امریکی جاسوس سنوڈن کی وکی لیکس کی سیاہی
ابھی خشک نہیں ہوئی کہ پانامہ لیکس نے مالیاتی دنیامیں سب سے بڑاایسا سائبر
زلزلہ برپا کردیاہے جس نے جہاں کئی ملکوں کے حکم رانوں کے اقتدارکے سنگھاسن
کو ہلاکررکھ دیاہے وہاں دنیا کے کئی چھپے ہوئے سرمایہ دار رستم بھی ننگے ہو
کراب تحقیقاتی اداروں کے زدمیں آگئے ہیں۔دنیاکی چوتھی بڑی آف شورلاء فرم
موساک فونسیکاکے ریکارڈکی بنیادپرایک کروڑدس لاکھ دستاویزافشا
ہوگئیں۔ریکارڈ سے دنیاکے موجودہ اورسابق سربراہان مملکت اور آمروں کے نام
سامنے آئے ہیں جنہوں نے اپنے ہی ملکوں کولوٹااورکالادھن مختلف ممالک میں
چھپادیا۔اس افشاء سے وزیراعظم نواز شریف کاخاندان،روسی صدرپیوٹن،سابق عراقی
وزیر اعظم ایادعلاوی،شامی صدربشارالاسد،سابق مصری صدرحسنی مبارک،سابق
لیبیائی صدرمعمرقذافی،سابق یوکرائنی صدرپیٹرو یورشین کوف، آئس لینڈکے
وزیراعظم سیگمنڈرڈیوڈسمیت دنیاکے دیگرنمایاں سربراہان مملکت
وحکومت،سیاستدانوں اورمعروف شخصیات کاانکشاف ہوا۔
ان دستاویزات سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ آف شور میں ملوث طبقہ کے لوگوں کی
جانب سے اپنی خفیہ دولت ٹیکسوں سے بچانے کیلئے ان گنت طریقے اختیار کئے
گئے۔ان میں برطانوی دارالامراء کے چھ اراکین،تین سابق ٹوری اراکین پارلیمنٹ
اوربرطانوی سیاسی جماعتوں کے درجن ڈونرزنے بھی خفیہ دولت چھپا رکھی
ہے،فہرست میں موجودہ اورسابق آٹھ چینی حکمرانوں اوران کے اہل خانہ کے نام
بھی شامل ہیں۔برطانوی اخبارکے مطابق۷۸ممالک کے ۱۰۷میڈیا اداروں
کے۳۷۰صحافیوں نے ان دستاویزات کاقریباًایک سال تک تجزیہ کیاہے۔برطانوی
اخبارگارجین کے مطابق ریکارڈجرمن اخبارسودیوجے زیتنگ کو نامعلوم ذرائع سے
ملا،جسے اس نے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیشن جرنلٹس ،گارجین اوربی بی
سی نے بھی شیئرکیا۔
دستاویزات سے انکشاف ہواکہ کمپنی اپنے گاہکوں کوکالادھن سفیدکرنے، پابندیوں
سے بچنے اورٹیکس چوری کرنے میں مدددیتی ہے۔موساک فونسیکاکے اپنے ایک
میمورنڈم کے مطابق اس کا۹۵فیصدکاروبارٹیکسوں کوبچانے کیلئے گاڑیوں کی فروخت
کرناہے۔موساک فونسیکانے اپناریکارڈ۱۹۷۷ء میں مرتب کرناشروع کیاتھا ،افشاکردہ
ریکارڈ میں دسمبر۲۰۱۵ء تک کاریکارڈشامل ہے ۔ دستاویزات کے مطابق دوارب
ڈالرکے مساوی رقوم کا''کھرا''روسی صدرپیوٹن تک جاتاہے۔ ان میں سے ایک ارب
ڈالرکے کالادھن میں ایک روسی بینک بھی شامل تھا۔دولت کی ترسیل آف
شورکمپنیوں سے ہوتی تھی،جن میں دوافراد روسی صدرکے قریبی دوست
تھے۔موسیقارسرگیرولدوگن لڑکپن سے روسی صدر کے ساتھی ہیں اوروہ پیوٹن کی
