خالق کائنات نے سب سے پہلے آسمان سے پانی
اتارا اور پانی پہ حاکمیت قائم کی ۔ چونکہ پانی سے ہی زندگی کی ابتدا ہوئی
اور ہر ایک زندہ چیز کو پانی سے پیدا کیا گیا ۔ جہاں پانی نہ رہا وہ
آبادیاں وہ شہر کھنڈرات میں تبدیل ہوگئے ۔ چونکہ پانی کے بغیر زندگی کا یہ
نظام کسی صورت میں قائم نہیں رہ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ خالق ِکائنات نے ایک
حکم کے تحت تما م دریاؤں اور ندی نالوں کو انسا ن کے تابع بنادیا اور جن
کوجہاں مملکت کا نظام چلانے کی ذمہ داری سونپی جائے اُن پہ یہ ضرض عائد ہے
کہ وہ آخری کونوں تک پانی کی ترسیل یقینی بنائے ۔ لیکن بعض بھٹکے ہونے
انسان قانونِ فطرت کے برعکس خالق ِکائنات کے اس ابدی نظام کو تباہ کر رہے
ہیں ۔ اگر چہ ان غیر قانونی انسانی سرگرمیوں کو ہنگامی بنیا د پہ نہ روکا
گیا تو یہ قبیح عمل دنیا کی تباہی کا سبب بن سکتاہے ۔ سیارہ مریخ پہ ہونے
والی جدید تحقیق کے بعد امریکی سائنسدانوں نے کہا ہے کہ وہاں کسی دور میں
پانی کی موجودگی کے آثار ملے ہیں۔ اس سے ظا ہر ہوتاہے کہ وہاں کسی دور میں
پانی موجودتھا۔ اگر کسی زمانے میں وہاں پانی رہاہے تو زندگی بھی ہوگی ۔لیکن
پانی ختم ہوتے ہی یہ زندگی موت کا شکار ہوکر نیست و نابو د ہوگئی ۔ آج دنیا
بھر کے سائنسدان یہ واضح طورپر کہہ رہے ہیں کہ اگرچہ ہم نے توجہ نہ دی تو
ہمارا حال بھی مریخ جیسا ہی ہوگا ۔اگریہاں پانی ختم ہوجائے گا تو زندہ رہنا
محال ہوجائے گا ۔ ماہرین نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ وقت آنے والا ہے پانی تیل
سے بھی مہنگا ہوجائے گا ۔تاکہ انسان نے تیل کے کئی متبادل تلاش کر لیے ہیں
۔لیکن پانی کا کوئی متبادل نہیں ۔ پوری دنیا پانی کی کمی کا یہ مسئلہ حل
کرنے میں کوشاں ہے ۔2ارب 80کروڑ انسان پانی کی شدید قلت کا شکا رہیں ۔ اکثر
ممالک نے اپنے اپنے قوانین میں پانی کو قیمتی سرمایہ قرار دے دیا ہے ۔ اس
ضمن میں اقوام ِمتحدہ کی جنرل اسمبلی کے منعقدہ اجلاس 22مارچ 1992ء کو ایک
متفقہ قرار داد کے تحت یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ہر سال 22مارچ کو پانی کا
عالمی دن منایا جائے ۔ جس کے تحت 1993ء میں پہلی بار 22مارچ کو پانی کا
عالمی دن منایا گیا اور بااتفاق رائے یہ فیصلہ طے پایا گیا کہ ہرسال دنیا
بھر میں پانی کی اہمیت و افادیت پانی کے وسائل کی ترقی او رذخیرہ کرنے کی
ضرورت کے بارے تحریری لٹریچر ، دستاویزی فلموں ، گول میز کا نفرنس او ر
سیمنارز منعقد کیئے جائیں گے ۔ تاکہ لوگوں کا شعور اجاگر کیا جاسکے ۔ اقوام
ِمتحدہ نے پانی کے انتظام و انصرام کے متعلق باقاعدہ ایک روڈ میپ دے دیاہے
۔ اگرچہ پاکستان میں پانی کا مسئلہ زندگی اور موت کی حیثیت اختیارکرچکاہے ۔
یہاں ماضی کے حکومتوں نے ہی اس انتہائی اہم اور سنگین مسئلہ کے طرف قطعاً
