صفائیاں اور دوہائیاں

 آج سجاد حسین چھینہ کی خوشی دیدنی تھی ،وہ مانچسٹرمیں مقیم اپنے ایک کاروباری دوست کے ہمراہ لندن میں مسلم لیگ (ن) کے جلاوطن سربراہ نوازشریف سے ملنے ان کے فلیٹ پرآئے تھے ۔سجاد چھینہ کاخیال تھا کہ آج اپنے قائد کے روبرو بیٹھ کران سے جی بھر کے دل کی باتیں ہوں گی اور وہ اپنے قائدکوانٹرا پارٹی ایشوز سے آگاہ کریں گے جبکہ نوازشریف ان کی پارٹی کیلئے خدمات اورانتخابی کارکردگی سے خوش ہوکرانہیں شاباش دیں گے۔دوران گفتگوسجاد حسین چھینہ نے میاں نوازشریف کواپنے ساتھ آنیوالے دوست کاتعارف کرایا اوریہ بتایا کہ وہ رئیل سٹیٹ کے شعبہ سے وابستہ ہے ،پھر کیا تھا نوازشریف نے سجاد چھینہ کو چھوڑ کرا ن کے ساتھ آنیوالے اجنبی مہمان سے براہ راست گفتگوشروع کردی اوررئیل سٹیٹ میں انوسٹمنٹ بارے پوچھنا شروع کردیا اور اس اجنبی مہمان کوتاکید کی وہ ان کے بیٹے حسن نوازکے ساتھ ون ٹوون میٹنگ کیلئے دوبارہ ان کے پاس ضرورآئے۔وہ شخص کچھ روزبعددوباہ مانچسٹر سے لندن نوازشریف کے پاس پہنچا جہاں اس کی حسن نوازسے ملاقات ہوئی ۔ نوازشریف کاروباری امورسے غفلت کامظاہرہ نہیں کرتے جبکہ ان کے نزدیک پارٹی معاملات زیادہ اہمیت نہیں رکھتے ورنہ ان کی جماعت میں ہرسطح پردھڑے بندی نہ ہوتی۔ شہیدملت خان لیاقت علی خان نے فرمایا تھا ''ایک غریب قوم کاوزیراعظم اپنی ذات کیلئے نیالباس ،ز یادہ کھانااورذاتی گھر رکھنے کامتحمل نہیں ہوسکتا''۔جبکہ ہمارے حکمران ذاتی گھرتودرکناربیسیوں محلات رکھتے ہیں مگرپھر بھی ان کی ہوس ختم نہیں ہوتی ۔واصف علی واصف ؒ نے فرمایا تھا''بادشاہ کاجرم ،جرموں کابادشاہ ہوتا ہے''۔میاں نوازشریف اپنے بچوں کے سہولت کار ہیں،اگربڑوں کی سہولت کاری نہ ہوتی توچھوٹوں کوسرمایہ کاری میں اس قدرکامیابی نہ ملتی۔بڑے میاں توبڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اﷲ۔شریف خاندان کے بچے اپنے اپنے والد کی مشاورت کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھاتے ۔

سلطان محمودغزنویؒ کے دربارمیں ایک فریادی آیا اورعرض کی کہ روزانہ رات کو ایک بااثراورطاقتورشخص جوخودکوحکومت کااہم عہدیدارظاہرکرتا ہے ،وہ زبردستی میرے گھرمیں گھس کر میری اہلیہ پرجنسی تشدداورمجھے ہراساں کرتا ہے ۔سلطان محمودغزنویؒ یہ سن کر جلال میں آگئے ،انہوں نے سائل کوکہا ملزم دوبارہ تمہارے گھرآئے توفوراً مجھے اطلاع کرنا،سلطان نے ایک دربان کو بلایاکیا اوراسے حکم دیا کہ یہ سائل جس وقت بھی مجھے ملنے آئے اگر اس وقت میں اپنی خواب گاہ میں بھی ہواتو اسے فوراً مجھ تک لے آنا۔اگلی رات وہ سائل دوبارہ سلطان تک پہنچا ۔سلطان محمودغزنوی ؒ نے اپنی تلواراٹھائی اور فوراً اس کے ساتھ چل پڑے ۔سلطان نے سائل کوکہا کہ اپنے گھرمیں داخل ہوتے ساتھ چراغ بجھادینا ۔