پاکستان میں سالانہ 1000 ارب روپے سے
زائد انکم ٹیکس چوری ہوتاہے۔ پاکستان کی کل آبادی کے صرف 0.3 فیصد لوگ
ڈائریکٹ ٹیکس دیتے ہیں جبکہ بھارت میں یہ شرح 4.7 فیصد سے زیادہ اور کینیڈا
میں80 فیصد لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ ہمارے نظام ٹیکس میں نہ صرف کرپشن ہے بلکہ
ٹیکس حکام نااہل بھی ہیں جس کی وجہ سے وہ ٹیکس اکٹھا کرنے کے بجائے اپنی
جیبیں بھرتے ہیں۔اسکے علاوہ عوام کا اپنے حکمرانوں پر اعتماد نہ کرنا بھی
ٹیکس نہ دینے کی ایک بڑی وجہ ہے کیونکہ پاکستانی عوام کو اپنے حکمرانوں کی
وجہ سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ انکا دیا ہوا پیسہ بھی کرپشن کی نذر
ہوجائیگا۔قانون کیمطابق پاکستان میں ہر وہ شخص جو سالانہ 5لاکھ روپے سے
زائد کماتا ہے وہ قانونی طور پر ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کا پابند ہے مگر
سالانہ صرف ساڑھے 9 لاکھ افراد ہی اپنی ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں۔ حکومت
پنجاب نے دس اپریل کو ٹیکس ڈے منانے کا اعلان کیاتھاجو بھرپور طریقے سے
منایا گیا۔یہ دن عالمی سطح پرمنایا جاتا ہے،مرکز کو شاید ٹیکس کے پیسوں کی
اتنی ضرورت نہیں،اس لئے مرکزی سطح پر ٹیکس ڈے کی کوئی باز گشت سنائی نہیں
دی جبکہ پنجاب کے ہر شہر میں شہباز شریف کی دلچسپی کے باعث ٹیکس ڈے زور شور
سے منایا گیا۔ ٹیکس حکومت کی آمدنی کا بہت بڑا وسیلہ ہے۔ہر شہری ایمانداری
سے واجب الادا ٹیکس جمع کرانے لگے تو شاید وفاقی سطح پر عالمی قرضوں کی
ضرورت نہ رہے اور صوبے بھی اپنے اخراجات میں خود کفیل ہوجائینگے۔ ہمارے ہاں
متعلقہ اداروں کے حکام اور اہل کاروں سے مل کر ٹیکس بچانے اور ٹیکس چوری
کرنے کا عمومی رواج ہے۔ڈنڈے کے زور پر ٹیکس وصولی کسی حد تک بہتر ہوسکتی ہے
مگر جبر اور سختی سو فیصد ٹیکس وصولی کا حل نہیں۔اس کیلئے ترغیبات کی ضرورت
ہے۔ٹیکس کی ترغیبات کیلئے شہباز شریف کی سربراہی میں پنجاب حکومت نے ٹیکس
ڈے کو عمدہ طریقے سے استعمال کیا۔
وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے صوبے میں ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کے
لئے پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی اور منفرد ’’امانت سکیم‘‘ کااجرا کیا
ہے۔ جس میں ترغیب دی گئی ہے کہ شہری اپنی ذمہ داری نبھائیں، ریسٹورنٹس میں
کھانا کھانے کی رسید ضرور طلب کریں اور پنجاب ریونیو اتھارٹی کے زیر اہتمام
کام کرنے والے ر یسٹورنٹ انوائس مانیٹرنگ سسٹم پر ارسال کر کے بذریعہ قرعہ
اندازی انعامات حاصل کریں۔ یہاں یہ امربھی خوش آئند ہے کہ اس نئے نظام کے
تحت صرف چند روز میں دو لاکھ سے زائد رسیدیں جمع کرائی گئیں ہیں اور پنجاب
ریونیو اتھارٹی کے تحت ’’امانت سکیم‘‘ کی پہلی قرعہ اندازی بھی عمل میں آ
چکی ہے۔ وزیر اعلیٰ یہ اعلان بھی کر چکے ہیں کہ ریسٹورنٹ انوائس مانیٹرنگ
