایک ہم ہیں۔ جنہوں نے اپنے محسن کو ٨ سال تک نظر بند کیا۔ اور امریکہ کے کہنے پر اس پر طرح طرح کے الزامات لگائے۔ میں اس لئے ڈاکٹر صاحب کو محسن اعظم لکھ رہا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب دو دفعہ قوم پر احسان کر کے قوم کی حفاظت کی۔ پہلے تو اس نے ملک کو ایٹمی قوت بناکر اس ملک اور عوام پر احسان کیا۔ اور دوسری مرتبہ جب پاکستان ایٹمی سنٹری فیوجز ملوث پایا گیا۔ جو عالمی سطح پر ایک بڑا جرم ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستان پر طرح طرح کی پابندیاں لگ سکتی تھیں۔ اس وقت میڈیاں پر آکر سارے کا سارا الزام اپنے سر لیا۔ اور قوم کو بچایا۔ اب فیصلہ ملک کے غیور عوام کریں کہ آیا ڈاکٹر صاحب ہیرو ہے یا زیرو۔
syed abbas
About the Author: syed abbas Read More Articles by syed abbas: 3 Articles with 2782 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.