بیٹی کے گاڈفادربھی ہیں۔ کاغذوں میں رولدوگن نے مشتبہ سودوں میں کروڑوں
ڈالرکمائے۔ کمپنی کی دستاویزکے مطابق یہ کمپنی ایک پردہ ہے جس کے قیام
کامقصداس کے اصل مالک کی شناخت چھپانا ہے۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم نوازشریف کے بیٹے حسین وحسن نوازکے علاوہ بیٹی
مریم کی برطانوی جزائرورجن میں چار غیرملکی کمپنیاں ہیں جن کے وہ مالک تھے
یاپھران کے پاس رقم منتقل کرنے کے اختیارات تھے۔یہ کمپنیاں لندن میں چھ
جائیدادوں کی مالک ہیں۔شریف خاندان نے ڈوئچے بینک کوچار جائیدادیں رہن کے
رکھوائیں جبکہ دودیگر اپارٹمنٹس کیلئے بینک آف سکاٹ لینڈسے رقم حاصل
کی۔مریم نوازبرطانوی جزائرورجن کی کمپنیوں نیلسن انٹرپرائزرلمٹیڈکی مالک
ہیں جنہیں۱۹۹۴ءاور۱۹۹۳ ء میں بنایاگیا۔ رپورٹ میں کہاگیاکہ نوازشریف کی
صاحبزادی اوربیٹوں نے اس حوالے سے عالمی میڈیا کی متعدددرخواستوں کے
باوجودکوئی تبصرہ نہیں کیا۔پاکستانی میڈیابرطانیہ کے جزائر ورجن کی ان
کمپنیوں اور لندن میں جائیدادوں کوشریف خاندان سے منسلک کرچکاہے،تاہم نواز
شریف خودان کی ملکیت کے دعوے مستردکرتے رہے ہیں۔
ایک دہائی قبل ریمنڈ بیکر نے ایک کتاب میں نوازشریف کاآف شورکمپنیوں سے
تعلق جوڑتے ہوئے ان کی برٹش ورجن آئس لینڈز،شیم روک۶۸،اورچینل آئس لینڈزمیں
تین جائیدادوں کادعویٰ کیا تھا ۔انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹی گیشن جرنلٹس
کے ڈائریکٹرجیرارڈرائل کاکہناہے کہ دستاویزپچھلے چالیس برس میں موساک
فونسیکاکی روزمرہ سرگرمیوں کا احاطہ کرتی ہے۔افشا ہونے والی دستاویزات کے
مطابق دنیاکے۱۴۳سیاسی رہنماؤں میں سے بارہ عالمی رہنماء ان کے اہل خانہ
اورقریبی افرادبھی ان لوگوں میں شامل ہیں جوآف شورکمپنیاں بناکر ٹیکس
بچارہی ہیں۔گارجین کے مطابق برطانوی وزیراعظم نے اقتدارمیں آنے کے بعدٹیکس
اطلاعات پوشیدہ رکھنے کے معاملے پراہم اقدامات کرنے کاوعدہ کیا تھا تاہم وہ
اب تک کوئی قابل ذکراقدام نہیں کر سکے ہیں۔وہ مئی۲۰۱۶ء میں ایسے سربراہی
اجلاس کی میزبانی کرنے والے ہیں،جس کامرکزی نکتہ ٹیکس جنتوں پر مرکوزہوگا۔
انہوں نے وعدہ کیاتھاکہ برطانوی حکومت ایسانظام وضع کرے گی جس سے پتہ چل
سکے کہ دولت کابہاؤکس طرف ہے۔
موساک فونسیکاکے ذریعے آف شورکمپنیاں قائم کرنے والی پاکستانی شخصیات میں
اب تک دوسوسے زائدنام سامنے آچکے ہیں اوریہ تعدادمسلسل بڑھ رہی ہے۔ اب تک
ان میں وزیراعظم پاکستان کے بیٹوں حسین نواز،حسن نواز،مریم صفدر کے نام سب
سے نمایاں ہیں۔موساک فونسیکاکی دستاویزات کے مطابق سابق وزیر اعظم بے
