انٹرنیٹ کا غلط استعمال اور اس کے مضر اثرات

بسمہ تعالی

موجودہ دور میں اگر کسی سائنسی پیش رفت کا بول بالا ہے تو وہ یقینی طور انٹرنیٹ ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مقولہ زبان زدِ عام و خاص ہے کہ موجودہ دور انٹرنیٹ کا دور ہے۔ انٹرنیٹ بھی اب تک کی محیرالعقول سائنسی ایجاد ات میں سے ایک ایجادہے۔ پوری دنیا کوگلوبل ولیج بنانے میں انٹرنیٹ کا کلیدی کردارہے۔ پیغامات اور معلومات کی ابلاغ و ترسیل ہو یا اس کا حصول انٹرنیٹ سے ہر کام نہ صرف آسان سے آسان تر ہوگیاہے۔ اور اس میں روز بروز کافی سرعت بھی آگئی ہے۔نیٹ کا مطلب جا ل ہے اور اس غیر مرئی جال کی لپیٹ میں پوری دنیا آ چکی ہے۔ جس سے باہر نکلنا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہے ۔یہ اس زمانے کی ناگزیر ضرورت ہے۔ انسانی زندگی کا شائد ہی کوئی شعبہ ہو جس میں انٹر نیٹ کا عمل دخل نہ ہو۔

یہ مقولہ تو زبان زد عام و خاص ہے کہ موجودہ زمانہ کا فی تیز گام ہے حالانکہ وہی روز و شب ہیں وہی ماہ و سال ہیں۔آفتاب و مہتاب کی وہی راہ و روش ہے۔ لحظوں ،منٹوں اور گھنٹوں کی رفتار میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی ۔در اصل انٹر نیٹ جیسے ذرایع سے ہی عصر حاضر نے یہ تیز رفتاری مستعار لے رکھی ہے ۔بجاطور پر کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ دور میں انٹرنیٹ کار آمد ترین ایجاد ہے۔ لیکن قاعدہ کلیہ کے مطابق جو چیز جس قدر کار آمد ہوا کرتی ہے وہ کئی گنا زیادہ نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے اگر اس کا غلط استعمال کیا جائے۔ بدقسمتی سے ہر ایجاد کی طرح انٹرنیٹ کا بھی سو ءِ استفادہ ہو رہا ہے۔ جس سے یہ کارآمد چیز عالمی سطح پر انسانی معاشرے کیلئے جان لیوا ثابت ہورہی ہے۔ خاص طور سے نوجواں اور بچے اس کے مضراثرات کا شکار ہورہے ہیں۔ اثرات بھی ایسے جو ہمہ جہت ہیں۔ ان مضر اثرات سے انسان کا دینی جذبہ سرد پڑرہا ہے۔ تعلیمی سرگرمیاں معطل ہورہی ہیں۔ اخلاقی اور تہذیبی ڈھانچہ شکت و ریخت سے دوچار ہے۔انسان کا سماجی رویہ یکسر تبدیل ہو گیا ہے اس کا میل جول جواب تک ایک مانوس معاشرے تک ہی محدود تھا اب انٹرنیٹ کی بدولت کافی حد تک اس کے روابطہ میں وسعت آگئی ہے۔ وہ کچھ ایسی منفی سوچ اور غلط راہ و روش سے آشنا ہوا ہے۔ جو اس کے معاشرتی اور مذہبی نقطہ گاہ سے ناپسند و نامناسب ہے۔ جسے وہ نفسیاتی کشاکش سے دو چار ہوا ہے۔یہ بات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ انٹرنیٹ پر جو مواد ہماری نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے اس کا بڑا حصہ جنسی حس کو تہہ و بالا کر دیتا ہے۔ متحرک اور غیر متحرک فحش تصویریں جابجا دکھائی پڑتی ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اگر کوئی لاکھ دامن بچانا چاہے۔ ان شیطانی پھندوں سے اس کا ضرور بہ ضرور واسطہ پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ مذہبی معلومات او روحانی حض حاصل کرنے کے لئے بھی چند ایک نا زیبا مناظر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ۔ اس پر مستزادیہ کہ ہر کس و ناکس کو اس اخلاق سوز مواد تک رسائی حاصل ہے انٹرنیٹ کی دنیا میں کہیں پر نگرانی اور پابندی کافی زمانہ کوئی تصورسر ے سے موجود ہی نہیں ہے۔ جس کو جو دل میں آگیا وہ اس کو اس کے حوالے کردیتا ہے۔ یہاں ضابطہ ٔ اخلاق ناپید ہے۔ نیز بندھے ٹکے اصول و قوانین سے اس شتر بے مہار کو لگام دینے کا کوئی اہتمام نہیں ہے۔ لہذا ہم استعاراً کہہ سکتے ہیں کہ انٹرنیٹ ایک بڑا کوڑے دان ہے کہ جس میں بہت سی انمول اور کارآمد چیزیں بھی ہیں۔ لیکن ہر شخص کو اجازت ہے کہ وہ گلی سڑھی اور زہریلی اشیا ء بھی اس میں ڈال سکتا ہے۔
لندن اسکول آف اکنامکس کی ایک رپورٹ کے مطابق یورپ میں قریبا ً57 فیصد بچے انٹرنیٹ پر بلا جھجک فحاشی و عریانیت مواد دیکھتے رہتے ہیں اور ان کے والدین ان کی اس حیا سوز حرکت سے ناواقف ہوتے ہیں۔ جو بچہ اوائل عمری میں ہی انٹرنیٹ کی بھول بھلیاں میں کھو جائے۔ وہ نوجوانی میں ماں باپ کے ہاتھ کہاں آسکتا ہے۔ اور جس کی معصوم نگاہیں حیا سوز مناظر سے بچپن میں ہی آلودہ ہوچکی ہوں اسے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ آگے چل کر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی سعید فطرت اور پاکباز ہوگا۔ اس میں اعلی ٰ اقدار و کردار کا پایا جانا غیر ممکن ہے۔

