اقتصادی سروے اور شرمناک معاشی حقائق

“اکنامک سروے آف پاکستان“کیا قوم کے دکھوں کا مداوا کرسکے گا ۔ ۔ ۔
خوبصورت الفاظ اور حقائق کے منافی گوشوروں کا گورکھ دھندہ

گزشتہ دنوں ملک کی اقتصادی صورت حال کا سالانہ جائزہ جاری کیا گیا جسے عرف عام میں ”اکنامک سروے آف پاکستان“ کہا جاتا ہے، حکومت ہر سال بجٹ سے پہلے عمدہ آفسٹ پیپر پر رنگین تصاویر اور خوبصورت گوشواروں کے ساتھ اعلیٰ سرورق سے مزین ایک ایسی دستاویز شائع کرتی ہے جو بعد ازاں حکومتی کباڑخانوں کی نذر ہوجاتی ہے، گو کہ بنیادی طور پر اِس”اکنامک سروے آف پاکستان“ کا مقصد ملک کی معاشی صورتحال کا جائزہ لینا ہوتا ہے، لیکن یہ بہت سے ایسے متعلقہ معاملات کا بھی اجمالی جائزہ لیتی ہے جو ملکی اقتصادیات پر اثر انداز ہوتے ہیں، حکومت کے تازہ ترین معاشی جائزے میں نام نہاد ”وار آن ٹیرر“ کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے، رپورٹ کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ نائن الیون سے اپریل 2010 تک نو برس کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کی 8141 وارداتیں ہوئیں، جن میں عام شہریوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں سمیت 8875 افراد لقمہ اجل بنے،20675 افراد زخمی اور ایک بڑی تعداد معذور ہوئی، رپورٹ میں اِن نو سالوں کے درمیان ملکی معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات کا تخمینہ 43 ارب ڈالر لگایا گیا ہے، جو کہ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستانی کرنسی میں 3655 ارب روپے کی رقم بنتی ہے۔

یہ جائزہ رپورٹ بتاتی ہے کہ امن وامان کی اِس بدحالی کے باعث معیشت کی نشو ونما تعمیر و ترقی کے منصوبوں اور سرمایہ کاری پر بھی مضر اثرات مرتب ہوئے ہیں، ہزاروں لوگ زندگیوں اور اپنے گھروں سے ہی نہیں وسائل روزگار سے بھی محروم ہوگئے ہیں، یہ اکنامک سروے رپورٹ اُن متاثرہ شعبوں کی بھی واضح نشاندہی کرتے ہوئے بتاتی ہے کہ مجموعی قومی پیداوارGDP کی شرح نمو، بیرونی سرمایہ کاری، برآمدات، روپے کی قدر اور ترقیاتی بجٹ میں کمی ہوئی، بے روز گاری اور مہنگائی میں اضافہ ہوا اور سرمایہ بیرون ملک منتقل ہوا، اس سروے میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ جولائی 2007ء سے اب تک سیکورٹی اور سول ریلیف کے کاموں پر 4 ارب ڈالر خرچ ہوئے جو مجموعی قومی پیداوار کا 2.4 فی صد اور ہمارے پورے سال کے تعلیمی اخراجات کے برابر ہے، سروے مزید بتاتی ہے کہ امریکی جنگ میں حصہ داری کی وجہ سے کم و بیش تیس لاکھ افراد بے گھر ہوئے، جن کی بحالی اور آبادکاری کے لئے گزشتہ برس 60 کروڑ ڈالر مختص کرنا پڑے، رپورٹ میں کئی دیگر شعبوں پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کی تفصیل بتانے کے بعد کہا گیا ہے کہ یہ مستقل نوعیت کے ایسے نقصانات ہیں جن کا ازالہ کئی برسوں میں بھی نہ ہوسکے۔

