صرف شکریہ کافی نہیں

شاہد آفریدی نے جب سے شکریہ ادا کیا ہے۔ تب سے بھارت کے فرقہ پرستوں کے تن بدن میں جیسے آگ لگ گئی ہے۔ وہ آگ بگولہ ہیں۔ اپنا سارا غصہ کشمیریوں پر نکال رہے ہیں۔ شاہد آفریدی نے بھارت میں ٹی 20عالمی کپ کے میچز کے دوران کشمیریوں کا شکریہ دا کیا تھا۔جنھوں نے پاکستان کے حق میں زبردست نعرہ بازی کی۔ پاکستانی پرچم لہرائے۔ پاکستانی کھلاڑیوں کے حق میں نعرے لگائے۔ جس کا اعتراف کپتان شاہد آفریدی نے کیا۔ جس پر بھارتی حکومت نے سخت ردعمل ظاہر کیا۔ اس کے باوجود شاہد آفریدی نے ایک بار پھر کشمیری شائقین کا شکریہ ادا کیا۔ اس کے بعد پورے بھارت میں کشمیریوں پر حملے شروع ہو گئے۔ بھارت کے تعلیمی اداروں میں زر تعلیم کشمیری طلباء و طالبات پر کیمپس کے اندر اور باہر منظم تشدد ہونے لگا۔ کشمیر کے کاروباری حضرات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

کمیونسٹ طلباء لیڈر کنہیا کمار نے جب افضل گورو کے یوم شہادت پر بھارت کی سب سے بڑی جواہر لال نہرو یونیورسٹی یا جے این یو میں کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کی اور آزادی کے نعرے لگائے تو اسے جیل میں بھر دیا گیا۔ اس دوران بھی بھارتی تعلیمی اداروں میں کشمیری طلباء کو ہراساں کیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارتی ہندو دہشتگرد کشمیریوں پر تشدد کرنے کے حیلے بہانے کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اس میں ان کا تعلیم یافتہ طبقہ بھی اپنے عناد اور تعصب کو چھپا نہیں سکا ہے۔ بھارت کی مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں سے سیکڑوں کشمیری طلباء کو نکال دیا گیا۔ اس کے باوجود کشمیری طلباء کو بھارت کے شہروں میں آزادی کے حق میں نعرے لگانے پر کوئی افسوس نہیں ہے۔ یہ کشمیری قوم کی کمٹمنٹ ہے کہ وہ اپنی آزادی کی جدوجہد کو ہر چیز پر ترجیح دے رہی ہے۔

جو لوگ کشمیر کے اندر بھارتی فوج کی بندوق اور ان کے مظالم سے خوف زدہ نہ ہوئے۔ انھوں نے کوئی کمپرومائز نہ کیا۔ اپنی تحریک کے لئے سرگرم رہے۔ انہیں نشانہ باند ھ کر گولیوں کا شکار کیا گیا۔ ان کے والدین، بہن ، بھائی، عزیز و اقارب ان کی آنکھوں کے سامنے شہید کئے گئے۔ عزت مآب خواتین کی عزت پامال کی گئی۔ بستیوں اور بازاروں کو آگ لگا کر راکھ بنایا گیا۔ وہ اور ان کی یہ نسل ان بھارتی فرقہ پرست دہشت گردوں سے کیسے خوفزدہ ہوگی۔ یہ بزدل نہیں بلکہ بہادر قوم ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے ناخوندہ لوگ جو بھارتی شہروں میں روزگار کی تلاش میں ہیں۔ گھر گھر جا کر کشمیری شالیں فروخت کرتے ہیں۔ دگر مزدوروی کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ معاملات کے سبب کشمیری قوم کی جرائت و بہادری کا غلط اندازہ لگایا جانا بھی ایک غلطی ہے۔ اس قوم کا مزاج آزادی پسندی ہے۔ ان کے ام پر یا ان کی آڑ میں جو لوگ آزادی پسندی کا دم بھرتے ہوں گے۔ وہ موقع پرست اور مفاد پرستوں کی صفوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ وہ کسی بھی طور پر عظیم قربانیوں کی قیمت وصول نہیں کر سکیں گے۔ ان قربانیوں کے سامنے ان کے مفادات ہیچ اور بہت ہی کمتر ہیں۔

کرکٹ میچ میں جب بھارت سے پاکستانی ٹیم کو شکست ہوئی تو اس کا اثر سرینگر میں بھی دیکھا گیا۔ کشمیری والہانہ جذباتی وابستگی کی وجہ سے قدرتی طور پر افسردہ تھے۔ اس موقع پر سرینگر کے نیشنل انسٹی چیوٹ آف ٹیکنالوجی یا این آئی ٹی میں زیر تعلیم بھارتی طلبا و طالبات نے پاکستان کے خلاف نعرے لگائے۔ آج کے حالات کے یہی طلباء ذمہ دار تھے۔ جنھوں نے کشمیریوں کو مشتعل کیا۔ تب سے کیمپس میں کشیدگی تھی۔ 19مارچ سے آج تک یہ کشیدگی ختم نہ ہو سکی۔ جب سیمی فائنل میں بھارت کو شکست ہوئی تو کشمیری طلباء نے آزادی اور پاکستان کے حق میں نعرے لگائے۔ این آئی ٹی سرینگر پہلے ریجنل انجیئرنگ کالج تھا۔ جہاں بھارت ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک سے بھی طلباء آ کر انجیئرنگ میں داخلہ لیتے تھے۔ یہ کبھی صف اول کا تعلیمی ادارہ تھا۔

