یہ یقینا ایک اہم و حساس معاملہ ہے
تاریخی حوالے اور بین الاقوامی قانون کے مطابق جموں لداخ وادی گلگت بلتستان
بشمول آزادکشمیر ۸۴۷۷۱ مربع میل ایک متنازعہ علاقہ ہے جس کے مستقبل کا
فیصلہ کرنے کا اختیار یہاں کے عوام کو دیا گیا جس پرابھی تک عملدرآمد نہیں
ہو سکا ۴۷ میں منظرعام پر آنیوالے مسئلہ کشمیر کے فورا بعد ایک اور متنازعہ
معائدے کے مطابق گلگت بلتستان کو مکمل طور پر پاکستان کے سپرد کر دیا گیا
جس کے بعد وہاں کے عوام پر ڈوگرہ مظالم سے زیادہ غیر انسانی’’ایف سی آر‘‘
قوانین مسلط کر دئے گئے ،گزشتہ ستر برسوں سے وہاں کے لوگوں کی اکثریت خط
غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہے یہ تعلیم صحت اور انصاف سے محروم ہیں
اور اس پر ستم کے مراعات یافتہ ایلیٹ کلاس کے جور وجبر کا سامنا بھی کرتے
ہیں ان حالات نے لوگوں کی روزمرہ کی زندگی میں مسائل کا ایسا زہر گھول دیا
ہے کہ ان کے لئے خود کو اور اپنی جواں نسل کو دور حاضر کے تقاضوں کی طرف
لانا محال ہے ۔ایسے میں پاک چین راہداری منصوبے نے اس ریجن کے علاوہ پوری
دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر دیا پہلی مرتبہ دنیا کو اس خطہ کی اہمیت کا
احساس ہوا ۔ایسے میں خطہ کے سیاستدان جو ستر برسوں سے عوامی حقوق کے نام پر
زاتی مفادات وعیش و اسائش سے لطف اندوز ہو رہے تھے انہیں پھر سے گلگت
بلتستان کے عوامی حقوق کا مروڑ پڑھنے لگا ۔در اصل یہ کبھی بھی عوامی رہنما
نہیں رہے بلکہ رہنمائی کے پردے میں عوامی امنگوں اور اقتدار اعلیٰ کو غیروں
کے ہاں گروی رکھ کر مراعات سمیٹتے والے ملازم رہے ہیں جو عوامی حقوق کا نام
تولیتے ہیں لیکن کام غیروں کے لئے کرتے ہیں اس لئے کہ ۴۷ سے آج تلک ان کے
اپنے حق حقوق تو انہیں ملتے رہے لیکن گلگت بلتستان کے لوگوں کو کچھ نہیں
ملا وہ آج بھی پتھر کے دور کی زندگی جی رہے ہیں ۔آخر یہ حقوق گلگت بلتستان
ہیں کیا۔۔؟ اور مطالبات ہیں کیا ۔۔۔؟
قارئین کرام ! ریاست پاکستان اور چین کی سرحدیں نہیں ملتی اس لئے انہیں
ہمسایہ ملک کہنا صدی کا بڑا جھوٹ ہے اس لئے کہ ان دونوں کے درمیاں متنازعہ
ملک جموں کشمیر واقع ہے ۔انہیں آپسی رابطے کے لئے جموں کشمیر کی فضائی و
زمینی حدود سے گزرنا پڑھتا ہے، حال ہی میں ان دونوں کے درمیاں ۴۷ کھرب
ڈالرز کا راہداری معائدہ طے ہوا ہے ۔یہ معائدہ پاک چین اقتصادی ترقی کے
علاوہ عالمی تجارت کے لئے بھی اہمیت کا حامل ہے ۔جس کا قطعی طور پر انحصار
سرزمین جموں کشمیر گلگت بلتستان پر ہے ۔اور اس متنازعہ علاقہ مکینوں کی
رضامندی کے بغیر ناممکن ہے آج پہلی بار ہمسایہ ممالک سمیت دنیا کو ہماری
اہمیت کا اندازہ ہونے لگا ہے اور یہ ایسا وقت ہے جو قوموں کی تاریخ میں