جس کا بچپن اس دام فریب میں گرفتار ہو جائے اسے جوانی میں اگر غیر متوقع افعال صادر ہوں تو اچنبھے کی بات نہیں
دل سوز سے خالی ہے نگاہ پاک نہیں ہے
پھر اس میں عجب کیا کہ تو بے باک نہیں ہے (علامہ اقبال)

اس وقت نوجوان طبقے میں جواخلاقی بگاڑ اور مذہبی بیزاری کا عنصر سر ابھار رہا ہے۔ اس میں انٹرنیٹ کا بھی ایک بڑا کردار ادا کررہا ہے۔ انٹرنیٹ نے بے شک دوریاں کم کردی ہے۔ لیکن یہ دوریاں انٹرنیٹ کی مصنوعی دنیا میں کم ہوئی ہیں۔ اصل اور حقیقی دنیا میں اسے ایک خلا پیدا ہوا ہے جو روز بروز بڑھتا ہی جارہاہے۔ اس کی زندہ مثال سوشل نیٹ ورک میڈیا کی دنیا میں گم نوجوان بلکہ ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والا انسان ہے جو آٹھ پہر سوشل نیٹ ورکنگSocial Networking کی مختلف ویب سائٹوں میں مگن اپنے یاس پڑوس، اپنے گھر بار حتیٰ کہ اپنے والدین اور اپنے قریبی دوستوں اور رشتہ داروں سے غافل ہیں۔ ایک بچہ بظاہر ماں باپ کی نگاہوں کے سامنے بیٹھا ہوا ہیں لیکن اپنے موبائیل یا پرسنل کمپیوٹر کی مدد سے وہ کہیں اور پہنچ چکا ہوتا ہے۔گویا اسکے وجود کو کیمپیوٹر یا موبائل نے جذب کر کے کسی دوسری دنیا میں روانہ کر دیا ہے ۔ زیادہ واضع بیانی سے کام لیا جائے تو کہہ سکتے ہیں کہ صرف جسم والدین کے روبرو ہے اور روح انٹرنیت کی دنیا میں سرگرداں اور پریشاں ہے۔ اس معاملے میں والدین کی نگرانی اور ناظروں کی نظارت میں ایک اور پیچیدگی سامنے آجاتی ہے۔ وہ یہ کہ اگر اصل دنیا میں ایک بچہ آوارہ گردی اور بدچلنی کا مظاہرہ کرے تو اس کو سماج کی آنکھ ہرگز نظر انداز نہیں کرسکتی ہے اور نہ ہی والدین اس کی غلط روی سے زیادہ دیر تک ناواقف رہ سکتے ہیں۔ مگر انٹرنیٹ کی دنیا میں آوارہ گردی بغیر کسی کھٹک کے ہوتی ہے۔ یہاں نظارت و نگرانی کا کوئی اہتمام ہی نہیں۔ آپ کچھ بھی دیکھ سکتے ہیں۔ کچھ بھی دکھا سکتے ہیں۔ کسی کے ساتھ بھی میل جول بڑھا سکتے ہیں۔ کسی بھی ان دیکھے شخص کیساتھ رشتہ استوار کرسکتے ہیں۔ اس خوف کے بغیر کہ کوئی میری حرکتوں کو دیکھ رہا ہے۔اور کسی کے سامنے میری جواب دہی ہے۔ موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں ایک مثال پیش کی جاسکتی ہے جسے ہماری بات پر مہر تصدیق ثبت ہوجاتی ہے۔ اس وقت دنیا علی الخصوص مسلم دنیا کو دہشت گردی کا عفریت منہ پھیلائے نگلنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس نے بھی اسی انٹرنیٹ کا کافی حد تک استفادہ کیا ہے۔ حتی ٰکہ داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں نے بھی سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹوں کی مدد سے مرد حضرات کو جہاد کے نام پر اور خواتین کو جہاد النکاح کے نام پر بالترتیب اپنی طاقت اور عزت و ناموس پیش کرنے پر آمادہ کیا ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جنہوں نے یورپ کی عیش پرستانہ ماحول کو تج کر داعش میں شمولیت اختیار کی ہیں۔ ان کے بارے میں ان کے اقربا، ہمسایہ اور دیگر دوست و احباب بھی اس طرح کے اقدام کی توقع نہیں رکھتے تھے۔ ان کی ظاہری زندگی میں شدت پسندی کا کوئی عمل دخل نہیں پایا گیا تھا۔ لیکن اس غیر مرئی دنیا یعنی انٹرنیٹ کی دنیا میں انہوں نے اپنی حقیقی زندگی کے برعکس خفیہ طور پر ایک ایسی صورت اختیار کی تھی۔۔ جس کا وہم و گمان تک نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اور تشویش کی بات یہ ہے کہ ان کے اپنوں کو اس بات کی بھنک تک نہ ملی۔ اس حقیقت سے پیش نظر ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اگر انٹرنیٹ کے ذریعے آپ غیروں سے مراسم استوار کرتے ہیں لیکن آپ دیکھتے ہی دیکھتے اپنے سماج، مذہب، تہذیب و تمدن، افکار و خیالات سے بھی خفیہ طور بہت دور چلے جاسکتے ہیں۔انٹر نیٹ کے غلط استعمال نے عائلی اور ازدواجی زندگی میں بھی زہر گھول دیا ہے۔ چند دن قبل راقم الحروف نے ایک اخبار کی یہ سرخی پڑی کہ ـ’’سمارٹ فون کے غلط استعمال نے ایک ہنستا بستا گھر برباد کر ڈالا ہے‘‘ ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق ا جمیر شریف میں ایک گھر گرہستی والے شخص نے سمارٹ فون خریدااور اس پر فحش فلمیں دیکھنے لگاجس کا اثر یہ ہوا کہ اس نے اپنی بیوی کے نام یہ فرمان جاری کر دیا کہ وہ بھی فحش اداکاراووں کی نقالی کر کے حیا باختہ اور غیر اخلاقی حرکات کرے ۔باحیا بیوی کے انکار کرنے پر اس بد طینت شخص نے اسے اس قدر ماراپیٹا کہ بیچاری کو ہسپتال داخل کروانا پڑ ا۔ خاتون نے ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد پولیس کوبتایاکہ کہ میرا شوہر کپڑے رنگنے کا کام کرتا ہے۔ ہماری تیرہ سالہ ازدواجی زندگی خوش و خرم گزری ۔لیکن سمارٹ فون کی وجہ سے اس میں زہر گھل گیا نتیجتاً خاتون نے اپنے شوہر سے علٰحدگی اختیار کر لی ۔