کوئی توجہ نہیں دی ۔ موجودہ حکومت ورلڈ سپیشل تھیوری کے تحت قائم ہوئی ہے
۔گذشہ سال سینٹ کے اجلاس میں یہ واضح کردیاگیا ہے کہ پاکستان نے امریکہ سے
30کھرب روپے لے کر امریکی ایجنڈا آگے بڑھایا ہے ۔جس کے تحت مستقبل میں ایسے
حالات پیدا کردیئے جائیں گے کہ پاکستان بجلی کے ساتھ پانی ہی بھارت سے حاصل
کرنے پر مجبور ہوجائے گا ۔ حالانکہ چین کی ایک سرکاری پاور کمپنی نے
پاکستان میں ہائیڈروالیکٹرک پاور پراجیکٹس میں50ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی
پیشکش کی ہے ۔ یہ رقم پاک چین اقتصادی راہداری کے 46ارب ڈالر کے منصوبے سے
ہی بڑھ کر ہے ۔اس پیشکش کی منظوری کے بعد چین دریائے سندھ پر 40ہزار
میگاواٹ بجلی پید ا کرنے کا منصوبہ شروع کردے گا ۔ جبکہ پاکستان میں دریاؤں
پرایک لاکھ میگاواٹ بجلی پیداکرنے کے مواقع موجودہیں ۔جیساکہ 59ہزار میگا
واٹ بجلی پیدا کرنے کے مقامات کی نشاندہی بھی کی جاچکی ہے ۔ اگرچہ فی الفور
یہ منصوبے شروع کردیئے جائیں تو بھارت اپنی حدود میں پاکستان کے دریاؤں پر
ڈیم بنانے کا جواز کھو بیٹھے گا۔ دنیا کے نامور آبی ماہرین اور بھارتی
انسٹی ٹیوشن آف انجینئرز نے یہ تصدیق کردی ہے کہ بھارت 2020ء تک پاکستان کی
طرف بہنے والے دریاؤں کا پانی مکمل طورپر اپنی حدود میں بند کرسکتاہے ۔ ایک
عالمی این جی او نے یہ بھی کہا ہے کہ بھارت2017ء تک پاکستان کے دریاؤں پر
58ہزار 573میگاواٹ کے 146آبی منصوبے مکمل کرلے گا ۔ یہ واضح حقیقت ہے کہ
بھارت ابتدا سے سندھ طا س معاہد ہ کی غلط تشریح کرتے ہوئے جنگی بنیاد پر
کشمیر اور کارگل کی جانب سے پاکستان کی طرف بہنے والے باقی ماندہ دریاؤں
چناب ، جہلم سندھ اور ان کے معاون ندی نالوں پر غیر قانونی ڈیم بنانے ،
بیراج تعمیر کرنے اور بڑی بڑی نہریں نکال کر ان دریاؤں کو اپنے دریاؤں کے
ساتھ لنک کرنے کے متعلق ایک ہائی میگاواٹر پلان پر کام کررہا ہے۔ جس کی
تکمیل کے بعد بھارت ان دریاؤں کا رخ شمال سے جنوب کی طرف موڑنے کی مکمل
صلاحیت حاصل کرلے گا ۔ اور جب ان دریاؤں کا پانی مکمل طورپر بھارت کے ہاتھ
میں آجائیگا تو ایٹمی صلاحیت کے باوجود ہمیں بھارت کی تھانیداری قبول کرنا
پڑے گی ۔ اس ضمن میں پاکستان کے 20کروڑ انسانوں کی آزادی اور زندگی کا سب
سے بڑا اور انتہائی اہم مسئلہ دریاؤں کا پانی ہے ۔ عالمی حالات سے باخبر
مبصرین نے کئی بار پاکستان کو انتباہ کیا ہے کہ پاکستان آبی وسائل کے دفاع
کی طرف توجہ دے ۔ آج سے 20سال قبل یہ مسئلہ ہنگامی بنیاد پرحل طلب تھا
۔لیکن ماضی کی حکومتوں نے اس انتہائی اہم اور سنگین مسئلہ کو التواء میں
ڈال کر ملک وقوم کے ساتھ غداری کی ہے ۔ آج ایک دن کی تاخیر ہی قومی خودکشی
کے مترادف ہوگی ۔ ملک بچاناہے تو ابھی اور اسی وقت پانی کا یہ مسئلہ آئین
میں ملک کا حساس ترین معاملہ قرار دے دیا جائے ۔ چونکہ جس طرح کسی دور میں