سلطان سائل کے ہمراہ اس کے گھر میں داخل ہوئے ،سائل نے چراغ بجھادیا جس پرسلطان محمودغزنوی ؒ نے سائل کی اہلیہ کے ساتھ زبردستی کرنیوالے شخص کو جان سے ماردیا اورپھر سائل کوچراغ جلانے کیلئے کہا ۔روشنی ہوئی توسلطان نے مقتول کاچہرہ دیکھ اورسائل کوجائے نماز بچھانے کیلئے کہا ،وہاں سلطان نے دونفل اداکئے اورسائل سے رات کابچاہوا کھانا مانگا ۔سلطان نے کھاناتناول کر لیا توسائل نے ان سے چراغ بجھانے ، دونفل پڑھنے اورکھانا تناول کرنے کے بارے میں پوچھا ۔سلطان محمودغزنوی ؒ نے بتایا کہ جس روزتمہاری رودادسنی مجھے لگا کہ میرے دورحکومت میں میرے بیٹے کے سواکوئی اس قسم کی جسارت نہیں کرسکتا اسلئے تمہیں چراغ بجھانے کیلئے کہاتا کہ انصاف کرتے وقت مجھے اپنے بیٹے پررحم نہ آجائے لیکن جب ملزم کوقتل کرنے کے بعد اس کاچہرہ دیکھا تواﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ شکراداکیا کہ وہ میرابیٹانہیں تھا اورکھانا اسلئے مانگا کہ جس وقت تمہاری رودادسنی اس وقت سے میری حلق سے ایک لقمہ تک نہیں اترا اورمیں نے عہد کیا تھا جس وقت تک انصاف نہ کرلوں مجھ پرکھانا حرام ہے ۔

حضرت علی ؓ کے دورخلافت میں مسلمانوں کے درمیان جنگ ہوئی، دوران جنگ کسی شخص نے حضرت علی ؓ سے پوچھا کہ آپ ؓ سے پہلے والے امیرالمومنین ؓ کے ادوارمیں تومسلمان آپس میں جنگ نہیں کرتے تھے تواب ایساکیوں ہورہا ہے جس پرحضرت علی ؓ نے فرمایا ''ان کامشیرمیں تھا اورمیرے مشیر تم ہو'' ۔ایڈوائزراورایڈوائزکی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔پرویزرشیداورعرفان صدیقی سے لوگ انہیں دوبارہ بندگلی میں لے آئے ہیں۔میاں نوازشریف لندن علاج نہیں ''لاج'' بچانے کیلئے گئے ہیں۔پاکستان کودرپیش بحران ختم کرنے کیلئے پروفیشنل وزیروں اور مشیروں کی ضرورت ہے، شریف برادران کوکانوں کاکچا،منتقم مزاج اورخوشامدپسندکہا جاتا ہے۔انہیں کسی سے مشاورت پسند ہے اورنہ وہ اختلاف رائے برداشت کرتے ہیں۔ان کے نزدیک میرٹ سمجھداری نہیں بلکہ وفاداری ہے،وہ خوشامدیوں کی صحبت اورجھرمٹ میں بہت خوش ہوتے ہیں، میاں نوازشریف کے ہاں باقاعدہ جگت بازی کی محفل منعقدہوتی ہے،مزاحیہ فنکارامان اﷲ اوردوسرے کئی بارجاتی امراء مدعوکئے جاتے رہے ہیں ۔جلاوطنی کے دورسے شریف خاندان نے کچھ نہیں سیکھا ۔شریف خاندان کی ترجیحات میں ریاست یاسیاست نہیں بلکہ ان کی نجی تجارت سرفہرست ہے۔ شریف خاندان کاکہنا ہے کہ ذوالفقارعلی بھٹونے ان کے کاروباری اداروں پرشب خون مارا ،انہوں نے اپناکاروباربچانے کیلئے پنجاب کے سابق گورنر جنرل (ر) غلام جیلانی کی شفقت سے اقتدارپرقابض جنرل ضیاء الحق کے دربارتک رسائی یقینی بنائی یعنی شریف خاندان تجارت بچانے اور چمکانے کیلئے سیاست میں آیا،انہیں سیاست خوب راس آئی مگر ان کی سیاست ملک وقوم کوراس نہیں آئی۔