سسٹم کے تحت ’’امانت سکیم‘‘کی قرعہ اندازی ہرماہ ہوا کر گی۔ پنجاب حکومت نے
صوبے میں ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کے لئے ملک کی منفرد اور اچھوتی’’ امانت
سکیم‘‘ کا آغاز کیا ہے۔ پنجاب حکومت نے صوبے میں ڈنڈے کی بجائے ترغیبات کے
ذریعے ٹیکس جمع کرنے کے منفرد کلچر کو فروغ دینے کے لئے ریسٹورنٹ انوائس
مانیٹرنگ سسٹم متعارف کرایا ہے ۔ٹیکس ڈے کے موقع پر اس شاندار سکیم کا آغاز
ایک انتہائی خوبصورت اقدام ہے، جس سے صوبے میں ٹیکس کلچر فروغ پائے گا،
کیونکہ امن وامان کی بحالی، شہریوں کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور ٹیکس
کی وصولی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ عمومی طورپر وہی ریاست کامیاب
کہلاتی ہے جو ان تینوں ذمہ داریوں کو بطریق احسن نبھانے میں کامیاب ہوتی ہے۔
اس نئے نظام کومختلف جہتوں میں پھیلا نے کے لئے عوام کو حکومت کے ساتھ
بھرپور تعاون کرنا ہو گاتاکہ ٹیکس کے ذریعے حاصل ہونے والے وسائل تعلیم ،صحت،پینے
کے صاف پانی کی فراہمی اوردیگر بنیادی سہولتوں کی فراہمی پر خرچ کئے جاسکیں۔
حکومت کے مالیاتی امور کیلئے ٹیکس انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اورعوام کو
سہولتوں کی فراہمی اور واجبات کی ادائیگی بھی ٹیکسوں کی وصولی سے ہی مشروط
ہے۔ٹیکسیشن کا عمل ترقی کیلئے گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے۔ٹیکس وصولی کے نظام
میں خامیاں موجود ہیں تاہم مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ان خامیوں کو بہت حد
تک دور کیا ہے اور پنجاب حکومت نے صوبے میں شفافیت کے کلچر کو فروغ دیا ہے
اور تمام وسائل نہایت شفاف طریقے سے عوام کو بہتر سے بہتر خدمات کی فراہمی
پر صرف کیے جارہے ہیں۔ ٹیکسوں کی بنیاد کو وسیع کرنا اور ٹیکس کلچر کو فروغ
دینا پورے ملک کے مفاد میں ہے۔ ٹیکس کلچر کو فروغ دینے سے نہ صرف موجودہ
نسل بلکہ آنے والی نسلوں کا بھی بھلا ہوگا۔عالمی برادری میں ان قوموں کو
اچھا اور محب وطن تصور کیا جاتا ہے جو ٹیکس ادا کرتی ہیں۔ جن ممالک میں لوگ
ٹیکس نہیں دیتے وہاں حکومتیں پٹرولیم پراڈکٹس اور بجلی جیسی روزمرہ اشیاء
پر ٹیکس لگانے پر مجبور ہوتی ہیں جس سے معاشرے کا غریب طبقہ متاثر ہوتا
ہے۔’’امانت سکیم ‘‘سے خادم اعلیٰ نے ایک اعلیٰ ترغیب دی ہے۔’امانت سکیم‘‘
مکمل طورپر شفاف اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے آراستہ پیراستہ ہے۔دیگر صوبوں
اورپنجاب کے دیگر اضلاع کی عوام کی طرف سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ ایسی
سکیم انکے صوبے یا شہر میں بھی شروع کی جائے اوریہ امر اس سکیم کی کامیابی
کا بین ثبوت ہے ۔ ابھی ابتداء ہے تاہم اس سکیم کو بھر پور آگاہی مہم کے
ذریعے مزیدآگے تک لیکرجایا جا سکتا ہے اس سے یقینا ٹیکس کلچر کو فروغ ملے
گا۔ |