شہزادے جھوٹے ہیں۔ ؟
(ajmal malik, faisalabad)
اُس ریاست اور اس کے جنگل میں ہر جگہ پر شیرکا راج تھا۔ شیرگوشت چھوڑ کر۔آٹا۔چینی۔ گھی حتی کہ خزانہ کھانے لگا تھا۔اچانک ایک سر پھرا ۔دیوانہ جنگل میں آگیا ۔ وہ شیر کے سامنے تنہا کھڑا تھا۔ اُس نے شور مچایا تو شیر کانپ گیا۔شور سن کر کئی اور پاگل بھی جمع ہونے لگے۔نورتن ۔اُس دیوانے پرافیمی اورکئی غیر اخلاقی الزام لگاتے تھے۔لیکن رعایادیوانے کے ساتھ ملتی گئ اور قافلہ بنتا گیا۔ ریاست اور خزانہ بچانے کی آواز میں شدت آچکی تھی۔مجبورا ۔بادشاہ ۔اپنی۔اورشہزادوں کی انکوائری منصف اعلی سے کرانےپر مان گیا۔
شاگرد:استاد جی پھر کیا بنا ۔؟ |
|
|
جھوٹ سے چُھپنے کا طریقہ |
|
پیارے بچو۔!
ایک بادشاہ تھا۔وسیع و عریض سلطنت کا مالک۔خزانوں سے بھری ہوئی سلطنت۔لیکن
سارے خزانے مدفن تھے۔’’زندہ‘‘ خزانے حواری کھا پی چکے تھے۔ بادشاہ ۔تیسری ۔رسم
تخت پوشی سے قبل مدفن خزانوں کو نکالنے کی باتیں اکثر کرتا تھا۔تخت طاؤس پر
بیٹھتے ہی ۔سب کچھ بھول گیا۔خزانہ یوں دفن رہ گیا تھا گویاتجہیز وتکفین
کرکے دبایا گیا ہو۔بادشاہ کی یاداشت’’پی کے ‘‘فلم کے ہیرو عامر خان کی طرح
شارٹ ہو گئی تھی۔اس کے پاس ایک کیمرہ تھا۔ جو۔نو۔رتنوں کی تصویریں کھینچ
کربند ہو گیا تھا۔ دربار میں کوئی اور داخل نہ ہوسکتا تھا۔زنجیر عدل ٹوٹ
چکی تھی۔قانون گھر کی لونڈی تھا۔انصاف وہاں کی مہنگی ترین جنس تھی۔خزانہ
طوائف کی طرح مسلسل اُجڑ۔ رہا تھا۔گِدھ آج بھی لاشے پر اڈاریاں مار ۔رہے
تھے۔ راجہ ٹوڈر مل کی بصیرت خزانہ ۔جواب دے چکی تھی۔ بادشاہ کے سر پراقتدار
کا ہما تیسری بار آ بیٹھا تھا۔جی جی کرنے والے درباریوں کی تعداد بھی اچھی
خاصی تھی ۔ باادب ۔ باملاحظہ ۔ہوشیار پکارنے والے۔رتن بھی کافی تھے۔اوردین
اکبری ایجاد کرنے والے۔ابو الفضل بھی کافی۔ خربوزوں کی راکھی گیدڑ بیٹھے
تھے۔شجریہ سایہ دار کو کاٹ کاٹ کرکھایا جا رہا تھا۔ ریاستی ہمسائے پورے
پھنئیر سانپ تھے ۔ زہر افشانی کرنے والے۔بادشاہ پر بھی آستین میں سنپولئے
پالنے کا الزام تھا۔ اندر اور باہر سے مسلسل شورش برپاتھی ۔خزانہ ٹکے ٹوکری
ہو چکا تھا۔جنگ و جدل کے لئے جھولی پھیری جا رہی تھی۔
بچے:استاد جی ۔رعایا کے حالات کیسے تھے۔؟
استاد:ایک آدمی کسی پارک سے گزرا تو ایک شخص الٹا لیٹا گانا گا رہا ہے۔
’’جدا ہو کے بھی تو مجھ میں ابھی باقی ہے۔‘‘
تھوڑی دیر بعدآد،ہ بادشاہ لوٹا تو وہی شخص سیدھا لیٹ کر گار ہا تھا۔’’تڑپ
تڑپ کے اس دل سے آہ نکلتی رہی۔‘‘
آدمی : پہلےالٹے لیٹے کرکچھ اور گانا گا رہے تھے۔اب سیدھے لیٹ کرنیا گانا
۔ کیوں۔؟۔۔جواب ملا’’یہ ریکارڈ ہےکی دوسری سائیڈ ہے بھئی‘‘