صدیوں میں کبھی کبھار آتا ہے جب باشعور اقوام اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دنیا
سے اپنی تمام شرائط و مطالبات منواتی ہیں لیکن ہمارے سیاستدان دنیا کی وہ
منفرد مخلوق ہیں جنہیں اس طرح کے قومی امور کا ذرہ برابر ادراک نہیں ہے اور
وہ آج بھی زاتی مصلحتوں ومفاد کی خاطر غیروں کے مقاصدکے لئے کام کر رہے ہیں
اور قوم کو پھر سے صدیوں کی غلامی میں دھکیلنا چاہتے ہیں ان حالات میں پہلے
تو ہمیں چاہے کہ ان حساس حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ستر سال سے قوم کے لئے
کینسر بنے ہوئے مسئلہ کشمیر کو اس راہداری سے جوڑ تے ہوئے وحدت کا مطالبہ
کرتے ہوئے اس پر ڈت جائیں اگر نہیں تو کم از کم اس پاک چین دوطرفہ معائدے
کو مسترد کرتے ہوئے اس راہداری منصوبے کے بنیادی فریق گلگت بلتستان کی
حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس معائدے میں بطور فریق شامل کیا جائے اور گلگت
بلتستان کے عوام کو اس راہداری منصوبے کی کل آمدن سے حصہ دیا جائے در حقیقت
یہ ہیں گلگت بلتستان کے حقیقی و جائز حقوق ۔لیکن اس قوم کی شومئی قسمت کہ
یہاں کے حکمراں وسیاستدان عجیب منطق رکھتے ہیں کہ وہ آج تاریخ کے اس اہم
ترین موڑ پر یہاں کے عوام کو اپنے تاریخی تشخص و شناخت سے دستبردار ہونے
اورپاکستان میں ضم ہو کر پاکستانی علاقے ’’فاٹا ‘‘کے مظلوم لوگوں کی طرز پر
پاکستان کا حصہ بن کر رہنے کی ترغیب دے رہے ہیں اور پاکستان میں ضم
ہونے،جعلی برائے نام صوبہ بننے کا لالی پاپ دے کر بہلانا چاہتے ہیں جو کہ
ویسے بھی مسئلہ کشمیر کے حل تک نامکمن ہے تو اس طرح گلگت بلتستان کے عوام
کو راہداری منصوبے کے کھربوں ڈالرز سے محروم کر دیا جائیگا اوربدلے میں
ملیگا ، فاٹا طرز پر ’’ایف سی آر‘‘ جیسے ظالمانہ قوانین کا تحفہ اور اس
راہداری منصوبے سے ماحولیات پر جو اثر پڑھے گا وہ ایک الگ موضوع ہے ۔اس لئے
خوابوں میں زندہ رہنے کے بجائے حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے گلگت بلتستان کے
عوام کو چاہے کہ وہ ان جھوٹے خوابوں کی تعبیر کے لئے اپنی جمع پونجی اپنے
تشخص و شناخت سے ہر گز دستبردارنہ ہوں جس کا فائدہ محض چند خاندانوں کو ہی
ہو گا جیسا پہلے ستر برسوں سے ہوتا آیا ہے اگر ایسا ہوا تو یہ گلگت بلتستان
کے عوام کے ساتھ پھر تاریخی ظلم وجبر کہلائے گا اس لئے یہ ریاست کے تمام
قلماروں کالم نگاروں دانشوروں کی جملہ زمہ داری ہے کہ وہ گلگت کے مظلوم و
محکوم عوام کی رہنمائی کریں اوران پر ہونے والے اس جبر سے بچانے میں اپنا
کردار ادا کریں ۔ورنہ ہمیشہ کی طرح چند خاندان اپنے آسائش کی خاطر اس
سرزمین پر بسنے والے لوگوں کی قیمت لگانے میں دیر نہیں کریں گے ۔
|