بسم اﷲ الرحمن الرحیم
خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیزکا پانچ روزہ دورہ مصر اختتام
پذیر ہو چکا ہے۔ یہ دورہ اس لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں
دونوں ملکوں کے مابین21معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کئے گئے
جن میں نمایاں ترین منصوبہ مصرکے صوبہ شمالی سیناء میں ایک آزادانہ تجارتی
خطے کا قیام ہے۔ سعودی عرب کو مصر کے ساتھ زمینی راستہ کے ذریعہ ملانے
کیلئے بحیرہ احمر پر پل بنانے کابھی اعلان کیا گیا جبکہ مصر کی جانب سے
جزیرہ تیران اور صنافیر سعودی عرب کے حوالے کئے گئے۔ اس حوالہ سے مصری
وزارت خارجہ کی جانب سے دونوں جزیروں کی سعودی عرب کو فروخت کے تاریخی
دستاویزی ثبوت بھی جاری کئے گئے ہیں جن میں مصر، سعودی عرب اور امریکہ کے
حوالہ سے تحریری دستاویزات شامل ہیں ۔ مصری وزارت خارجہ کی جانب سے کہا گیا
ہے کہ جزیرہ تیران اور صنافیرعالمی قوانین کے تحت سعودی عرب کی ملکیت میں
دیے گئے ہیں اور یہ کہ 1950ء سے قبل یہ دونوں جزیرے سعودی عرب کے ہی کنٹرول
میں رہے ہیں۔شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے مصری پارلیمنٹ سے بھی خطاب کیااور
انسداد دہشت گردی کیلئے مشترکہ طور پر عرب فورس بنانے کا بھی اعلان کیا
گیاجسے پوری مسلم دنیا میں سراہا جارہا ہے۔
شاہ سلمان بن عبدالعزیزنے اپنے ایک سالہ دور اقتدار میں خود کو ایک کامیاب
مسلم حکمران کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ انہوں نے برسراقتدار آنے
کے بعداپنی مثبت سوچ، معاملہ فہمی اور جرأتمندانہ اقدامات سے مسلمانوں کے
روحانی مرکز سعودی عرب کو بین الاقوامی سطح پر ایک فراخدل، ترقی کے میدان
میں جہت کار اور علاقائی استحکام و عالمی سطح پر اتحادویکجہتی کا حامی ملک
بنا کر پیش کیا ہے۔ اگر ہم ماضی کا جائزہ لیں تو یہ بات روز روشن کی طرح
عیاں ہے کہ مسلمان ملکوں کے عوام ہمیشہ یہ خواب دیکھتے رہے ہیں کہ مسلم
دنیا باہم اتحادو اتفاق سے رہے اور وہ معاشی طور پر سب سے زیادہ خوشحال ہوں
لیکن مسلمان ملکوں کی اپنی اپنی ترجیحات رہیں ۔ ہر ملک اپنے اپنے مفادات کے
مطابق پالیسیاں ترتیب دیتا رہا جس کی وجہ سے عالم اسلام حقیقی طور پر
اتحادویکجہتی سے محروم رہا لیکن شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے امت مسلمہ کو
ایک نئی سوچ اور فکر دی ہے۔ وہ مسلمان ملکوں کو باہم متحداور مضبوط قوت کے
طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ سعودی عرب کی زیر قیادت 34ملکی اتحاد جس کے بنانے
میں پاکستان کا بھی کلیدی کردار ہے‘ یقینااس حوالہ سے ایک زبردست عملی کاوش
ہے جس کے مستقبل میں یقینی طور پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ اسی طرح
حال ہی میں سعودی عرب کے شہر حفرالباطن میں مسلمان ملکوں کی مشترکہ تاریخی
مشقیں ہوئیں جس سے پوری دنیا کو یہ پیغام گیا کہ سعودی عرب اور اس کے
اتحادی ممالک تمامتر چیلنجوں سے نمٹنے اور خطہ کا امن و استحکام برقرار
رکھنے کیلئے ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔میں سمجھتاہوں کہ شاہ سلمان کا حالیہ
دورہ مصر اور اس موقع پر کئے جانے والے معاہدے اور اعلانات مسلم امہ کو
مضبوط و مستحکم بنانے کی انہی کوششوں کا حصہ ہیں۔ خادم الحرمین الشریفین کا
مصر پہنچنے پر سرکاری سطح پر فقید المثال استقبال کیا گیایہی وجہ ہے کہ شاہ
سلمان جو ٹویٹر پر کم ہی اظہارخیال کرتے ہیں‘ نے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ
پر پوسٹ کر دہ اپنے خصوصی پیغام میں کہاکہ میرے دل میں مصر کیلئے خصوصی جگہ
ہے‘ ہم سب کو مصر کے ساتھ دوستی پر فخر ہے اور ہمارے باہمی تعلقات عالم
اسلام و عالم عرب کیلئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ قاہرہ کے عابدین پیلس
میں سعودی عرب اور مصر کے درمیان جن معاہدوں پر دستخط ہوئے ان میں مصری
صوبے شمالی سیناء میں آزاد تجارتی خطے کا قیام بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ایک