نظیربھٹونے بھی آف شور کمپنیاں قائم کی تھیں ۔اس کے علاوہ پاناما پیپرزمیں
بے نظیربھٹو،سینیٹررحمان ملک،شوکت تنویر، جاوید پاشا،سابق وزیر اعظم یوسف
رضاگیلانی کے ساتھ حج اسکینڈل میں شریک ملزم زین سکھیرا ، بحریہ ٹاؤن کے
ملک ریاض حسین کے بیٹے علی،لکی ٹیکسٹائلزکے شاہد نذیر اورلیکسن گروپ کے
ذوالفقارعلی لاکھانی سے لیکر ذوالفقارپراچہ تک کے نام بھی شامل ہیں ۔ رپورٹ
کے مطابق آف شورکمپنیوں کے مالک پاکستانیوں کی اکثریت کاروباری
افرادپرمشتمل ہے تاہم تعدادکے اعتبار سے لکی مروت کی سیاسی وصنعت کارفیملی
سیف اللہ خاندان سب سے آگے ہے جوبرٹش ورجن آئی لینڈزاور سیچلز جزائرمیں
مجموعی طورپر۳۴آف شورکمپنیوں کامالک ہے۔یہ کمپنیاں سلیم سیف اللہ،انورسیف
اللہ،عثمان سیف اللہ، ہمایوں سیف اللہ، ڈاکٹراقبال سیف اللہ،جاویدسیف اللہ
اورجہانگیر سیف اللہ وغیرکی ملکیت بتائی گئی ہیں،یہ کمپنیاں ہانگ کانگ ،سنگاپوراورآئرلینڈمیں
بینک اکاؤنٹس جبکہ برطانیہ میں جائیدادوں کی مالک ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ
ان میں سے سینیٹرعثمان سیف اللہ، حکومت کی طرف سے ٹیکس چوری روکنے اورٹیکس
کادائرہ کار وسیع کرنے کیلئے قائم کمیشن کے رکن بھی ہیں۔
ان دستاویزات میں لاہورہائی کورٹ کے موجودہ جج جسٹس فرخ عرفان اورایک
ریٹائرڈجج اورسابق اٹارنی جنرل ملک عبدالقیوم ،ہلٹن فارماکے مالک شہباز
یاسین ملک،اے بی ایم گروپ آف کمپنی کے چیئرمین اعظم سلطان ،پیزاہٹ کے مالک
عقیل حسین اورسورتی انٹر پرائززکے چیئرمین عبدالرشیدسورتی کے نام بھی شامل
ہیں۔علاوہ ازیں مسلم لیگ (ق) کے چوہدری برادران کے قریبی رشتہ داروسیم
گلزار،ہوٹل اور پٹرولیم انڈسٹری سے منسلک صدر الدین ہاشوانی اور
سیفائرٹیکسٹائلز کامالک عبداللہ خاندان کے نام بھی شامل ہیں ۔ اس رپورٹ کے
مطابق تیل برائے خوراک پروگرام میں ایک کمپنی کورشوت دینے کے اسکینڈل میں
بے نظیربھٹو،ان کے بھانجے حسن علی جعفری اورسینیٹررحمان ملک کے ملوث ہونے
کی بھی نشاندہی ہوئی تھی۔
دستاویزات کے مطابق وزیراعظم نوازشریف اوران کے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب
شہبازشریف نے موساک فونسیکاکے توسط سے کوئی آف شورکمپنی قائم نہیں کی،تاہم
وزیراعظم پاکستان کے چاربچوں میں سے تین مریم صفدر،حسین نواز اورحسن نوازاس
فرم کے باقاعدہ کلائنٹس میں شامل ہیں۔یہ تینوں مختلف کمپنیوں کے مالک رہ
چکے ہیں یاان کے ذریعے مالیاتی لین دین کااستحقاق ان کے پاس
رہاہے۔دستاویزکے مطابق مریم صفدرنے موساک فونسیکاکے توسط سے۱۹۹۳ء اور۱۹۹۴ء
میں برٹش ورجن آئی لینڈزمیں دوآف شور کمپنیاں نیلسن انٹرپرائزز