شریف خاندان کی تجارت ان کی سیاست کے ساتھ ساتھ ریاست کیلئے بھی بڑاخطرہ ہے۔حکمرانوں نے اپنی تجارت چمکانے کیلئے اپناسرمایہ بیرون ملک منتقل کرتے ہوئے درحقیقت قومی معیشت کوموت کے گھاٹ اتاردیا ۔اگرایک انسان ہرتین ماہ بعد خون کی بوتل عطیہ کردے تواس کی صحت پرمثبت اثرپڑتا ہے لیکن اگر اس کے وجود سے زبردستی ایک ساتھ چاربوتل خون نکال لیا جائے تونتیجتاً وہ بیچارہ مارا جائے گا،کسی بھی ریاست کی معیشت اس کی رگوں میں خون بن کردوڑتی ہے اوراگراس معیشت پرشب خون ماراجائے تویقینا ریاست کی عمارت زمین بوس ہوجائے گی ۔ کسی بھی شے کی زیادتی انتہائی نقصان دہ ہوتی ہے،جوبھی نفس اورہوس کی غلامی کرے گااس کی سیاسی موت یقینی ہے۔پاکستان کاسرمایہ دارحکمران خاندان کرپشن کی دھن میں بہت دورنکل گیا ،اب وہاں سے واپسی کاہرراستہ انصاف کے ایوانوں اورزندانوں کی طرف آتا ہے ۔ پاناماکی طرف سے سنجیدہ اورسنگین انکشافات کے بعد حکمران نام نہاد جوڈیشل کمیشن کے پیچھے نہیں چھپ سکتے ۔ پاناماانکشافات کی روشنی میں نیب حکام کو شفاف تحقیقات کیلئے اپنا آئینی کرداراداکرنے دیاجائے ۔پاناما انکشافات کے مطابق بدعنوان عناصر کے احتساب کومنطقی انجام تک پہنچایا جاناناگزیرہوگیا ہے ۔پاکستان کی رگوں سے معیشت کاخون نکالنااوراسے بیرون ملک کسی بنک میں محفوظ کرنا ملک وقوم سے غداری کے مترادف ہے اورایساکرنیوالے میرجعفر کے پیروکار ہیں۔بیرونی سرمایہ کاروں کوپاکستان میں انوسٹمنٹ کرنے کی دعوت دینے والے میاں نوازشریف نے آج تک اپنے دونوں بیٹوں کوپاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کیلئے نہیں کہا۔ جس حکمران کے اپنے بچے بیرون ملک کاروبارکرتے ہوں وہاں سرمایہ کاری کیلئے کوئی بیرونی سرمایہ کار ہرگز نہیں آئے گا۔

جوسچاہووہ صفائیاں اوردہائیاں نہیں دیتا،میاں نوازشریف کی حالیہ تقریرمیں صفائیوں اوردوہائیوں کے سواکچھ نہیں تھا ۔انہوں نے جس گھر کے چھن جانے کابتایاوہ 2008ء میں انہیں واپس مل گیا تھااوروہاں بنے اولڈہوم میں قیام پذیرضعیف لوگ دربدرہوگئے تھے۔ ملزم کااپنے حق میں بیان صفائی کوئی معنی نہیں رکھتا، بدعنوانوں کی سرکوبی کیلئے بڑے پیمانے پرصفائی کی ضرورت ہے ۔ماضی میں رونادھوناکسی چورکے کام آیااورنہ آئندہ کسی چورکاماتم اسے انجام بدسے بچاسکتا ہے ۔ پاناما نے جوانکشافات کئے اس کے بعد چوروں کے چہروں کارنگ اڑنافطری امر ہے۔پاکستان کی قومی معیشت کومفلوج کرنیوالے کوئی اورنہیں بلکہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ ہے۔ خالی تردید اورتقریر سے قوم کوگمراہ نہیں کیا جاسکتا ۔ اثاثوں کوچھپانے اورٹیکس چوری کرنیوالے قومی مجرم ہیں ،قومی ضمیر نے ان کیخلاف اپنادوٹوک فیصلہ سنادیا ہے ۔ میاں نوازشریف کے بچوں پربہت سنگین الزام لگا ہے ،لہٰذاء ان کے مستعفی ہوئے بغیر آزادانہ اورشفاف تحقیقات کاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔میاں نوازشریف کی طرف سے اپنے حالیہ خطاب میں جوڈیشل کمیشن بنانے کااعلان ''شعبدہ بازی''کے سواکچھ نہیں ہے ۔ پاکستان سے بدعنوانوں اوربدعنوانی کاجنازہ اٹھانے کاوقت آگیاہے۔صرف ڈنڈا عادی چوروں کوبندہ بناسکتا ہے ،فوج کی مددکے بغیر نیب کو قومی لٹیروں سے ایک ٹیڈی پیسے کی وصولی نہیں ہوگی ۔ بڑے پیمانے پر بدعنوانیاں کرنیوالے پچھلی چاردہائیوں سے سیاسی انتقام کی دہائیاں دے رہے ہیں۔دوست ملک چین سمیت دنیا کے متعدد مہذب ملکوں میں کرپشن کی سزاموت ہے توپاکستان میں بدعنوانی کاسیلاب روکنے کیلئے یہ سزاکیوں مقررنہیں ہوسکتی۔

جہاں موبائل چور زندانوں میں مگربڑے ٹیکس چوراقتدار کے ایوانوں میں ہوں وہاں یقینا انصاف کافقدان ہے۔قانون کی حکمرانی اور پاسداری کے بغیر عدلیہ کی آزادی بے معنی ہے،پاناماانکشافات پرعدالت عظمیٰ نے سوموٹوایکشن کیوں نہیں لیا۔اگر دوہری شہریت والے اسمبلیوں میں نہیں بیٹھ سکتے تو پاکستان سے باہرسرمایہ کاری کرنیوالے افرادکوبھی پاکستان میں سیاست اورحکومت کرنے کاکوئی حق نہیں پہنچتا ۔عوام کوٹیکس اداکرنے کی اپیلیں کرنیوالے حکمران خودٹیکس چوری کریں تواس سے بڑی ملک دشمنی اورمنافقت کیا ہوگی۔حکمران ٹیکس چوری کی پاداش میں عام آدمی سے کئی گنازیادہ سخت سزا کے مستحق ہیں۔ عوام سے پٹرول اور موبائل فون کے ری چارج سمیت ان کی تمام بنیادی ضروریات پرٹیکس وصول کیا جارہا ہے جبکہ حکمران خوداربوں روپے کاٹیکس بچارہے ہیں۔میاں نوازشریف کسی قیمت پرمستعفی نہیں ہوں گے لہٰذاء باضمیر ارکان پارلیمنٹ عدم اعتماد کے ووٹ سے کسی ایماندارپارلیمنٹرین کونیا وزیراعظم منتخب کر نے کیلئے اپناآئینی کرداراداکریں۔وزیراعظم تودرکنارکسی وفاقی یاصوبائی وزیر کوبھی ان کے ضمیرنے نہیں جھنجوڑا ۔ ایک طرف پاکستان کے عام لوگ بنیادی ضروریات کیلئے ترس رہے ہیں جبکہ دوسری طرف حکمرانوں پر نوٹ برس ر ہے ہیں۔ پاکستان دنیا کی واحد بدقسمت ریاست ہے جس کے حکمران خوش قسمت ہیں کیونکہ ان کے چھونے سے لوہابھی سونابن جاتا ہے۔ مقروض پاکستان کے حکمرانوں نے اپناسرمایہ بیرون ملک منتقل اور ٹیکس چوری کیاجس کے نتیجہ میں بیمار معیشت کا جنازہ اٹھ گیا ۔قومی اداروں کونیلام کیا جارہا ہے جبکہ حکمرانوں کے نجی کاروباری ادارے پیسہ اُگل رہے ہیں۔ٹیکس چوری اوراثاثوں کوچھپانابلاشبہ قومی جرم ہے ،ایساکرنیوالے قابل رحم نہیں ہیں۔ حسین نوازنے تسلیم کرلیا لہٰذاء اب تحقیقاتی کمیشن نہیں بلکہ براہ راست ایکشن کی ضرورت ہے۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 139552 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.