نیوکلیئر ٹیکنالوجی کا حصول پاکستان کیلئے اشد ضروری تھا ۔ آج قومی آبی
وسائل کا دفاع اس سے بھی کہیں زیادہ ضروری ہوچکاہے ۔
جس طرح بھارت اپنی جغرافیائی اہمیت اور اپ سٹریم پر ہونے کے باعث سندھ طاس
معاہدہ کو بلڈوز کرتے ہوئے پاکستان کے دریاؤں کو اپنی حدودمیں بند کرنے کے
منصوبوں پر عمل پیرا ہے ۔اگرچہ عالمی عدالت انصاف میں یہ مسئلہ اٹھایاجائے
تو بھارت زیر تعمیر غیر قانونی ڈیموں پر موجود تعمیراتی سامان اور مشینری
اڑا کر دہلی بھاگ جائے گا۔ لیکن اب تک بھارت جو ڈیمز تعمیر کرچکا ہے یا
80فیصد تعمیر مکمل ہونے کے قریب ہے اس سے پاکستان اپنے حصہ کے 55فیصد سے
محروم ہوجائے گا ۔یہ سب کچھ ریکارڈ پر موجود ہے کہ وہ 28سال سے اس کوشش اور
جدوجہد میں ہیں کہ پاکستان کی زندگی کا یہ انتہائی اہم مسئلہ قومی دھارے پر
لایا جائے لیکن اب ہماری اس کوشش پر ہی قدغن لگا دیا گیا ہے اور ایک خفیہ
ہاتھ ہمہ وقت ان کے تعاقب میں کسی وقت ہی کوئی حادثہ پیش آسکتاہے ۔ چونکہ
بھارت جس رفتار سے پاکستان کی طرف بہنے والے دریاؤں چناب ، جہلم ، سندھ اور
ان کے معاون ندی نالوں کو اپنی حدود میں بند کررہاہے ۔یہ پاکستان کا وجود
ختم کرنے کے لیے ایک عالمی سازش ہے ۔ بھارت کی اس آبی جارحیت کے خلاف ان کی
جدوجہد سے عالمی سطح پر بھارت کا امیج بری طرح متاثر ہوا ہے ۔ جب ان کی
میڈیا مہم سے غیر قانونی بھارتی ڈیموں کا سکینڈل منظر عام پر آیا تو بھارت
کے اندر کھلبلی مچ گئی ۔ عالمی مبصرین اور وہاں کے دانشور شہریوں اور انسان
دوست تنظیموں نے واضح کہا ہے کہ عالمی امن عامہ کے خلاف یہودی لابی کی ایک
گھنا ؤنی سازش ہے ۔ بھارت نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے لوگ
دبئی بینکوں سے بھاری رقم لے کر ایسا کرنے کی خود اجازت دے رہے ہیں ۔ عالمی
میڈیا کے حوالہ سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ بھارت اس سلسلے میں اندرونی رائے
عامہ ہموار کرنے کے لیے پانی کے نام سے ایک فلم ریلیز کررہاہے ۔ جس میں
پانی کی اہمیت کو اجاگر کیا گیاہے کہ آنے والے وقتوں میں پانی کس قدر قیمتی
ہوجائے گا ۔ اس محاذ پر ہی وہ کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ انٹرسنیشنل
لاء کے تحت ان دریاؤں پر پہلا ابدی حق پاکستان کا ہے ۔ دنیا کا کوئی معاہد
ہ اور قانونی زندگی بچانے کے لیے پانی اور آکسیجن ہرگز نہیں روک سکتا۔
انسانی آبادیوں کی طرف جانے والا پانی روکنا زندگی ختم کرنے کا عمل اور
عمداً انسانی قتل ہے ۔ قیام پاکستان کے موقع پر قائداعظم محمد علی جناح، ؒ
وائسرائے ہند لا رڈ اماؤنٹ بیٹن اور جواہر لال نہرو کے مابین یہ طے پایا
گیا تھاکہ دریاؤں کے نظام میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ۔انٹرنیشنل لاء کے
تحت جس طر ح دریا بہہ رہے ہیں اسی طر ح بہتے رہیں گے ۔ خواہ ہیڈورکس ملک