خیال رہے کہ اس اقتصادی جائزے سے چند دن قبل اسٹیٹ بینک بھی زرعی اور مالیاتی صورت ِحال پر ایک مفصل رپورٹ جاری کرچکا ہے، اسٹیٹ بینک کی رپورٹ اور سالانہ اقتصادی جائزے دونوں پاکستانی معیشت کی تباہی کی تصدیق کررہے ہیں، اب تو ماہرین معیشت بھی وزارت ِخزانہ کے منتظمین کے پیش کردہ اعداد و شمار، اندازوں اور تخمینوں کو گمراہ کن قرار دے رہے ہیں، اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں اور حکومت کے نام نہاد معاشی ماہرین کے تجزیوں اور دعوؤں کے برعکس ایک عام شہری روزانہ اپنا چولہا گرم رکھنے اور روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کی کشمکش میں لگا ہوا ہے، ایک عام شہری کے لیے ملک کے اقتصادی بحران کی شدت کیلئے کسی جائزے اور اعداد و شمار کے تجزیے کی ضرورت نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ حالات کی خرابی اب اس انتہا تک پہنچ گئی ہے کہ اس کا بیان کرنا کسی بھی رپورٹ میں ممکن نہیں رہا، امر واقعہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کو برسراقتدار آئے ہوئے 28 ماہ گزر چکے ہیں، یہ بات روز اوّل سے واضح تھی کہ نئی منتخب حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج اقتصادی بحران ہے، حالات میں تبدیلی کی امید پر عوام، سیاسی جماعتیں، ذرائع ابلاغ اور تجزیہ نگار موجودہ حکومت کو وقت اور مہلت دینے کو تیار تھی، لیکن اٹھائیس ماہ میں معاشی ابتری، مہنگائی اور بے روزگاری کے طوفان میں جس قدر تیزی سے اضافہ ہوا ہے اس سے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اب سرکاری اور حکومتی رپورٹوں میں بھی اس بات کا اعتراف کیا جارہا ہے کہ مہنگائی، بے روزگاری میں اضافہ اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں کمی ہوئی ہے، اس کے باوجود حکومت کے معاشی منتظمین کا دعویٰ ہے کہ معیشت بحالی کی جانب گامزن ہے اور مشکل فیصلوں کے ثمرات آنے شروع ہوگئے ہیں، لیکن اقتصادی جائزے جو حقیقت بیان کررہے ہیں اس کے مطابق ملکی اور غیرملکی قرضوں کا حجم 8 ہزار 160ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے، جس کی وجہ سے حکومت کا سارا زور ٹیکسوں کی شکل میں عوام کی رگوں سے خون نچوڑنے پرمنحصر ہے، یہی وجہ ہے کہ موجودہ بجٹ کو عوام دوست بجٹ کے بجائے ”آئی ایم ایف دوست“ بجٹ قرار دیا جارہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کو موجودہ خطرناک ترین صورت حال تک پہنچانے اور آئی ایم ایف کے سخت ترین شکنجے میں جکڑنے کے لئے پیپلزپارٹی کی حکومت نے بنیادی کردار ادا کیا ہے، ہمارے معاشی پالیسی سازوں اور حکومت نے جان بوجھ کر ملک کو آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط پر قرض حاصل کر کے ملک و قوم کو گروی رکھ دیا ہے، ایک طرف جہاں حکومت سخت معاشی حالات کا بہانہ بنا کر ویٹ جیسے ظالمانہ ٹیکس کو نافذ کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور ٹیکس کے دائرے کو وسیع کرنے کے نام پر عوام پر بوجھ بڑھا رہی ہے، وہیں دوسری طرف مراعات یافتہ طبقات کے لئے تمام رعایتیں موجود ہیں، ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق 48 فیصد سے زائد آبادی اپنی بنیادی غذائی ضروریات پوری نہیں کرسکتی جب کہ حکمران طبقے کی بھر پور عیاشیاں جاری ہیں، کرپشن اور بدعنوانی کی داستانیں بھی اس کی تصدیق کر رہی ہیں، اس کے باوجود معاشی منتظمین اعداد و شمار کے حوالے سے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ پاکستان میں ٹیکسوں کا تناسب سب سے کم ہے، یہ درست ہے کہ پاکستان کی حقیقی معیشت کبھی کمزور نہیں تھی، اس معیشت کو درآمد شدہ ماہرین معیشت، رشوت خور، بدعنوانی سیاست دانوں اور افسر شاہی کے گٹھ جوڑ نے تباہ کیا ہے، سوال یہ ہے کہ کیا اس صورت حال کی ذمہ دار حکومت نہیں، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض معاملات میں حکومت کی ناکامی نوشتہ دیوار ہے، مثال کے طور پر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کو اگر پچاس فی صد غلط قرار دیا جائے تو بھی حکومتی سطح پر ہونے والی کرپشن کا معاشی تباہی میں سب سے بڑا کردار ہے، اس پر مستزاد یہ کہ حکومت کوئی واضح معاشی حکمت عملی اپنانے میں بھی پوری طرح ناکام رہی ہے، سرکاری اخراجات اور وسائل میں توازن پیدا کرنا حکومت کا کام ہے، لیکن اس کی بھی کوئی منصوبہ بندی کہیں دکھائی نہیں دیتی، معاشی منصوبہ بندی کی عدم موجودگی کا ایک اظہار اس سے بھی ہوتا ہے کہ پٹرول کی قیمت ایک روپیہ فی لیٹر بڑھتی ہے تو ہر شے کی قیمت میں فوراً اضافہ ہو جاتا ہے، لیکن جب پٹرول کی قیمت چھ روپے فی لیٹر کم ہوتی ہے تو کسی ایک شے کی قیمت میں کوئی کمی نہیں آتی، یہ انتظامی ناکامی کے ساتھ معاشی منصوبہ بندی کے نہ ہونے کی بین دلیل ہے، لیکن اس کے باوجود موجودہ حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ عوام کی نمائندہ اور ان کی خیرخواہ ہے، چنانچہ ایسی اقتصادی صورتحال میں بہتری کی توقع کرنا کار عبث ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس اقتصادی سروے میں جو اعداد و شمار جاری کئے گئے ہیں وہ اتنے ہولناک ہیں کہ اُس نے پہلے سے مایوس اور پریشان عوام کو اور بھی زیادہ فکر مند کر دیا ہے، حکومت کی طرف سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق جو جائزہ رپورٹیں پیش کی جاتی ہیں، ایک ذمہ دار حکومت کی طرف سے اُن کا بنیادی مقصد عوام کو حقائق سے آگاہ کرنا اور اِس اَمر کی یقین دہانی کرانا ہوتا ہے کہ آئندہ اِن کے منفی پہلوؤں کا تدارک کیا جائے گا اور مؤثر اور نتیجہ خیز اقدامات سے اِن کا ازالہ کر کے عوام کی مشکلات کو دور کیا جائے گا لیکن موجودہ اقتصادی سروے میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی، اِس وقت معروضی صورتحال اور زمینی حقائق یہ ہیں کہ توانائی کے بحران کے سبب صرف پنجاب میں 30ہزار کے لگ بھگ صنعتی ادارے بند ہونے سے لاکھوں افراد بے روزگاری کا شکار ہو گئے ہیں، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے جہاں گھریلو صارفین کے لئے مشکلات پیدا ہوئیں ہیں، وہاں مصنوعات کی پیداواری لاگت بڑھنے سے قیمتوں میں اضافے کے باعث مہنگائی میں بھی اضافہ ہوا، لیکن اِس کے باوجود نہ تو حکومتی اخراجات میں کمی کی گئی ہے اور نہ ہی کارکردگی کو بہتر بنانے اور مالی کنٹرول کو مؤثر بنانے کے لئے کوئی قدم اٹھایا گیا، جس سے یہ خدشات جنم لے رہے ہیں کہ آئندہ سال بھی معیشت کی بحالی اور حالات کی بہتری کا کوئی واضح امکان نظر نہیں آتا، اوپر سے حکومتی سروے میں اصلاح احوال کے لئے مؤثر اقدامات کا فقدان اِس خدشے کو مزید تقویت دیتا ہے کہ معاملات حکومت کے کنٹرول سے باہر ہوتے جارہے ہیں، مشیر خزانہ کی طرف سے حکومت کی ناقص کارکردگی کا اعتراف اپنی جگہ لیکن اُن کی طرف سے بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ اور ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے نفاذ کا عندیہ گرانی کے طوفان میں گھرے ہوئے عوام کی کمر توڑ کر اُن کی قوت خرید کو بالکل ختم کر دے گا، اِس پر افسوسناک اَمر یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی کہ عوام جنہوں نے انہیں ایوانِ اقتدار تک پہنچایا ہے، اُن کے منہ سے نوالہ چھین لینے، انہیں بے روزگاری کی بھٹی میں جھونکنے اور زندگی کی بنیادی سہولتوں اور مراعات سے محروم کرنے کا اُن کے پاس کیا جواز ہے اور وہ عوام کو کس جرم کی سزا دینے پر تلے ہوئے ہیں، سروے میں جن خامیوں کی نشاندہی کی گئی ہے حکومتی پالیسی کے حوالے سے بجٹ میں اُن کے ازالے کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا، دوسری طرف اسٹیٹ بینک قوم کو یہ خوش خبری دے رہا ہے کہ ِاس سال مہنگائی اور بڑھے گی۔