استاد جی بولے۔سلطنت میں رعایا کی ہر سائیڈ بج رہی تھی۔یہ بھوکوں کی سلطنت
تھی۔ نیچے والوں کی نسبت اوپر والے زیادہ بھوکھے تھے۔بڑے دہنوں والے۔ رعایا
کا خون چوس چوس کر ساری جونکوں کے دہن تازے تھے۔ یہی خون سستا ترین تھا۔ جب
سرمایہ دار کا جی چاہتا ۔بلڈ ٹرانسپلانٹ کر وا لیتا۔وہاں جنس ۔ پراپرٹی کی
طرح بکتی تھی۔انار کلیاں ۔آزادتھیں۔ رشوت ، سفارش اور اقربا پروری کا
بازار گرم تھا۔مالی اور مادی ضابطے توڑنا عام تھا۔کرپشن آکاس بیل کی طرح
ریاست کو گود لے چکی تھی۔گولے کی کُل175ریاستوں میں اُس سلطنت کا کرپشن میں
نمبر127واں تھا۔ وہاں اخواص کے خزانے ہمارے گڑوں کی طرح ابل رہے تھے۔ نو
رتن بڑھ کر نو سو ہو چکے تھے۔لٹیروں کا شعار’’نرم دم گفتگو گرم دم
جستجو‘‘والا تھا۔بادشاہت۔ آمریت جیسی تھی۔وہاں تان سین کا اقبال سب سے
بلند تھا۔ گانےوالے بھی عام تھے بجانے والے بھی۔ناچنے والیوں کے اللے
اٹھائے جاتے تھے۔ابو الفضل جیسےعلما نے قوم کو دین کے بجائے اپنے پیچھے لگا
رکھا تھا۔
طالبعلم :استاد جی ۔عالم کی۔کوئی مثال تو دیں۔؟
استاد :محبت کی شادی کرنے کی خواہش مند ایک لڑکی نے مولوی سے پوچھا اگر میں
کسی رشتہ دار سے پیار کروں تو مجھےآخرت میں کیا ملے گا ؟ وہ بولے دوزخ ۔
لڑکی: اور اگر میں کسی غیر مرد سے پیار کروں تو ؟
مولوی صاحب :استغفراللہ ۔یقیناً دوزخ ۔
لڑکی بولی : اور اگر میں آپ سے پیاررر۔۔ ؟مولوی نے داڑھی پر ہاتھ پھیر کر
کہا : چالاکو ۔۔ سیدھا جنت جانا چاہتی ہو۔
وہاں رعایا اور علما کے جنت جانے کے میرٹ الگ الگ تھے۔ڈیڑھ اینٹ کی مسجد
بھی جگہ جگہ بنی تھی۔چوری پر ہاتھ کاٹنے کا
نظام وہاں کیسے آتا۔بادشاہ کے دو بیٹے تھے۔دونوں شہزادوں کو صرف ایک ہی
سبق آتا تھاکہ’’ اتفاق‘‘ میں برکت ہے۔انار کلیوں سے کوئی لگاؤ نہ تھا۔ہیرے
جواہرات میں کھیلتے تھے۔ان کا۔کاروبار پتہ نہیں کیا تھا لیکن چمکتا خوب تھا۔
سلطنت کا دیوالیہ نکل چکا تھا۔شہزادے دربار تو کیا سلطنت میں بھی بہت کم
آتے تھے۔بادشاہ کہتا تھا میری دولت کئی بار لوٹی گئی۔ لیکن خزانہ تھا کہ
آب زم زم کا کنوئیں۔کبھی خشک نہ ہوا۔ اچانک شہزادوں پر خزانہ لوٹنے کا
الزام لگ گیا۔رعایا انہیں جھوٹا کہنے لگی۔ شہزادے جھوٹ کو سچ بنانے میں
مصروف ہو گئے۔پھر ۔ ؟ شاگرد نے پوچھا۔
استاد جی:ایک بچہ اول درجے کا جھوٹا تھا۔اس جھوٹے کا سب کو پتہ تھا۔ایک دن
باپ بولا ۔۔بیٹے۔۔اگرتم فورا کوئی جھوٹ بولو تو میں سو روپے دوں گا۔
بیٹابولا:ابا۔۔صبح تو دو سو کہا تھا ۔
جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے۔ بچو۔!۔یہ ریاست جھوٹوں پر قائم تھی۔بادشاہ اپنی