لمٹیڈاورنیسکول لمٹیڈقائم کی تھیں۔ جون۲۰۰۷ء میں حسین نواز اورمریم صفدرنے
اپنی لندن کی جائیدادبطورضمانت رکھ کرنیسکول ،نیلسن اورایک اورکمپنی کیلئے
ڈوئچے بینک جینواسے ایک کروڑ۳۸لاکھ ڈالرقرضہ حاصل کیا۔جولائی۲۰۱۴ء میں یہ
دونوں کمپنیاں ایک اورایجنٹ کوٹرانسفر کردی گئیں۔موساک فونسیکافرم جانتی
تھی کہ مریم صفدر نوازشریف کی بیٹی ہیں، لہنداان کاایک سیاسی بیک گراؤنڈہے
اورمالیاتی ادارے عموماًایسی شخصیات یاان سے وابستہ افرادکو قرض دینے سے
گریزکرتے ہیں لیکن اس پہلو کو نظر انداز کر دیاگیا۔
اسی طرح حسن نوازفروری۲۰۰۷ء میں برٹش ورجن آئی لینڈمیں قائم کی جانے والی
کمپنی ہینگون پراپرٹی ہولڈنگزلمٹیڈ کے تن تنہاڈائریکٹرتھے جس نے اگست ۲۰۰۷ء
میں لگ بھگ ایک کروڑ دولاکھ ڈالرکے عوض لائبیریامیں قائم فرم ''کیسکون
ہولڈنگز اسٹیبلشمنٹ لمٹیڈ''خریدی تھی۔دستاویزات کے مطابق شریف خاندان نے
اپنی ان چارجائیدادوں کو۷۰لاکھ برطانوی پاؤنڈزقرضہ حاصل کرنے کیلئے ایک
غیرملکی بینک کے پاس رہن رکھ دیاجبکہ ایک اور بینک،بینک آ ف سکاٹ لینڈکے
جزوی مالی تعاون سے دودیگراپارٹمنٹس خریدلئے۔ موساک فونسیکاکی دستاویزات
میں وضاحت کی گئی ہے کہ آف شور کمپنیوں کی صنعت کی بیشتر خدمات کوقانونی
مقاصدکیلئے بھی استعمال کیاجاسکتاہے اورقانون کی پابندی کرنے والے
کسٹمرزایساکرتے بھی ہیں تاہم دستاویزات سے ظاہرہوتاہے کہ کیسے بینک،لاء
فرمز اورآف شور کمپنیوں کے کرتادھرتاؤں میں سے اکثریہ بات یقینی بنانے کے
حوالے سے قانونی تقاضوں کوپوراکرنے میں ناکام رہتے ہیں کہ ان کے کلائنٹس
مجرمانہ سرگرمیوں،ٹیکس چوری یاسیاسی کرپشن جیسے جرائم میں ملوث نہیں ہیں۔
ادھروزیراعظم کے بڑے بیٹے حسین نوازنے میڈیاکے سامنے اعتراف کیاہے کہ وہ آف
شورکمپنیوں کے مالک ہیں اور ان کمپنیوں کے تحت کئی اپارٹمنٹس بھی ان کی
ملکیت ہیں تاہم ان کامؤقف ہے کہ وہ طویل عرصے سے برطانیہ میں مقیم ہیں
اورانہوں نے وہاں سرمایہ کاری کررکھی ہے اورآف شورکمپنیاں برطانیہ میں
غیرضروری ٹیکسوں سے بچانے کالیگل طریقہ ہیں اورانہوں نے کوئی غیر قانونی
کام نہیں کیاہے۔ان کامزیدکہنا تھا کہ کاروباری کیمونٹی جانتی ہے کہ چھ ماہ
یااس سے زائددن بیرون ملک گزارنے والے پاکستانی اپنے انکم ٹیکس گوشوارے جمع
کرانے کے پابندنہیں ہوتے اوریہ کہ وہ طویل عرصے سے برطانیہ میں مقیم رہے
ہیں لہنداان پرپاکستانی ٹیکس قوانین کااطلاق نہیں ہوتااوروہ اپنے اثاثے
ظاہر کرنے کے کے پابندنہیں ہیں تاہم اس کے باوجودوہ خودکواور پورے خاندان
کونیب یاکسی بھی دیگرتفتیشی ادارے سے چھان بین کیلئے پیش کرنے کوتیار ہیں۔ |