قارئین محترم یہ ساری تفصیل خود اُس حکومت کی مرتب کردہ ہے جو امریکی جنگ کی سواری پہ سوار فتح کا نشان بنائے سابقہ حکمرانوں کی طرح اپنی قوم کو یہ باور کرا رہی ہے کہ یہی حکمت عملی ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں ہے، درحقیقت اکنامک سروے آف پاکستان کی رپورٹ نے صرف اُن مادی نقصانات کا مختصر سا جائزہ پیش کیا ہے جو امریکی مفادات کی جنگ میں اُس کا دست و بازو بن جانے سے ہمارا مقدر بنے، بدقسمتی سے ابھی تک ایسے اصول، قاعدے، ضابطے اور فارمولے ایجاد نہیں ہوئے، جو قلب و ذہن، شعور فکر اور انسانی احساس کی کھنڈر ہو جانے والی بستیوں کا جائزہ لے سکیں، ایک زندہ و جاوید، حریت پسند قوم کی کرب و اذیت کا صحیح تخمینہ لگاسکیں اور قومی آزار مسلسل کو کسی گوشوارے کی شکل میں ڈھال سکیں، نہ ہی ابھی تک ایسا کوئی آلہ ایجاد ہوا ہے جو گراف بنا کر وحشت ناک ڈرون حملوں کا نوالہ بن جانے والوں کے ورثا کے شب و روز کا کوئی گوشوارہ بناسکے اور قومی غیرت و حمیت کے لٹ جانے والے خزانے کی نقشہ گری کرسکے، ہماری خیال میں دیکھا جائے تو یہ حکومتی اکنامک سروے ان سب کے منہ پر ایک زناٹے دار طمانچہ ہے جو امریکی مفادات کی جنگ کا ہر اول دستہ بننے کو پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا باب اوّل خیال کرتے ہیں۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 314081 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More