ملتان، سب سیکریٹریٹ؟
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
اہالیانِ جنوبی پنجاب خوش ہو
جائیں کہ گورنر پنجاب ملک رفیق رجوانہ نے اُن کو ایک خوشخبری سنا دی ہے۔
بتایا گیا ہے کہ ’’․․ جنوبی پنجاب کے لئے ملتان میں سب سیکریٹریٹ بنانے کے
لئے بھر پور کاوشیں کررہے ہیں، دوتین ماہ میں ایڈیشنل سیکریٹری کا تقرر
ہوجائے گا، اس سے جنوبی پنجاب کے عوام کو ریلیف حاصل ہوگا ․․‘‘۔ جنوبی
پنجاب کے لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات راسخ ہو چکی ہے کہ ہم محرومی کا شکار
ہیں، اور یہ بھی کہ اس محرومی کی ذمہ داری حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔
حکومتوں کا یہ کہنا ہے کہ ہم نے محروم علاقوں کے لئے بہت سے ترقیاتی کام
کئے ہیں، یا کرتے ہیں، یا کررہے ہیں، یا کریں گے، حکومتوں کے پاس دوسری اور
اہم دلیل یہ ہے کہ جنوبی پنجاب میں بہت سے افراد کو کوئی نہ کوئی بڑا عہدہ
ملتا رہتا ہے، اس ضمن میں ایسے افراد کی فہرست بار ہا اس کالم کا حصہ بن
چکی ہے، جن میں وزیراعظم، سپیکر قومی اسمبلی، گورنرز اور بہت سے اہم وفاقی
وزیر شامل ہیں۔ اس طرح اگر غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو حکومتی موقف
ہی درست معلوم ہوتا ہے، کیونکہ اہم عہدوں کی موجودگی میں بھی اگر کوئی
علاقہ محرومی کا شکار ہے تو پھر اپنی کارکردگی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
اب جنوبی پنجاب کی ترقی اور عوام کے مسائل کے حل کے لئے اگر ملتان میں
گورنر کا سب سیکرٹریٹ قائم ہو رہا ہے، تو پہلے اس کی ضرورت کا جائزہ لیا
جانا ضروری ہے۔ گورنر کا عہدہ ایک آئینی تقاضا ہونے کے ساتھ ساتھ محض ایک
نمائشی عہدہ ہے، جس کے اختیارات صرف کاغذی ہیں، یعنی گورنر کے دستخطوں تک
محدود ہیں، اسمبلی نے کوئی قانون پاس کردیا تو گورنر نے اس پر دستخظ کرنے
ہوتے ہیں، صوبہ بھر کی یونیورسٹیوں کے چانسلر کی حیثیت سے طلبا وطالبات کی
ڈگریاں بھی ان کے دستخطوں کی محتاج ہیں، مت جانئے کہ ہزاروں طلبا وطالبات
کی ڈگریوں پر وہ رات دن ایک کرکے دستخط کرتے ہیں، بلکہ ان کے دستخطوں پر
مشتمل ایک مہر بنوالی جاتی ہے، جو ڈگری پر ثبت کردی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ
اگر کبھی حکومت کی مجبوری یا ایمرجنسی ہو تو کوئی آرڈیننس وغیرہ بھی جاری
کروایا جاتا ہے، جو گورنر کے ہی دستخطوں سے قابلِ عمل ہوتا ہے۔ یقینا اس کے
علاوہ بھی بہت سے ایسے عناصر ہونگے، جہاں گورنر کے دستخط کی ضرورت ہوتی ہے،
اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ گورنر کا سب سے اہم فریضہ یہی ہے۔ ان کی دوسری اہم
مصروفیت یا ذمہ داری تقریبات میں شرکت کرنا ہے، پنجاب بھر کی جامعات میں
جانا ان کے فرائض میں شامل ہے، ممکن ہے کہ وہ جامعات کے معیار اور معاملات
کا جائزہ بھی لیتے ہوں اور ان کی کارکردگی پر بھی بات چیت کرتے ہوں، ان کی
آؤٹ پُٹ کا احوال جانتے ہوں، اور آخر میں صورت حال کو اطمینان بخش قرار
دیتے ہوں۔
اگر گورنر رجوانہ یہ کہیں کہ ملتان میں سب سیکریٹریٹ بننے سے عوام کو ریلیف
ملے گا تو اس بیان کی حیثیت ایک روایتی کاروائی سے زیادہ کچھ نہیں، عوام کا
بھلا گورنر سے کیا تعلق؟ اور گورنر کا مسائل کے حل سے کیا واسطہ؟ نہ وہ
منصوبے بنانے کے مجاز ہیں، نہ وہ منصوبوں پر عمل کروانے کے اختیارات رکھتے
ہیں۔ اگر ایک گورنر وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے تو اپنے ہاں وفاق پنجاب حکومت
کو اپنے نمائندے کے ذریعے بال برابر بھی کوئی بات نہیں کہنا چاہتا، اور نہ
ہی گورنر اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ پنجاب حکومت کو ہدایات دیں۔ ایک سراسر
غیر سیاسی عہدہ دار ہونے کے باوجود اپنے ہاں ہر گور نر نہ صرف اپنے پارٹی
قائدین کا بھر پور شکر گزار ہوتا ہے بلکہ پارٹی پروگراموں میں شرکت اور
کارکنوں کو گورنر ہاؤس میں دعوتیں وغیرہ دیتا اور خود ان کے ہاں پروگراموں
میں شرکت کرتا ہے۔ موجودہ گورنر بھی اس خوبی میں دوسروں سے پیچھے نہیں۔
گورنر خوب جانتے ہیں، اور اب عوام بھی اس معاملے سے خوب آگاہ ہوچکے ہیں کہ
گورنر کے پاس ایسے کوئی اختیارات نہیں ہوتے جن سے عوام کو ریلیف مل سکے،
البتہ ملتان میں بننے والی میٹرو سروس کی تشہیر اور اس کے لئے بیان بازی کو
گورنر اپنے کھاتے میں ڈال کر اپنے بیانات کو مزید جاندار بنا سکتے ہیں۔ کسی
حد تک اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ وہ کچھ ترقیاتی فنڈ حاصل کرنے میں بھی
کامیاب ہو جائیں، تاہم یوسف رضا گیلانی کی طرح وہ فنڈ بھی ملتان میں لگے
گا، جنوبی پنجاب کا اکثر علاقہ ’’کچے‘‘ کا منظر ہی پیش کرتا رہے گا۔
ترقیاتی منصوبے تو ملتان سے آگے ڈیرہ غازی خان تک نہیں پہنچنے پاتے، جس کا
خمیازہ حکومتوں کو بھگتنا پڑتا ہے، کبھی عوام کے غضب کی صورت میں اور کبھی
’چھوٹو گینگوں‘ کی صورت میں ۔ |
|