آج اس کے کل 2200طلباء و طالبات میں 2100بھارتی طلباء ہیں۔ جب اپنی تعداد کے زعم میں بے قابو ہو جاتے ہیں۔ پہل انھوں نے کی تھی۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی شکست پر انھوں نے جشن منایا ۔ ایسا ہی مقامی طلباء نے کیا تو یہ آپے سے باہر ہو گئے۔ یہ بھی کشمیریوں کو اپنے غلام سمجھتے ہیں۔ جیسے کشمیر بھارت کی کالونی ہے۔ مگر کشمیری طلباء نے ان کے اس تاثر کو غلط ثابت کر دیا۔ ان کی کیمپس میں توڑ پھوڑ کو روکنے کے لئے کشمیر پولیس ایکشن میں آئی۔ تو پورا بھارت ہل گیا۔ سب نے کشمیر پولیس کو غداری کا سر ٹیفکیٹ جاری کر دیا۔ جب کہ کشمیر پولیس نے قانون ی کارروائی کی تھے۔ دوسری طرف بھارتی فورسز کشمیریوں کا قتل عام جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں ہوتی۔
شاہد آفریدی نے پاکستان کے لئے کشمیریوں کی زبردست حمایت کا برملا اعتراف کیا تو بھارت کو ناگوار گزرا۔ یہ ان کی ذہنیت ہے کہ وہ سچ سن کر سیخ پا ہو جاتے ہیں۔ بھارتی چاہتے ہیں کہ کشمیری بھارت کے حق میں نعرے لگائیں۔ جبکہ ان کی دہشتگرد فوج کشمیریوں کو چن چن کر شہید اور معذور کر رہی ہے۔ گزشتہ 26سال سے بھارت اپنی فورسز کی مدد سے کشمیریوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کشمیری اس کے جواب میں اس پر گلپاشی کریں۔ اس کی فوج کا استقبال کریں۔ بھارتی فوج نے کل ہی ہند واڑہ میں تین کشمیریوں کو گولیاں مار کر بے دردی سے شہید کر دیا۔ شہید ہونے والوں کے ہاتھ میں راکٹ یا توپیں نہیں تھیں۔ وہ بھارتی فوج کی جانب سے ایک سکول طالبہ کی عزت پر حملے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ بھارتی فوجیوں نے ان کے سینوں پر گولی چلائی۔ ایک خاتون بھی شہد امیں شامل ہے۔ اس پر سارا بھارت خاموش ہے۔ این آئی ٹی میں کشمیر پولیس کا ایک ڈنڈا ان کے بچوں پر پڑا تو دنیا کو سر پر اٹھا لیا۔ مگر اس کی ریگولر فوج نے تین نہتے کشمیریوں کو شہید کر دیا۔ وہ سب خاموش ہو گئے۔ بھارتی حکمران یہی سلوک کشمیریوں سے ہی نہیں بلکہ سکھ ، عیسائی برادری کے ساتھ بھی روا رکھے ہوئے ہیں۔ ہندو دہشت گرد، مساجد، گردواروں، چر چوں پر حملے کر رہے ہیں۔ انھوں نے گولڈن ٹیمپل، بابری مسجد، چرچوں کو تباہ کیا۔ ان کے مجرم جیل جانے کے بجائے وزیراعظم بن گئے۔ ان میں ایڈوانی اور مودی قابل ذکر ہیں۔

بھارت نے پہلے ہی وادی کے ساتھ تعصب اور امتیازی سلوک کی بنیاد پر تمام فنڈز منتقل کر دیئے۔ کشمیر سے اربوں روپے ٹیکس وصولی، کشمیر کے بجلی گھروں اور دیگر وسائل کو کشمیر کے بجائے بھارت میں استعمال کرنے کا سلسلہ دراز کر رکھا ہے۔ اس میں بھارت کا بدنام زمانہ فوڈ سیکورٹی ایکٹ بھی شامل ہے۔ جس کے نشانے پر کشمیر کو رکھ دیا گیا۔ کشمیر کی اقتصادی ناکہ بندی کرائی جارہی ہے۔ بھارت نے ہر ایک حربہ آزما لیا ہے۔ کشمیریوں کا بھارت میں قافیہ حیات تنگ کرنے کے باوجود کشمیریوں نے وادی میں موجود بھارتی سیاحوں، لاکھوں مزدوروں، طلباء اور تاجروں کی مہمان نوازی میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ کیوں کہ یہ کشمیر کی روایات اور ثقافت کے خلاف ہے کہ مہمان کو زرا سی گزند پہنچے۔ مہذب قومیں ایسا ہی کرتی ہیں۔ وہ حسن سلوک پر یقین رکھتی ہیں۔

بھارت حقائق سے فرار ہو رہا ہے۔ کشمیریوں کی آزادی کی خواہشات کو نظر انداز کرنے سے حقائق بدل نہیں سکتے۔ برصغیر کی آزادی کی جدوجہد میں انگریزوں اور فرنگیوں نے بھی ایسا نہ کیا تھا۔ جنرل ڈائر کے حکم سے ایک جلیانوالہ باغ کا قتل عام ہوا۔ مگر کشمیر میں سیکڑوں کی تعداد میں جلیانوالہ باغ جیسے قتل عام ہو ئے ہیں۔ اس سے بھارت کے خلاف آزادی کی جدوجہد مزید تیز ہو گی۔ ان مشکل ترین حالات میں بھی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے والوں کا صرف شکریہ کرنا کافی نہیں بلکہ طول پکڑتی اس جدوجہد میں بھر پور عملی تعاون کی مزید ضرورت بڑھ رہی ہے۔
 
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555485 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More