مطالعہ کا شوق زوال پذیر کیوں……!
(Rana Aijaz Hussain, Multan)
کتاب ایک قوم کی تہذیب و
ثقافت اور معاشی، سائنسی اور عملی ترقی کی آئینہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ
انسان کی بہترین دوست بھی ہے۔ کتابوں سے دوستی رکھنے والا شخص کبھی تنہا
نہیں ہوتا۔ کتاب اس وقت بھی ساتھ رہتی ہے،جب تمام دوست اور پیار کرنے والے
ساتھ چھوڑ دیں۔ اگرچہ آج ٹی وی انٹرنیٹ اور موبائل نے لوگوں کے ذہنوں پر
قبضہ کر لیا ہے، لیکن کتاب کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے۔ نئی نسل میں کتب
بینی کا رجحان خاصا کم ہے۔ بچوں کو مطالعے کی طرف راغب کرنا کٹھن کام بن
گیا ہے، حالانکہ موجودہ دور میں بڑھتے نفسیاتی مسائل سے بچنے کے لئے آج
ماہرین نفسیات بچوں کے لئے مطالعے کو لازمی قرار دے رہے ہیں، کیونکہ اچھی
کتابیں شعور کو جِلا بخشنے کے ساتھ ساتھ بچوں کو بہت سے فضول مشغلوں سے بھی
بچاتی ہیں۔ آج جو نوجوان مطالعے سے گریز کر رہے ہیں، وہ ماضی سے بے خبر اور
مستقبل کے لئے لایعنی ہوتے جارہے ہیں۔ انسان جب کبھی بھی تنہا ہوتا ہے تو
ایسے وقت میں کتابیں ہی انسان کا دل بہلاتی ہیں۔ کتابیں انسان کی بہترین
دوست اور ساتھی ہی نہیں، بلکہ معلومات کا خزانہ بھی ہیں۔ کتابوں سے دوستی
میں اضافہ، اشاعتی اداروں کی حوصلہ افزائی اور کاپی رائٹس کے قوانین پر عمل
درآمد کو یقینی بنانے کے لئے دنیا بھر میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی
اپیل پر ہر سال 23 اپریل کو باقاعدگی سے کتابوں اور کاپی رائٹس کا عالمی دن
منایا جاتا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کی طرف سے
سیمینارز، کانفرنسیں، ریلیاں منعقد کی جاتی ہیں، جبکہ اہم شاہراہوں اور
پارکوں میں بینرز آویزاں کئے جاتے ہیں ۔ پاکستان میں نیشنل بک فاؤنڈیشن کی
جانب سے سرکاری طور پر یہ دن خصوصی اہتمام سے منایا جاتا ہے۔یہ ایک حقیقت
ہے کہ کوئی درس گاہ اور تعلیم یافتہ معاشرہ کتاب کی ضرورت سے بے نیاز نہیں
رہ سکتا۔ کہتے ہیں کہ کتاب کا انسان سے تعلق بڑا پرانا ہے اور یہ انسان کے
علم و ہنر اور ذہنی استعداد میں بے پناہ اضافہ کرتی ہے اور خود آگاہی اور
اپنے ارد گرد کے حالات و واقعات کا ادراک پیدا کرتی ہیں۔
ہر سال کتابوں کا عالمی دن منانے کا تصور بنیادی طور پر سپین کے علاقے
کاتالونیا سے آیا ہے، جہاں ایک زمانے سے لوگ عوامی ہیرو سینٹ جورج کی یاد
میں منائے جانے والے دن کے موقع پر ایک دوسرے کو گلاب کے پھولوں کا تحفہ
دیا کرتے تھے۔اس لئے کتابوں کی دکانوں کے مالکان کی تحریک پر لوگ گلابوں کے
ساتھ ساتھ کتابیں بھی بطور تحفہ دینے لگے۔ خاص طور پر شہر بار سلونا میں،
جو کہ کاتالونیا کا دارالحکومت ہے، ہر سال 23اپریل کے دن کو عوامی اور
ثقافتی نوعیت کے ایک بڑے تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے اور وہاں کی سڑکوں
اور بازاروں میں لگے سٹالوں پر لاکھوں گلاب اور کتابیں فروخت ہوتی ہیں،
لیکن اس دن کو عالمی سطح پر کتاب کے دن کے طور پر منانے کی ایک اور وجہ یہ
بھی ہے کہ یہ عالمی سطح کے دو نامور ادیبوں کا یوم وفات بھی ہے۔ یہ ہیں
انگریز ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر اور ہسپانوی شاعر مِگل دے سیروانتیس……
(Miguel de cervantes)…… مشہور جرمن فلسفی اور شاعر ڑوہان وولفگانگ گوئتھے
نے 1771ء ہی میں مطالبہ کیا تھا کہ شیکسپیئر کی یاد منائی جانی چاہئے۔ ایسے
میں یہ بات باعث تعجب نہیں ہے کہ جب 1995ء میں یونیسکو نے کاتالونیا میں
منائے جانے والے دن کو پوری دنیا میں عالمی یوم کتاب کی حیثیت سے منانے کا
فیصلہ کیا تو بہت سے ممالک کی جانب سے اس فیصلے کا زبردست خیر مقدم کیا گیا۔
حکومت کی جانب سے کتب بینی کے عالمی دن کو نہایت سادگی سے منانے کے بعد
اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں کتب خانوں اور کتب بینی کے رجحان میں کس
قدر کمی واقع ہو رہی ہے اور حکومت کتب بینی کے فروغ کے اعتبار سے کس قدر
سستی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں صرف 27 فیصد
عوام کتب بینی کے شوقین ہیں، جبکہ 73 فیصد عوام نے کتب بینی سے دوری کا
اعتراف کیا ہے، تاہم دانشور طبقے کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی کی یلغار کے
باوجود کتاب کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ مطالعے میں کمی کی بڑی وجہ کتاب کی
قیمتوں میں اضافہ ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ انہیں مطالعے کا اشتیاق تو ہے،
مگر کتاب اب عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہو گئی ہے۔
کتاب سے دوستی شعور کی نئی منزلوں سے روشناس کراتی ہے، جس طرح ہوا اور پانی
کے بغیر جینا ممکن نہیں، اسی طرح کتاب کے بغیر انسانی بقا اور ارتقاء محال
ہے۔ کتاب نے علم کے فروغ اور سوچ کی وسعت میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔
دنیا جب تحریر کے فن سے روشناس ہوئی تو انسان نے چٹانوں، درختوں کی چھالوں،
جانوروں کی ہڈیوں اور کھالوں، کھجور کے پتوں ، ہاتھی دانت، کاغذ غرض ہر وہ
شے لکھنے کے لئے استعمال کی ، جس سے وہ اپنے دل کی بات دوسروں تک پہنچا سکے۔
کتابوں کی داستان بھی عجب ہے۔ کبھی انہیں آگ لگائی گئی تو کبھی دریا برد
کیاگیا ، کبھی چرا لیا تو کبھی دفنا دیا گیا۔ کبھی یہ شاہی دربار کی زینت
بنیں تو کبھی فٹ پاتھ پر کوڑیوں کے دام فروخت ہوئیں۔
کتاب اور علم دوستی معاشی خوشحالی اور معاشرتی امن کی ضامن ہے۔ تاریخ بتاتی
ہے کہ جس قوم نے علم و تحقیق کا دامن چھوڑ دیا، وہ پستی میں گر گئی۔ مسلم
اْمہ کا زوال اس کی واضح مثال ہے۔ ساتویں صدی سے تیرہویں صدی تک بغداد علم
و ادب کاگہوارہ رہا۔ سقوطِ بغداد ہوا تو مسلمانوں کے عظیم کتب خانے فرات
میں بہا دیئے گئے۔ یہ اس قدر ضخیم ذخیرہ تھا کہ دریا کا پانی اس کی سیاہی
سے سیاہ ہو گیا۔ جب اندلس میں پندرہویں صدی عیسوی کے آخر میں اسلامی حکومت
ختم ہوئی تو غرناطہ کی بڑی لائبریری کو بھی ملکہ ازابیلا نے جلوا دیا۔ یہ
وہ دور تھا جب مسلمان کتابیں پڑھتے اور جمع کرتے تھے، مگر رفتہ رفتہ علم سے
دوری مسلمانوں کو رسوائی کی طرف لے گئی۔ آج دنیا کے 28 ممالک ایسے ہیں،
جہاں سب سے زیادہ کتابیں فروخت ہوتی ہیں، مگر ان 28ممالک میں ایک بھی
مسلمان ملک نہیں۔ افسوس! مسلمان اپنی علمی شان بھلا بیٹھے اور اہل یورپ نے
مسلمانوں کے علمی مراکز، بالخصوص ہسپانوی مراکز سے استفادہ کر کے تحقیق کی
دنیا میں قدم رکھا۔ ہمارے آباؤ اجداد کی محنت آج بھی لندن کی ’’انڈیا آفس
لائبریری‘‘ میں موجود ہے۔ ان کتب کی تعداد 6لاکھ کے قریب ہے۔ ان میں عربی،
فارسی، ترکی اور اردو میں قلمی کتابوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔ لندن کے بعد
پیرس لائبریری میں مشرقی زبانوں میں لکھی کتابوں کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔
کتابیں انسانی زندگی پر بہت اچھے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ ادب انسانی مزاج میں
نرمی پیدا کرتا ہے، اس لئے کتابوں کو فروغ دے کر دہشت گردی کے جذبات میں
کمی لائی جا سکتی ہے۔ کتابوں کے حوالے سے موجود کئی مسائل کے باوجود
پاکستان میں کتب میلے، دنیا کی بہترین کتابوں کے تراجم کی اشاعت، ای بکس،
آن لائن بکس سٹور، ریڈرز کلب، موبائل بک سٹورز اور میگا بکس سٹورز کتابوں
کی دنیا کے نئے رجحانات ہیں۔ یاد رہے پاکستان میں کئی ادارے کتب بینی کے
فروغ کے لئے کوششیں کر رہے ہیں۔عالمی یوم کتاب کا یہ پیغام ہے کہ ہمیں اپنے
اندر مطالعہ کا شوق پیدا کرنا چاہیے اور کتب بینی کے ساتھ ساتھ اچھی کتابیں
تحریر کرنے والے مصنفین کی حوصلہ افزائی کرناچاہیے۔ |
|