چالاکی سےدو سال پہلےایک مزاحمت کچل چکا تھا۔ریاست میں دوسری بارشورش اٹھی
تھی۔سپاہ سالاراپنی سپاہ کے ساتھ داخلی محاذوں پر مصروف تھا۔راج دھانیاں
اپنا اپنا چورن بیچنے لگی تھیں۔ایلچی۔سات سمندر پار سے۔شہزادوں کے نامہ
اعمال بھجوا رہے تھے۔ غیر قانونی کمائیوں کا بھانڈا پھوٹ چکا تھا۔جھوٹ افشا
ہونے پرنو رتن سر جوڑے بیٹھے تھے۔اس باربادشاہ کو ایک اور دریا کا سامنا
تھا۔دل قومی خزانے کی طرح مسلسل گھٹنے لگا تھا۔بیر بل اور ملا دو پیازہ
لطیفے سناسناکر تھک چکے تھے۔لیکن مرض بڑھتا رہا جوں جوں دوا کی۔چین اک پل
کا نہ تھا۔شاہی طبیب حاضر کیا گیا۔اس نے ٹٹول کر بتایا کہ جگر چھلنی ہے۔دل
لہو لہو ہے۔وزیر باتدبیر نے بتایا کہ ریاست میں اچھے معالج نہیں ہیں اور
راجہ ٹوڈر مل نےسمندر پار علاج کا مشورہ دے کرامان پائی ۔وہاں پہلے بھی کئی
بیمار بیٹھے تھے۔۔۔وہاں رعایا کا علاج کیسے ہوتا تھا۔؟ شاگر د نے پوچھا۔
استاد:کیمسٹ کی دکان میں ایک ہکلا آدمی گیا اور پوچھا ہچکیاں روکنے کی
کوئی دوا ہے ۔؟
کیمسٹ کاونٹر کے پیچھے سےآیا اورہکلے کے کانوں پر ٹکا کر دی۔ گردن پر زور
سے مکا مارا
آدمی(غصےسے):اوئے۔مجھ کیوں مارا ۔؟
کیمسٹ:ہچکی کی کوئی دوا نہیں ہوتی اس کا ٹوٹکا ہوتا ہے۔ آپ سنائیں آفاقہ
ہوا یا نہیں۔
آدمی :ہکلاتے ہوئے۔ ہچکی مجھے نہیں میری بیوی کو لگی ہے۔
استاد جی بولے :قوم کاعلاج اندازوں ۔ٹوٹکوں سے ہو رہا تھا۔رعایا کی زندگی
جانوروں جیسی تھی۔ وہاں جنگل کا قانون تھا۔ ریاست اور جنگل۔ہر جگہ پر شیرکا
راج تھا۔ شیرگوشت چھوڑ کر۔آٹا۔چینی۔ گھی حتی کہ خزانہ کھانے لگا تھا۔اچانک
ایک سر پھرا ۔دیوانہ جنگل میں آگیا ۔ وہ شیر کے سامنے تنہا کھڑا تھا۔ اُس
نے شور مچایا تو شیر کانپ گیا۔شور سن کر کئی اور پاگل بھی جمع ہونے
لگے۔نورتن ۔اُس دیوانے کوافیمی کہہ چکے تھے کئی اور غیر اخلاقی الزام بھی
لگاتے تھے۔لیکن رعایادیوانے کے ساتھ ملتی گئ اور قافلہ بنتا گیا۔ ریاست اور
خزانہ بچانے کی آواز میں شدت آچکی تھی۔مجبورا ۔بادشاہ ۔اپنی۔اورشہزادوں
کی انکوائری منصف اعلی سے کرانےپر مان گیا۔
شاگرد:استاد جی پھر کیا بنا ۔؟
استاد:ایک مالکن نے اپنی ملازمہ کی خوبصورتی سے خوفزدہ ہو کر اسےنکال دیا۔
اور ملازمہ کی دلجوئی کے لئے الوداعی جملے بولی۔
مالکن :مجھے پتہ ہے کہ صاحب کو تمہارے ہاتھ کا کھانا بہت پسند ہے۔ سوچتی
ہوں ان کی پسندیدہ ڈشیں اب کون بنائے گا ۔؟
ملازمہ :بیگم صاحبہ آپ بلکل پریشان نہ ہوں ۔ کیونکہ صاحب بھی میرے ساتھ ہی
جا رہے ہیں۔
شاگرد:استاد جی ۔ لطیفے کا ریاست سے تعلق سمجھ نہیں آیا۔؟
استاد:آج کی کلاس برخاست۔ آپ بس اتنایاد رکھیں۔دیوانے کے ساتھ ابھی رعایا
کی تعداد کم ہے۔!
|
|