دہشت گرد مدارس نہیں ۔۔۔۔۔۔
(Abid Ali Yousufzai, Sawat)
وطن عزیز میں گذشتہ دودہائیوں سے حالات کو
کشیدہ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت کو ختم
کرانے کے بعد امریکہ نے پوری دنیا پر اپنی تسلط قائم کرنے کی دوڑ تیز کردی۔
دنیا کو قابو کرنے کے لیے بدامنی کا ماحول پیدا ہوگیا جس نے رفتہ رفتہ دنیا
کے بیشتر حصے بالخصوص اسلامی دنیا کو اپنے لپیٹ میں لے لیا۔
عراق اور افغانستان میں شب خون مارنے کے بعد پڑوسی ممالک میں حالات خراب
ہونے لگی۔ امارت اسلامیہ افغانستان کے پڑوسی ہونے کے ناطے پاکستان بھی بد
امنی سے نہ بچ سکا۔ دہشت گردی کا وائرس وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے
جسم میں داخل ہوکر پرورش پانے لگا۔ چند سالوں میں وطن عزیز بدامنی کے لپیٹ
میں چلاگیا۔ آئے روز دھماکے ہونے لگے۔ گلوں پر چریا پھرنے لگی۔ ٹارگٹ کلنگ
عروج پر پہنچ گئی۔ لاشیں گرنے اور گرانے کا سلسلہ چلتا گیا۔ اور پر امن ملک
ایک میدان جنگ کی سی منظر پیش کرنے لگا۔
وطن عزیز میں بدامنی پھیلنے کے ساتھ ساتھ بیرونی ایجنڈے کے تحت دینی طبقہ
ٹاگٹ ہوتا گیا۔ جب بھی کوئی بڑا واقعہ ہوجاتا دینی مدارس و مساجد کے گرد
گیرا تنگ کر لیا جاتا۔ ملک میں ہر ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ کو داڑھی و
پگڑی کے ساتھ جوڑنے کا ٹرینڈ میڈیا پر متعارف کرادیا گیا۔ مساجد پر
پابندیاں لگائی گئیں۔ مدارس کے خلاف اپریشن کیا گیا۔ علماء اور طلباء کے
پکڑ دکڑ کا سلسلہ چلتا گیا۔ایک ایسا طبقہ جو ہمیشہ ایک پرامن دین کی تعلیم
دیتا ہے، جو ہمیشہ سے محبت وطن رہا ہے، وہ طبقہ بین الاقوامی طور پر دہشت
گرد کے نام سے مشہور ہونے لگا۔ جس کی بھی پگڑی ہوتی یا داڑھی، اس پر کھڑی
نگاہ رکھی جانے لگا۔
پرامن اسلامی ریاست میں بگڑتے ہوئے حالات کے پس پردہ طاقتوں نے اپنے مزموم
عزائم میں کامیابی کو دیکھ کر اپنی کارروائیاں تیز کردی۔ دشمن ممالک کے
خفیہ ادارے ملک میں گھس آئے۔ آئے روز حالات بگڑتے رہے۔ ہم وطنوں کو آپس میں
لڑایا گیا۔ چند بے حس ، مفادپرست اور ملک دشمن افراد کو خریدا گیا اور
کارروائیاں ہوتی گئیں۔ ملک کا کونہ کونہ دہشت گردی کے نذر ہوگیا۔ سینکڑوں
دھماکے ہوگئے۔ ہزاروں افراد ٹارگٹ کلنگ کے نشانہ بنے۔لاکھوں کے تعداد میں
پاکستانی عوام اپنے جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس سے کئی گنا زیادہ معذور
ہوگئے جبکہ بہت سے بے گھر ہوگئے۔
دشمن ممالک اندر بیٹھے ملک دشمن عناصر کے ساتھ منصوبے بناتے رہے۔ معصوموں
کا خون بہتا گیا۔ الزام تراشیاں ہوتی رہی۔ مدارس کو بدنام کرایا جاتا رہا۔
علماء گرفتار ہوتے رہے۔ آگ بڑھتے گئی۔ سلسلہ چلتا گیا۔ ملک کے طول و عرض
میں لگی ہوئی یہ آگ قابو میں آنے سے باہر ہونے لگی تھی۔ دہشت گرد کبھی
مساجد کو نشانہ بناتے رہے تو کبھی کاروباری مراکز کو۔ جنازہ ہو یا سیاسی
اجتماع، تعلیمی ادارے ہو یا مذہبی عبادت گاہیں، ملکی سرحدوں سے لے کر
تفریحی مقامات تک محفوظ نہ رہے۔ چارسدہ یونیورسٹی حملہ کے بعد پشاور میں
سیکرٹریٹ سٹاف کے بس دھماکے سے سوگوار فضاء ابھی سنبھلی نہ تھی کہ لاہور
میں خون کی ندیاں بہا دی گئی۔
قریب تھا کہ ایک مرتبہ پھر دینی مدارس کے گرد رسی کھینچ دی جاتی کہ کوئٹہ
سے ہمارے پڑوسی ملک کے انٹیلی جنس کا بندہ پکڑا گیا۔ بازی پلٹ چکی تھی۔
روزانہ امن دوست اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خلاف بھونکنے والے اور دہشت
گردی کے الزامت لگانے والے بھیڑئے بھارت کا راز فاش ہوچکا تھا۔ کل دیو کا
اقرار منظر عام پر آنے کے بعد بھارت کے ہوش ٹھکانے آنے لگے۔ لیکن جلد ہی
معاملہ دوبارہ سرد پڑ گیا۔ عوام میں تشویش کی لہریں دوڑنے لگی۔ غددار وطن
کے معاملہ کا یوں دب جانا ایک لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ
کل دیو کو بھی ریمنڈیوس کے طرح واپس کر دیا جائے گا؟ کیا ہمارے حکمران،
سیکیورٹی ادارے اور عدلیہ وطن عزیز کے دشمن کو عبرت ناک انجام تک پہنچا
پائے گی؟ کیا کل دیو کے بعد ملک میں بھارتی باشندوں کے موجودگی کے خلاف
اپریشن کیا جائے گا؟ کیا حالیہ دھماکے اور کل دیو کا وجود یہ امتیاز پیدا
کرنے میں کامیاب ہو جائے گا کہ وطن عزیز کے دشمن مدارس نہیں ’’را‘‘ہے؟ اگر
آپ کا ضمیر زندہ ہے تو آپ بھی اپنے عقل و شعور کے مطابق ان سوالات کا جواب
دینے کی اہل ہیں۔ |
|