صنعتی اورتجارتی شہر بنانے کے لیے اقتصادی خطے کی 6 کلومیٹر اراضی پر
ترقیاتی پروگرام کا اعلان کیاگیا۔ اس منصوبے پر 3 ارب 30 کروڑ ڈالرلاگت آئے
گی۔ اس دوران 60ارب ریال کی خطیر رقم سے سعودی مصری سرمایہ کاری فنڈقائم
کرنے اورمصر کے شہر دیروط میں 2.2ارب ڈالر کی لاگت سے ایک بڑ ابجلی گھر
جہاں 2250میگا واٹ بجلی حاصل کی جاسکے گی‘ بنانے کا اعلان کیا گیا۔ہاؤسنگ
کے شعبہ میں تعان کے کئی معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کئے گئے
اور نہر سوئس کے علاقے کو ترقی دینے کے لیے 3 ارب مصری پاؤنڈ کی رقم سے
خصوصی کمپنی کا قیام عمل میں لایا گیاہے۔اسی طرح سعودی عرب اور مصر کے
درمیان پل بنانے کے منصوبہ پر دونوں ملکوں کے عوام کی طرف سے زبردست خوشی
کا اظہا رکیا جارہا ہے۔1986ء میں جب سعودی عرب اور بحرین کے درمیان پل
بنایا گیا توایک سابق سعودی وزیر غازی القصیبی نے چند مصرعے پڑھے تھے جن کا
مفہوم یہ ہے کہ:
یہ پتھر کا نہیں عشق کا راستہ ہے
یہ نخلستانوں کو لے کر جزیروں تک اڑا
خیموں کو لے کر ساحلوں تک پہنچا تو وہ
پانی کے راستے اتر کر سفید بادبان سے جا ملے
سعودی عرب اور مصر کوملانے والے اس زمینی راستہ سے متعلق بھی دونوں ملکوں
کے عوام کی آنکھوں میں نئے خواب آبسے ہیں اور کہاجارہا ہے کہ بحیرہ
احمرپرمجوزہ منصوبے کے تحت پل کی تعمیرسے نہ صرف ایشیا اورافریقاایک دوسرے
سے جڑجائیں گے بلکہ یہ ’’ افریقہ کا دروازہ‘‘ بھی ثابت ہوگا، اس سے دونوں
ملکوں کے درمیان تجارت کو فروغ ملے گااورخطہ کے لوگوں کے لیے ملازمتوں کے
زبردست مواقع پیدا ہوں گے۔یعنی اگر کہا جائے کہ یہ دونوں ملکوں کے درمیان
ایک تجارتی، سماجی اور تہذیبی گزرگاہ ثابت ہو گاتو غلط نہیں ہو گا۔ اس پل
کو شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے نام سے منسوب کیا جارہا ہے جو مستقبل میں
سٹریٹیجک لحاظ سے بھی یقینی طور پر انتہائی اہمیت کاحامل ہو گا۔ خادم
الحرمین الشریفین کے دورہ مصر کے دوران انسداد دہشت گردی کیلئے عرب فورس
بنانے کا اعلان بھی انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ مسلمان
ملکوں کو بیرونی سازشوں کے علاوہ اندرونی سطح پر تکفیر اور خارجیت کے فتنے
درپیش ہیں جن سے مسلم امہ کو شدید نقصانات اٹھانا پڑ رہے ہیں۔ ان حالات میں
مسلم اور عرب دنیا کو درپیش مسائل حل کرنے کیلئے اتحادویکجہتی کا ماحول
پیدا کرنا اور مشترکہ موقف اختیار کرنا بہت ضروری ہے۔ دونوں ملکوں کے
درمیان اس وقت جو تعاون دیکھنے میں آرہا ہے یہ عرب اور مسلم دنیا کیلئے کسی
نعمت سے کم نہیں ہے۔اس سے برسوں کے عدم استحکام کے بعد توازن کے حصول اور
دہشت گردی کیخلاف جنگ تیز کرنے میں مدد ملے گی۔ عالم اسلام کے مابین ہمیشہ
اتحاد کی دعوت دینے والے دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا درست ہے کہ
مسلمان ممالک جب تک متحد و بیدار نہیں ہوں گے فلسطین، کشمیر اور شام جیسے
مسائل حل نہیں ہوں گے اور نہ ہی مسلمان اندرونی طور پر تکفیری اور خارجی
گروہوں کی دہشت گردی پر قابو پانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔اس وقت مسلمانو ں
کے باہمی اتحاد اور فرقہ واریت کے خاتمہ کی بہت ضرورت ہے تاکہ دشمنان اسلام
کی سازشیں ناکام بنائی جاسکیں۔ سعودی عرب کی زیرقیادت 34ملکی اتحاد کے
بعدمسلم ممالک میں تکفیر اور خارجیت کے فتنہ سے نمٹنے کیلئے پہلے سے زیادہ
تحرک دیکھنے میں آیا ہے۔ مصر عرب دنیا کا عددی اعتبار سے سب سے بڑا ملک ہے۔
سعودی عرب اور مصر کے اچھے تعلقات پوری مسلم دنیا کیلئے ان شاء اﷲ نمونہ
ثابت ہوں گے۔ دہشت گردی اب صرف کسی ایک ملک کا معاملہ نہیں رہا بلکہ یہ ایک
گلوبل مسئلہ بن چکا ہے جس پر قابو پانا پوری مسلم امہ کیلئے چیلنج بن چکا
ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان، سعودی عرب، ترکی اور مصر کی طرح
تمام مسلمان ملک باہمی تعلقات کو فروغ دیں اور امت مسلمہ کو درپیش فتنوں کے
مقابلہ اور بیرونی سازشوں کے توڑ کیلئے متحد ہو کر عملی کردار ادا کریں۔
|