ملک میں آزادی اظہار اور آزادی صحافت
پر پابندی کے مترادف ایک نئے ’’سائبر کرائمز‘‘ کا قانون بنایا جا رہا ہے ۔قومی
اسمبلی سے اس بل کی منظور ی دے دی گئی ہے۔حیرت کی بات ہے کہ اس متنازعہ
قانون کے خلاف ملک میں کوئی سرگرم آواز بلند نہیں ہو رہی ۔بلاشبہ ملک میں
سائبر کرائمز سے متعلق موثر قانون سازی کی ضرورت ہے لیکن اس قانون کے ذریعے
ملک میں آزادی اظہار اور آزادی صحافت کو قید کرنے کی کوشش میں موثر پیش رفت
ہوتے نظر آ رہی ہے۔مجوزہ سائبر کرائم قانون کو شہری آزادی پر بدترین پابندی
قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ عوامی تحفظات دور کئے بغیر ایسا قانون
بنانے کی حمایت نہ کی جائے۔’’سائبر کرائمز‘‘ کے قانون کے اس بل میں سب سے
بڑے قابل اعتراض نکات یہ ہیں کہ اس مجوزہ قانون کے بل کے تحت حکومت ، مذہب،
ملک، اس کی عدالتوں اور مسلح افوج کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا جاسکے گا
اور ایسا ہونے کی صورت میں ذمہ داروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے
گی۔اس بل کے بارے میں سول سوسائٹی کے علاوہ ارکان پارلیمنٹ نے بھی تحفظات
کا اظہار کیا تھا کہ اس بل کے پاس ہونے کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے
اداروں کو وسیع اختیارات مل جائیں گے۔ان کا کہنا ہے کہ اس بل کے پاس ہونے
کی وجہ سے شہری آزادیاں محدود کردی جائیں گی۔
سینٹ سے منظور ی کے بعد یہ بل قانون بن کر ملک میں نافذ ہو جائے گا۔انسداد
الیکٹرانک کرائمز بل میں کمپیوٹر اورانٹرنیٹ کے ذریعے کیے جانے والے جرائم
کی روک تھام پرسزاؤں کا تعین کیا گیا ہے، جس کے مطابق پاکستان ٹیلی کمیو
نیکیشن اتھارٹی(پی ٹی اے)اسلامی اقدار، قومی تشخص، ملکی سیکیورٹی اور دفاع
کے خلاف مواد بند کرنے کی پابند ہوگی۔سائبر کرائم کی ایک عام تعریف یہ بیان
کی جاتی ہے کہ ہر ایسی سرگرمی جس میں کمپیوٹرز یا نیٹ ورکس کو ایک ہتھیار
کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کسی کو ہدف بنایا جائے یا مجرمانہ سرگرمیاں کی
جائیں یا انہیں مخصوص فریقین کی جانب سے خلاف قانون سمجھا جائے۔ مختلف
سطحوں پر سائبر کرائمز میں لوگوں کی پرائیویسی کی خلاف ورزی، ہیکنگ، سوشل
نیٹ ورکس میں استحصال، معلومات انفراسٹرکچر پر سائبر حملے، سائبر دہشتگردی،
مجرمانہ رسائی، فحش پیغامات، ای میلز، دھمکی آمیز پیغامات و ای میلز، ڈیٹا
تک غیرقانونی رسائی وغیرہ شامل ہیں۔پاکستان میں سائبر کرائمز کی روک تھام
کے حوالے سے الیکٹرونک ٹرانزیکشن آرڈنینس 2002 اور پاکستانی ٹیلی کمیونیکشن
ری آرگنائزیشن ایکٹ 1996 جیسے قوانین نافذ ہیں، جبکہ 2009 میں پریوینٹیشن
آف الیکٹرونک کرائمز آرڈنینس بھی سامنا آیا مگر یہ ابھی تک فعال نہیں ہو
سکے ہیں۔ان قوانین کے تحت ہیکنگ، غیر قانونی رسائی(کسی ای میل اکاؤنٹ کی
ہیکنگ)، مداخلت، پرائیویسی کی خلاف ورزی، الیکٹرونک و ٹیلی کام انفراسٹرکچر
کو نقصان پہنچان اور گرے ٹریفک سمیت دیگر کو اہم جرائم قرار دیا گیا ہے،
تاہم ان میں کئی اہم سائبر کرائمز کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔اس بل کے تحت
کسی کی رضامندی کے بغیر کسی کو ٹیکسٹ میسیج بھیجنے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا
پر حکومتی اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنانے والے کو جرمانے کے ساتھ ساتھ
قید کی سزا بھی سنائی جاسکے گی۔مذکورہ بل کا مسودہ آئی ٹی کی وزارت نے جون
2015 میں قومی اسمبلی میں پیش کیا تھاتاہم اپوزیشن اراکین کی مخالفت اور
آئی ٹی انڈسٹری کے تحفظات کو دور کرنے کیلئے اسے قومی اسمبلی کی قائمہ
کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کو بھیج دیا گیا
تھا۔تاہم انفارمیشن ٹیکنالوجی(آئی ٹی) انڈسٹری اور سول سوسائٹی کی مخالفت
اور اس پر تحفظات کو دور کئے بغیر بل کی منظوری دی گئی ہے۔ مذکورہ قانون
انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بے جا
اختیارات دینے کے مترادف ہے۔ مذہب، ملک، عدالتوں اور فورسز پر آئن لائن
تنقید اس بل کے تحت سرکاری کام میں مداخلت کے زمرے میں آئے گی۔
ملک میں ایک بار پھر اس جمہوریت کی بساط لپیٹے جانے کے امکانات کی باتیں ہو
رہی ہیں ،جو جمہوریت ملک میں بحال ہو ہی نہیں سکی ۔جس ملک میں حکومتوں اور
اداروں کی کارکردگی یہ ہو کہ ملک کودولخت کر دیا گیا ہواور اس نقصان عظیم
کے باجود کوئی سبق نہ سیکھتے ہوئے اسی انداز کی سوچ اور اپروچ کی پیروی کی
جائے جس وجہ سے مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔جس ملک میں ایک سے زائد بار
آئین کو توڑا،معطل کیا گیا ہو،جس ملک میں عوامی مفادات قومی مفاد کے نام
پرطبقاتی بالادستی رکھنے والوں کے مفادات پرقربان کر دیئے جاتے ہوں،دہشت
گردی کے خلاف جنگ کی صورتحال میں عوامی آزادیاں پابندیوں کا شکار ہیں،ملک
میں اقتدار اور اختیارات کی بالادستی کی کشمکش جاری ہے،آمر فوجی حکومتوں کی
طرف سے سیاسی جماعتیں کے نام پر قائم مفاداتی گروپوں کے بدترین نتائج سب کے
سامنے ہیں،ملک میں جمہوریت قائم کرنے کا خواب اب بھی ناکام رہا ہے،کیا ان
حالات و واقعات سے نبرد آزما ملک میں شہریوں پر یہ پابندی لگانا جائز اور
درست ہے کہ وہ حکومت اور ملکی اداروں پر تنقید نہیں کر سکتے؟ کیا اب ملک
میں قانون کے ذریعے’’ احترام‘‘ کرایا اور ’’عزت‘‘ کرائی جائے گی؟
ہمارے ارباب اختیار کی پالیسیاں خود ان کے مطابق بھی،ملک کے لئے نقصاندہ
ثابت ہوئی ہیں تو اب اس دعوے پہ کیسے اعتبار کیا جا سکتا ہے کہ اب ان کی
پالیسیوں کے نتائج ماضی سے مختلف ثابت ہوں گے؟یہاں ایک اہم سوال یہ بھی ہے
کہ کیا آزادی اظہار اور آزادی صحافت پر اس ناجائز پابندی کا یہ قانون حکومت
کی آزادانہ مرضی سے کیا جا رہا ہے یا پہلے کی طرح ایسا’’ ناگزیر ہدایات‘‘
کے تحت ہو رہا ہے۔بہر حال شہریوں سے جائز تنقید کا حق چھین لینے والے اس
قانون کو بنانے اور نافذ کرنے کی ذمہ داری حکومت اور ارکان پارلیمنٹ پر
عائید ہوتی ہے ۔ ملک میں ملکی اداروں کو ’’خدا‘‘ بنانے اور اسی طرح کے
احترام کو یقینی بنانے پر مبنی یہ مجوزہ قانون ملک کے آئین کی بھی خلاف
ورزی ہے جو شہری آزادیوں کی ضمانت دیتا ہے ۔قانون و انصاف کا یہ ایک عمومی
اصول ہے کہ تنقید کے جائز یا ناجائز ہونے کا تعین نیک نیتی یا بد نیتی کے
مطابق طے ہوتا ہے۔یوں حکومت اورملکی اداروں کو تنقید سے بالاتر قرار دینے
کو کسی طور بھی ملک اور اس کے عوام کے مفاد میں قرار نہیں دیا جا سکتا۔ایسا
کرنا اساس پاکستان کی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہو گا۔ |