میرا ایک دوست مزدور ہے جو کسی صنعتی ادارے
میں مزدوری کر کے اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پال رہا ہے ۔ وہ کافی دنوں بعد مجھ
سے ملنے کے لیے آیا اور آتے ہی غصے سے کہا کہ تم کیا کالم نگار بنے پھرتے
ہو اپنے شہر کی خبر نہیں اور یورپی ممالک کے شب و روز اور ان کے درو دیوار
کے بارے میں بڑے بڑے کالم لکھتے رہتے ہو کیا تم نے کبھی اپنے شہر کے خدوخال
پر نظر دوڑائی ہے۔ لگتا ہے چوہدری صاحب ‘‘ تم اپنے گھر سے نکلتے ہی نہیں اس
کی بڑی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ٓاپکو اپنے سوا کوئی اچھا لگتا ہی نہیں ہو
گا۔ آپ سے میری دوستی بہت پرانی ہے میں نے کبھی بھی آپ سے کوئی چیز طلب
نہیں کی اور نہ کبھی ادھار مانگا ہے میں آج ایک ڈیمانڈ لیکر آیا ہوں انکار
نہیں کرنا ۔ میں نے کہا ہاں یار بولو ۔ آج میں اچھے موڈ میں ہوں۔ گزشتہ چند
روز سے میں ایک مرض میں مبتلا تھا۔ ڈاکٹر جلیل الحسن سے نسخہ لکھوا کر
ادویات کی پہلی ہی خوراک نے میرے شب و روز روشن کر دئیے ۔ آج بولو کیا
چاہتے ہو ۔’’اس نے کہا میرے یار! ہو تو اپنے شہر کی حالت زار لکھو اور
حکمرانوں کو بتاؤ کہ تم لوگ جنت میں رہتے ہو مگر ہم دوزخ کی دلدل میں روز
بروز دھنستے جا رہے ہیں ۔ خدارا ہمیں اس سے نکالو ورنہ(ن)لیگ کا دھڑن تختہ
کر کے دم لیں گے۔ حکمرانو ں کو یہ پتہ ہونا چاہئے کہ وہ ہمارے بغیر ٹکے کے
نہیں ۔ ہم نے مشاہدہ کر لیا ہے کہ ہمارے شہر کو دوزخ بنانے والے حکمران
نہیں بلکہ ارکان اسمبلی ہیں جنہوں نے ہماری خبر تک نہیں لی ۔ انتخابات کے
دنوں میں ہماری جوتیوں تلے بچھ رہے تھے جیت کر ہماری نظروں سے ایسے غائب
ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ چوہدری صاحب! مطلب حکمرانوں کو اپنے قلم سے
سمجھا دیجئے کہ آئندہ بھی الیکشن لڑنا ہے اور پھر وہ الیکشن کیسا ہو گا ان
کو تب خبر ملے گی جب ان کے مخالفین خوشی سے بگلیں بجاتے ہوئے شہر میں
دھمالیں ڈالیں گے ۔ اور ن لیگ کے جمہوری نمائندے شہر سے نکلتے ہوئے کسی کو
بتائیں گے بھی نہیں ۔ ’’ چوہدری صاحب‘‘ میرا نام کالم میں نہ لکھنا اور نہ
اس فیکڑی کا نام لکھنا کہیں مجھے روزی سے بھی فارغ نہ کروا دیں یہ لوگ۔۔۔
میرے دوست کی باتیں میرے قلم کو جوش میں لا رہی تھیں اور جی کر رہا تھا کہ
اپنے قلم سے ان حکمرانوں کو ایسے ایسے زخم لگاؤں کہ قیامت تک یاد رہیں۔ میں
نے 1990میں ن لیگ والوں کے ہزاروں کالم لکھے جن میں ان کی تعریفوں کے پل
باندھے ۔ ایسی قیمتی تجاویز سے نوازا جس کے تحت انہوں نے اپنے سو فیصد نمبر