میں واقع ہوں گے۔ چونکہ بہتے دریاؤں کو کسی صورت میں بند نہیں کیا جاسکتا ۔
نہ ان کا رخ موڑا جاسکتاہے ۔ اس طرح 28جولائی 1947ء کو لاہور سول سیکرٹریٹ
کے کمیٹی روم میں ایک اجلاس کے بعد پاکستان اور بھارتی وفد کے مابین گپ شپ
چل رہی تھی تواس موقع پر سردار شوکت حیات ٹوانہ نے بھارتی وفد کے سربراہ
سردار سورن سنگھ کو کہا ہے کہ سردار جی تسی ساڈا پانی تے بند نہیں کردیو گے
تو سورن سنگھ نے کہا کہ کی گل کردے او بھلاکدی کسی نے بھراواں دا پانی وی
بند کیتا۔چونکہ ہر اجلاس ہر موقع پر پانی کی تقسیم کے حوالہ سے اس نقطہ پر
اتفاق کیا گیا تھاکہ دریاؤں کا پانی جس طرح استعمال ہورہا ہے ۔ پانی کا یہ
انتظام اس طرح قائم رہے گا۔ جیساکہ پاکستان اور بھارت کے مابین مستقبل کے
تنازعات طے کرنے کیلئے جوٹربیونل تشکیل دیا گیا تھا اس کی مدت 31مارچ 1948ء
مقر رتھی ۔یہ ٹربیونل 8ماہ قائم رہا۔ لیکن پانی کی تقسیم کے متعلق اس
ٹربیونل میں کوئی ریفرنس دائر نہیں کیا گیا۔ پاکستان کی تقسیم کمیٹی کے رکن
سردار شوکت حیات ٹوانہ نے صرف ایک ریفرنس دائر کیا۔لیکن وہ بھی پانی کی
تقسیم کے متعلق نہ تھا ۔بھارت نے 5ریفرنس دائر کیے وہ بھی پانی کے حوالہ سے
نہ تھے ۔ چونکہ وائسرائے ہند لارڈماؤنٹ بیٹن پہلے ہی یہ واضح کر دیا
تھاباراسلونا کنونشن 1921ء کےء مطا بق کسی بھی ملک کو ایسے دریاؤں کا پانی
روکنے یا پانی کا رخ تبدیل کرنے کا قطعی کوئی حق حاصل نہیں جوکسی ملک کی
سرحد عبور کرکے دوسرے ملک میں داخل ہوجاتے ہیں ۔ بھارت ہی با راسلو نا
کنونشن کا باقائدہ رکن تھا ۔جیساکہ 250دریا ایسے ہیں جو ایک سے زائد ممالک
کے تصرف میں ہیں ۔ دنیا کے چالیس فیصد لوگ پڑوسی ممالک سے بہ کر آنے والے
پانی سے اپنی زندگی سیراب کررہے ہیں ۔ بار اسلو نا کنونشن کے تحت کسی ملک
کو ان دریاؤں کا پانی استعمال کرنے کی اجازت نہیں ۔ جب تک اس کے پڑوسی ملک
کی زمینیں سیراب نہ ہوسکیں ۔ یہ بھارت کی عالمی بدعہدی بین الاقومی قوانین
اور عالمی اصولوں کی صریحاً خلاف ورزی ہے کہ یکم اپریل 1948 ء کو بھارت نے
مادھو پور ہیڈورکس سے پاکستان کا پانی بند کر دیا ۔ جس سے دو بڑی نہریں اپر
باری دو آب اور دیپال پور کینال کے ساتھ گیا رہ چھوٹی چھوٹی نہریں بھی بند
کردی گئیں ۔ جن سے پاکستان کی لاکھوں ایکڑ آراضی سیراب ہوتی تھی ۔یکایک
پانی کی بندش سے یہاں ایک دوسرا کربلا برپا ہوگیا ۔ ہنگامی بنیاد پر سفارتی
کوششوں اور اقوام ِمتحدہ کی مداخلت سے 4مئی 1948ء کو دونوں ممالک کے مابین
ایک مشترکہ بیان تحریر کیاگیا ۔ جس میں یہ طے پایا گیا تھا نئے نظام کی
تشکیل بھارت پاکستان کا پانی ہرگز نہیں روکے گا ۔ چونکہ بھارت اوپر کی سطح
پر ہے ۔ بین الاقوامی قوانین اور عالمی اصولوں کی رو سے پاکستان کی طرف
بہنے والے مشرقی اور مغربی دریاؤں پر پاکستان کا ابدی حق ہے ۔ لیکن اس دور
