زندہ باد ، زندہ باد
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
نوازشریف زندہ باد ،عمران خاں
زندہ باد ،آصف زرداری زندہ باد اور پوری قوم مُردہ باد ۔ویسے توعدلیہ بھی
زندہ باد ،جس نے پہلے پاکستان کوپتھر کے زمانے میں دھکیلنے کی کوشش کرنے
والے پرویزمشرف کوملک سے باہرجانے کی اجازت مرحمت فرمادی اوراب مَنی
لانڈرنگ کیس میں پکڑی جانے والی ایان علی کوبھی اپنی عنایاتِ خسروانہ کی
طفیل یہ حکم جاری کردیا کہ روکومَت ،جانے دو ۔پرویزمشرف وہی شخص ہے جس نے
ملک کو آگ ،خون ،خودکُش حملوں اوربم دھماکوں جیسے تحفوں سے نوازا ۔اُس
کانعرہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ تھا ۔ہم سمجھتے رہے کہ اِس کامطلب پاکستان
کی سالمیت مقدم ہے لیکن بعد میں پتہ چلاکہ اُس کاتو ٹارگِٹ ہی پاکستان
تھاجسے وہ تباہ کرنے پرتُلا بیٹھا تھا۔وہ امریکہ کے ایک فون پرایساچاروں
شانے چِت ہواکہ پھر ’’نَے ہاتھ باگ پرہے نہ پا ہے رکاب میں‘‘ جیسی کیفیت
پیداہو گئی ۔اُسے آصف زرداری کی حکومت نے پورے پروٹوکول کے ساتھ گارڈ آف
آنر دے کر رخصت کیااور جب وہ دوبارہ ’’شوقِ اقتدار‘‘ میں پاکستان آیاتو آصف
زرداری نے کہا ’’بِلّا قابومیں آگیا ،اب جانے نہ پائے‘‘۔ نوازلیگ نے
مقدوربھر اُسے روکنے کی کوشش کی لیکن اعلیٰ عدلیہ آڑے آئی اوروہ اپنے
’’طبلے سارنگی‘‘ سمیت دبئی جابسا۔
ایان علی ملک سے باہرجاتے ہوئے ایئرپورٹ پرلاکھوں ڈالر سمیت رنگے ہاتھوں
پکڑی گئی ۔ملک میں ایک طوفان کھڑاہوا ،نیوزچینلز کی چاندی ہوئی ،اینکرز
لنگوٹ کَس کراکھاڑوں میں اُترے اورہم جیسے لکھاریوں کو بھی اپنے کالموں کا
پیٹ بھرنے کے لیے موادمیسر آیا۔گلی گلی میں ماڈل ایان علی کاشور تھالیکن
نتیجہ حسبِ سابق وہی ڈھاک کے تین پات ۔وہ عدالت سے اپنی مخروطی انگلیوں کے
ساتھ ’’وکٹری‘‘ کانشان بناتے ،چہرے پرطنزیہ مسکراہٹ سجائے باہرنکلی ۔اُس کے
دبئی جانے کاسارا بندوبست پہلے ہی ہوچکا تھا۔ جمعے کی شب 10 بجے اُس کی
فلائٹ تھی لیکن پھراُس نے اپنادبئی جاناایک آدھ روزکے لیے مؤخر کردیا ۔شاید
ڈالروں کا دوسرابیگ بھرکر لے جانامقصود ہو۔اُسے تواب یہ یقینِ کامل ہوگاکہ
اُس کے بیگ کی طرف کوئی آنکھ اُٹھا کردیکھنے کی جرأت بھی نہیں کرے گا۔
ہماراآزاد اوربے باک پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیابھی زندہ بادکہ جس نے ’’پانامہ
لیکس‘‘ کاایسا ڈھول بجایااورتاحال بجارہا ہے کہ کانوں کے پردے پھٹنے کوآئے
۔ویسے ہمیں پانامہ لیکس پر تحقیقاتی کمیشن کاڈھونگ رچانے کی کوئی ضرورت
نہیں تھی کیونکہ ہم ثابت تو’’کَکھ‘‘ بھی نہیں کر سکتے ۔وزیرِاعظم کے
صاحبزادوں سمیت 200 افرادکے مَنی لانڈرنگ کے کسی کے پاس شواہدہیں نہ ثبوت
۔آف شورکمپنی بناناغیرقانونی نہیں ۔غیرقانونی ہے توصرف یہ کہ آف شور کمپنی
میں لگایا جانے والاپیسہ کہاں سے آیا ؟۔ جن لوگوں نے آف شورکمپنیز بنائی
ہیں اُن کے پاس ثابت کرنے کے لیے ہزاروں ثبوت ہوں گے کہ اُنہوں نے وہ پیسہ
پاکستان سے نہیں بھیجا۔ وزیرِاعظم کے صاحبزادے اپنی پوزیشن پہلے ہی واضح