حاصل کئے۔ پنجاب سمال انڈسٹریز کارپوریشن کو فعال بنانے اور اس کے ذریعے
قرضوں کی مختلف اسکیموں کا اجراء کرنے کے مشورے دئے۔ حکمرانوں نے تو کبھی
میری طرف مڑ کے بھی نہ دیکھا ۔ مگر میرے مینیجنگ ڈائریکٹر نے میرے فیچروں
اور کالموں کو سراہتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو دو ایڈوانس سالانہ ترقیوں کا
تحریری حکم نامہ جاری کرتا ہوں۔ یہ اس لئے کہ آپ کے کالموں سے وزیر اعلیٰ
پنجاب نے کارپوریشن کو فنڈز فراہم کئے ہیں
چلو چھوڑو یہ قصہ۔ اپنے شہر کے بارے میں بتاؤ میرے یار میں کیا لکھوں؟
’’یار مقصود‘‘ کیاتم دودھ پیتے بچے ہو کہ شہر کی حالت زار کو نہیں جانتے ۔
گلیوں اور بازاروں میں جا کر دیکھو تو سہی کہ کیا کیا ہورہا ہے ۔ گلیاں
گندگی سے اٹی پڑی ہیں ۔ جبکہ بازار قبضہ گروپ تاجروں کی ملکیت بن گیا ہے ۔
ہر دکاندار نے اپنی مرضی سے جگہ گھیر رکھی ہے انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں
ہے ۔ ’’چوھدری صاحب‘‘ اسسٹنٹ کمشنر اور سی او بلدیہ کو بھی معلوم نہیں کہ
ہمارے شہری کس اذیت ناک صورتحال میں زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ ہاں یار: ان کو
کیا لگے اس شہر سے۔ یہ لوگ تو پیسے کمانے آئے ہیں اور سیر کرنے آئے ہیں ۔
ڈی سی او کو بھی کیا لگے وہ تو صرف قصور کے ڈی سی او ہیں ۔ ان کا اس شہر سے
کیا لیکا دیکا۔ٹی ایم کو گھر بیٹھے بھتہ مل جاتا ہو گا۔ جمہوری نمائندوں کا
بھی اس شہر سے کیا واسطہ وہ بھی گھر بیٹھے اپنا حصہ بمطابق جثہ وصول کر رہے
ہوں گے۔ مصیبت میں تو ہم شہری پڑے ہیں ۔ ان کو ہم شہریوں سے کیا ہمدردی ۔
یہ لوگ اس روز آئیں گے جب انتخابات کا بگل بج رہا ہو گا۔ ’’چوھدری صاحب ‘‘
اس بار ہم ن لیگ کو قطعاً ووٹ نہیں دیں گے ۔
نہیں میرے یار! دیں گے ضرور دیں گے کیونکہ جب انتخابات قریب آئیں گے تو ہر
گلی اور بازار کے زاویے سیدھے کرنے کا کام شروع ہوجائے گا ۔ انتخابات کے
دنوں میں ہی حکمرانوں کے ضمیر جاگتے ہیں اور وہ بے بہا فنڈ کے ذریعے لش پش
کرنے کا حربہ آزماتے ہیں ۔ ان حالات میں ہمارے ضمیر سو جاتے ہیں اور ن لیگ
کے نمائندے جیت کے پروانے لیکر گلیوں بازاروں میں دھمالیں ڈالتے نظر آتے
ہیں۔
چوھدری صاحب! اس بار ایسا نہیں ہو گا ۔ بہت ہو چکی رحمدلی ن لیگ پر۔
یار سچ پوچھو تو بتاؤں ! ہاں بتاؤ! ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی کبھار میرا
قلم بھی بے ضمیری کے ستو پی کر اونگھنے لگتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری
نمائندوں کی چاندی بنی ہوئی ہے ۔ جو ان کے جی میں آتا ہے کر رہے ہیں۔ |