میں ہی پاکستان کے قائدین آپس میں اقتدار کی جنگ میں مگن رہے ۔اور بھارت نے
ڈرا مائی اورچالاکی کے انداز میں 10مئی 1950ء کو یہ مشترکہ بیان معائد ہ کے
طور پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے پیش کردیا ۔ حکومت پاکستان نے تصدیق
نامہ کیساتھ سیکرٹری جنرل کو واضح کیا کہ یہ مشترکہ بیان ہے ،معاہدہ نہیں ۔
چنانچہ ایک عارضی بیان کو معاہد ہ میں تبدیل کردینے کی صورت میں ابہام پید
ا ہوگیا ۔ بھارت کے یہی رویے سے تنگ آکر پاکستان نے عالمی عدالت انصاف سے
رجو ع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ لیکن امریکہ بیچ میں آگیا ۔ اس نے حکومت
پاکستان کو مجبور کر دیا کہ یہ معاملہ ورلڈ بینک کے سپر د کردیاجائے ۔ ورلڈ
بینک کے دباؤ میں آکر ایک کربناک صورت حال کے پیش نظر 19ستمبر 1960ء کو
سندھ طاس تسلیم کرنا پڑا ۔اگرچہ پاکستان میں اس سلسلے میں عالمی عدالت
انصاف میں جاتاتو مشرقی دریاؤں ستلج ، بیاس اور راوی کا بہاؤ قدرتی بنیاد
پر جاری رہتا۔ اور بھارت صرف 8ملین ایکڑفٹ پانی حاصل کرنے کا مجاز تھا ۔ یہ
ہماری کرپٹ اسٹیبلشمنٹ کی کارستانی ہے کہ صرف 174ملین ڈالر میں پاکستان کے
تین مشرقی دریا بھارت کو بیچ دیئے گئے ۔ 9ملین ایکڑ فٹ پانی جو دریاؤں کی
تہذیب آبی حیات اور جنگلی جانوروں کے لیے مختص ہونا چاہیے تھا ۔ بھارت نے
اپنی جغرافیائی اہمیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے ہی پاکستان کو محروم
کردیا گیا ۔ آج ہم اس تاریخ کے گواہ ہیں کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ستلج
دریا صحرا میں تبدیل ہورہاہے ۔عظیم ستلج ویلی کی تہذیب مراور مٹ رہی ہے ۔یہ
اس قدر بڑا خوفناک علمیہ ہے ۔اگرچہ اس موقع پر خاموش رہے تو اس سے بڑ اکوئی
جرم نہ ہوگا ۔ ایک تہذیب کی موت یا اس کا قتل ایک انسان کا نہیں بلکہ یہ
موت کروڑوں انسانوں کے ساتھ آبی حیات ، جنگلی جانوروں ، چرند پرند ،نباتات
اور جمادات کی بھی ہے ۔ مجھے اس بات کا علم ہے کہ ا س کی وجہ سے بہاولنگر
سے رحیم یا رخاں تک آج سے 20سال قبل وہاں کے زمیندار بادشاہ تھے ۔لیکن آج
ہو گدا گھر ہے ۔ کراچی کے سیٹھوں کے گھر وہ اوران کی مستورات نوکری کر ہے
ہیں ۔ ستلج اور راوی مراورمٹ گئے آب ان کی تہذیب ہی مٹ رہی ہے ۔2001ء سے لے
کر 31دسمبر2008ء تک چولستان کے علاقہ میں پینے کیلئے پانی کی عدم دستیابی
کے باعث ملتان کے ایک ایم پی اے سمیت 4696افراد موت کا لقمہ بنے ۔لاکھوں
حیوانات جنگلی جانوروں چرند پرند ،نباتا ت اور جمادات کی تباہی ہورہی ہے
۔سندھ طا س معاہدہ کے تحت ستلج اور دریائے روی کی خاموشی کا مظاہر ہ کیا
گیا ۔ وہاں کے اکابرین اور اراکین اسمبلی کو زبر دست احتجاج کرنا چاہتے تھے
۔ ستلج ویلی کا نوحہ اس قدر سخت لب و لہجہ کے ساتھ بیان نہیں کرنا چاہتا
۔لیکن جس قدر تباہی ہورہی ہے ۔حقائق بیان نہ کرنا ہی جرم کے زمرے میں
آتاہے۔
|