کرچکے اورباقی 200 تیاربیٹھے ہیں۔ویسے بھی جب ہم مَنی لانڈرنگ کرتی ہوئی
،رنگے ہاتھوں پکڑی جانے والی کا کچھ بگاڑ نہیں سکے توگھاگ مگرمچھوں کاکیا
بگاڑپائیں گے ۔سیاسی جماعتوں کایہ سب شورصرف نوازلیگ کو’’نُکرے‘‘ لگانے کے
لیے ہے جس میں کپتان صاحب جیسے سیاستدانوں کو اپنے تشنہ خوابوں کی پھرسے
تکمیل ہوتی نظرآنے لگی ہے ۔اسی لیے تو وہ بھاگم بھاگ لندن جاپہنچے ۔آجکل وہ
ماہرین سے دھڑادھڑ ملاقاتیں کررہے ہیں ،ٹارگِٹ اُن کاصرف حسن نوازاور حسین
نواز کیونکہ صرف اُنہی کے ذریعے وہ میاں نواز شریف سے مسندِ اقتدار چھیننے
کی تگ ودَو کرسکتے ہیں۔
اُدھر میاں شہباز شریف نے ایک انٹرویو میں واضح کردیاکہ تحقیقاتی کمیشن صرف
پانامہ لیکس تک محدودنہیں رہے گابلکہ اِس کادائرہ پاکستان میں کی جانے والی
ساری کرپشن تک پھیلادیا جائے گا۔ میاں صاحب کے مُنہ میں گھی شَکر ،اگروہ
پانامہ لیکس کے ساتھ ہی ساتھ’’پاکستان لیکس‘‘ کابھی بندوبست کرواسکیں
تواگلے تیس چالیس سال تک ٹیکس فری بجٹ کی گارنٹی ہم دیتے ہیں لیکن ایسے
سہانے سپنے ہمیں پہلے بھی دکھائے جاتے رہے ۔ہم نے غضب کرپشن کی عجب کہانیاں
بھی بہت سنیں اور نَیب کا’’ ہَوّا‘‘ بھی دیکھ لیا ،ہوا مگرکچھ بھی نہیں
۔پچھلے سال ریٹائرہونے والے سپریم کورٹ کے جسٹس سَرمدجلال عثمانی ہمارے لیے
بہت معتبر ومحترم ۔اُنہوں نے سپریم کورٹ کے پانچ ریٹائرڈ جسٹس صاحبان ،جن
میں سے دو سپریم کورٹ کے سابقہ چیف جسٹس بھی تھے ،اُن کے انکارکے بعد
تحقیقاتی کمیشن کامشروط سربراہ بننا قبول کرلیا ۔اُن کی شرائط یہ ہیں کہ
اُنہیں اُن کی مرضی سے چارٹرڈاکاؤنٹنٹ اورتفتیشی آفیسر مہیاکیا جائے ۔سوال
مگریہ کہ اگریہ سب کچھ اُن کی مرضی کے مطابق ہوبھی جائے توکیا سیاسی
جماعتیں اُن کی تعیناتی کوقبول کرلیں گی ؟۔ باقی سیاسی جماعتوں کا توپتہ
نہیں لیکن کپتان صاحب توکسی بھی صورت قبول نہیں کریں گے کیونکہ وہ ’’پکی
پکائی‘‘ کھانے پرتُلے بیٹھے ہیں اوراُن کاتو فیصلہ ہی یہ ہے کہ اگروہ
وزیرِاعظم نہیں توپھر ’’کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے‘‘، اُن کامطالبہ ہے کہ
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سربرائی میں تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیاجائے جب کہ
سپریم کورٹ نے دوٹوک کہہ دیا’’ سپریم کورٹ تحقیقات نہیں کرتی ، فیصلہ دیتی
ہے‘‘ ۔اب صورتِ حال کچھ یوں بنتی ہے کہ سپریم کورٹ تحقیقات کے لیے تیارنہیں
اورکپتان صاحب کوریٹائرڈ جج کی سربراہی قبول نہیں اِس لیے دھرنوں کاموسم
قریب آن لگا۔ فیصلہ توبہرحال ’’امپائر‘‘ ہی نے کرنا ہے کپتان صاحب لاکھ
کہیں کہ امپائر اﷲ ہے لیکن قوم جانتی ہے کہ دھرنوں کے دنوں میں کپتان صاحب
کااشارہ کس کی طرف تھا ۔دیکھتے ہیں کہ کیااب بھی عمران خاں کی خواہش کے
مطابق ’’امپائر‘‘ کی انگلی کھڑی ہوتی ہے یا نہیں۔ اگر امپائر کی انگلی کھڑی
ہوبھی گئی توپھر بھی کپتان صاحب کے ہاتھ تو کچھ آئے گا نہیں البتہ جمہوریت
کاایک دفعہ پھردَس ، پندرہ سالوں کے لیے بِستر گول ہوجائے گا۔ |
|