محولہ بالا رپورٹ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انٹرنیٹ کی غیر حقیقی دنیا پر حقیقی دنیا قربان ہو رہی ہے۔ فرضی کرداروں کے سانچے میں حقیقی کرداروں کو ڈھالنے کی ناکام کوشش ہو رہی ہے۔ سچے اور آشنا دوستوں پر فرضی اور نا معلوم دوستی پر ترجیح دی جا رہی ہے۔ کبھی کبھار یہ صورت حال تمام تر حدود پار کر جاتی ہے۔اس سلسلے میں میسومہ سرینگر میں آج سے قریباً سات آٹھ سال قبل پیش آمدہ وہ واقعہ چشم کشا ہے جس میں ایک نوجوان نے اس بات پر اپنے ہی ایک دوست کا خفیہ طور پر قتل کردیا۔کہ اس نے فیس بک پر اپنے ہی دوست کی کسی غیر ریاستی اور نامعلوم خاتون دوست کے ساتھ چاٹنگ کے ذریعے روابط استوار کئے تھے۔ اور جس کی خاطر قتل ہوا اس کے حالات و کوائف دونوں دوستوں کے لئے مبہم تھے ۔ اس کے بارے میں یقنی طور نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ کون تھا نیز آیا وہ واقعی کوئی لڑکی تھی یا کوئی مرد ہی اپنے آپ کو عورت ظاہر کر رہا تھا۔موجودہ دور کے انسان کو جو احساسِ تنہائی نے آ گھیرا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ مصنوعی دنیا میں ہزاروں دوستوں کے جھرمٹ میں کھو گیا ہے اور اس کے پاس حقیقت کی دنیا میں کسی کے ساتھ آشنائی پیدا کرنے کے لئے وقت ہی نہیں۔پہلے پہل جب کوئی رشتہ داری ،آشنائی یا دوستی کے ناطے کسی کے یہاں مہمان بن کر جاتا تھا تو افرادِ خانہ مہمان کے ساتھ مل بیٹھ کر آپسی گفتگو میں محو ہو جاتے تھے۔ مگر آج صورت ِ حال یہ ہے کہ مہمان کمرے میں ہے افراد ِ خانہ اس کے سامنے بیٹھے ہیں لیکن سب اپنے اپنے موبائل،سمارٹ فون،لیپ ٹاپ کے ساتھ مگن ہے کسی کو مہمان کے ساتھ بات چیت میں کوئی دلچسپی ہی نہیں!نہ صرف مہمان کے لئے ہمارے پاس وقت نہیں بلکہ افراد خانہ کا آپسی رویہ بھی اس معاملے کچھ مختلف نہیں ہے۔ ایک ہی چھت کے نیچے رہ رہے ایک ہی گھر میں زندگی گزار رہے افراد میں قربت مفقود ہے۔ نوجوانوں اور بزرگوں کے درمیان تو نسلی بُعد(Generation gap)تو ہوتی ہی ہے لیکن انٹرنیٹ کے بے تحاشہ استعمال نے اس بُعدمیں کافی اضافہ کر دیا ہے۔

نفسیاتی اعتبار سے بھی انٹرنیٹ نے آج کے انسان کو کافی حد تک مضمحل کردیا ہے۔ آئے روز ایسے واقعات نفسیاتی خلفشار میں مبتلا انسان کے ہاتھوں معرض وجود میں آتے ہیں کہ سن کر رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ تحقیق سے یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ انٹرنیٹ کا بہت زیادہ استعمال مختلف نفسیاتی بیماریوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے۔ بعض افراد اپنے وقت کا 40فیصد سے80فیصد حصہ انٹرنیٹ کی نذر کرتے ہیں۔ اور کبھی کبار یہ دورانیہ 20 گھنٹوں پر محیط ہوتا ہے۔ اور اکثر و بیشتر افراد دنیائے انٹرنیٹ کے گم کردہ راہ ہیں۔ یعنی وہ کسی خاص مقصد اور مقررہ وقت کیلئے اس کا استعمال نہیں کرتے ہیں اس پر تصرف اور کنٹرول حاصل کرنے کے بجائے اپنا کنٹرول کھو کر اپنے آپ کو ہی اس کے حوالے کردیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کی پیچ در پیچ راہوں سے صحیح سلامت لوٹ آنا کافی مشکل ہے۔ کچھ نہیں تو کم از کم اپنی قیمتی شئے یعنی وقت کی بربادی تو طے ہے۔ انٹرنیٹ کا بلاہدف اور بے جا استعمال ایسا ہی ہے بلکہ اس سے بھی بد تر کہ کوئی شخص اپنے سفر کا ہدف و مقصد کا تعین کئے بغیر ہی آمد و رفت کے ذرایع بدلتا رہے اور دوسرے الفاظ میں اسے تو کہیں نہیں پہنچنا ہے مگر پھر وہ کبھی بس کبھی ٹیکسی کبھی آٹو اور کبھی ٹرین وغیرہ میں مصروف سفر رہے۔ اس حالت میں کہ اپنا پوری متاع زندگی لٹاتا رہے۔کیا اس مسافر کو ذہنی بالیدگی، قلبی طمانیت اور نفسیاتی آسودگی بہم ہوسکتی ہے؟

بھارت چین اور امریکہ جیسے ملکوں میں کی گئی ایک سروے کے مطابق ماہرین اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ انٹرنیٹ نے نشہ کی صورت اختیار کی ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ الکوہل ،اور دڑگس کے بعد انٹرنیٹ کی لت تیسرے درجے پر آتی ہے۔ لت کسی بھی چیز ہی ہو ہرگز اچھی نہیں ہوتی ہے۔ دیکھا جائے تواس لت کا دنیا میں ہزاروں افراد شکار ہیں-
Fida Hussain
About the Author: Fida Hussain Read More Articles by Fida Hussain: 55 Articles with 61237 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.