او آئی سی کا دوسرا نام :نششتن ،گفتن اور برخاستن
(Shams Tabrez Qasmi, India)
اسلامی تعاون تنظیم اقوام متحدہ کے بعد
دنیا کی دوسری سب سے بڑی بین المملکتی تنظیم ہے جس میں مشرق وسطی، شمالی،
مغربی وجنوبی افریقہ، وسط ایشیا، یورپ، جنوب مشرقی ایشیا ، برصغیر اور
جنوبی امریکہ کے 57مسلم اکثریتی ممالک شامل ہیں، افغانستان ،الجزائر،
البانیا، آذربائیجان، بحرین، بنگلہ دیش، بینن، برکینا فاسو، برونائی،
کیمرون، چاڈ ،اتحاد القمری، کوت داوواغ، جبوتی، مصر گیبون، گیمبیا ،جمہوریہ
گنی، گنی بساؤ، گیانا، انڈونیشیا ،ایران، عراق، اردن، کویت ،قزاقستان،
کرغیزستان، لبنان ،لیبیا ،مالدیپ، ملائشیا، مالی، موریتانیہ، مراکش،
موزمبیق ،نائجر، نائجیریا، عمان، پاکستان، فلسطین ،قطر ،سعودی عرب ،سینیگال،
سیرالیون، صومالیہ، سوڈان، سرینام، شام ،تاجکستان، ترکی، تیونس، ٹوگو،
ترکمانستان، یوگنڈا، ازبکستان، متحدہ عرب امارات، یمن۔اس کے علاوہ مشاہدین
کے طور پر بھی کئی ممالک شامل ہیں ،ہندوستان بھی تیسرا سب سے بڑا مسلم
اکثریتی ملک ہونے کی وجہ سے گذشتہ کئی سالوں سے اس کی رکنیت کا خواہاں ہے
لیکن پاکستان راہ میں حائل ہے اور اپنے مفادات کی خاطر وہ ہندوستان کورکنیت
نہیں دینے دے رہاہے ۔ اس کے علاوہ فلپائن ،سری لنکا ،نیپال ،جمہوریہ کانگو
اور سربیاجیسے ممالک بھی او آئی سی میں اپنی شمولیت چاہتے ہیں ۔
21 اگست 1969 میں مسجد اقصی پر یہودی حملے کے بعد عالمی سطح پر مسلمانوں
کیلئے ایک متحدہ پلیٹ فارم ی تشکیل کا خاکہ پیش کیا گیا اور اگلے ہی ماہ
25ستمبر 1969ء کو مراکش کے شہر رباط میں ایک اسلامی تعاون تنظیم کا قیام
عمل میں لایا گیا ،جسے Organisation of Islamic Cooperation میں کہاجاتاہے
اور عربی میں اس کا نام‘‘ منظمۃ التعاون الإسلامی‘‘ ہے۔اسلامی تعاون تنظیم
کے قیام کا مقصد امت مسلمہ کے مسائل کا حل کرنا ، دنیا بھر کے مسلمانوں کی
سیاسی ،سماجی ،اقتصادی اور تعلیمی پسماندگی کا جائزہ لینا ، مسلمانوں کی
خبر گیری کرنا ،ان پر ہونے والے ظلم وزیادتی کے خلاف آواز اٹھانا اور قیادت
ورہنمائی کا فریضہ انجام دینا ہے ،ان سب کے ساتھ فلسطین کی بازیابی ،مسجد
اقصی کا تحفظ اور اسرائیلوں کے مظالم سے اہل غزہ کو محفوظ رکھنا او آئی سی
کے اغراض ومقاصد میں سر فہرست ہے ۔
ہر تین سال پر اسلامی تعاون تنظیم میں پالیسی ترتیب دینے کیلئے تمام رکن
ممالک کے سربراہوں کا اجلاس منعقد ہوتا ہے اور سال میں ایک مرتبہ فیصلوں پر
عملدرآمد کی صورتحال اور غور وخوض کے لئے وزرائے خارجہ کا اجلاس طلب کیا
جاتا ہے۔او آئی سی کا مستقل دفتر سعودی عرب کے شہر جدہ میں قائم ہے،اس وقت
او آئی سی کے سیکرٹری ایاد بن امین مدنی ہیں جن کا تعلق سعودی عرب سے ہے،
وہ 31جنوری 2014ء سے اس عہدے پر فائز ہیں۔او آئی سی کو متحرک وفعال رکھنے
اور اپنے مقصد میں کا آرمد بنانے کیلئے مندرجہ ذیل کمیٹیاں بھی قائم ہیں ۔القدس
کمیٹی۔اطلاعات و ثقافتی معاملات کی قائمہ کمیٹی۔اقتصادی و تجارتی معاملات
کی قائمہ کمیٹی۔سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں تعاون کی قائمہ کمیٹی ۔اسلامی
کمیٹی برائے اقتصادی، ثقافتی و سماجی معاملات۔مستقل تجارتی کمیٹی، ان کے
علاوہ رکن ممالک کے شہروں میں ذیلی کمیٹیوں کے دفاتر بھی قائم ہیں ۔
اسلامی تعاون تنظیم کے اب تک کل تیرہ سربراہ اجلاس ہوچکے ہیں ،دنیا کے
مختلف مقامات پر تیرہ مرتبہ مسلم ممالک کے رہنما ایک ساتھ جمع ہوچکے ہیں
لیکن وہ اب تک لفظوں کی دنیا سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں ،نششتتن ،گفتن اور
برخاستن سے آگے کچھ نہیں کرپارہے ہیں ،ہر اجلاس میں امت مسلمہ کے مسائل کو
حل کرنے کا دعوی کرنا ،امت کو در پیش مشکلات سے نجات دلانے کا عزم کرنا اور
عالم اسلام کی مشترکہ قیادت کا دم بھر نا اس تنظیم کی شناخت بن گئی ہے ۔
حالیہ دنوں میں 14/15 اپریل 2016 کو تنظیم کا تیرہواں اجلاس ترکی کی صدارت
میں استنبول میں منعقد ہوا ہے جس میں ایک مرتبہ پھروہی پرانے جملے دہرائے
گئے ،عالم اسلام کے مسائل کو حل کرنے کا دعوی کیا گیا ،اتحاد اتفاق قائم
کرنے کی اپیل کی گئی ،دوسروں کی دہلیز پر دستک دینے کے بجائے ازخود معاملات
حل کرنے کی ضرورت و اہمیت بتائی گئی ۔خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان نے
کہاکہ ہم امت مسلمہ کے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں ،مسئلہ فلسطین کا حل
ہمارا اولین مشن ہے ، دہشت گردی کے خاتمہ کے ساتھ بیرونی تسلط سے آزادی
چاہتے ہیں،انہوں نے مزید کہاکہ’’ آج ہمارے عالم اسلام کو درپیش تنازعوں اور
بحرانوں کے ضمن میں متعدد اسلامی ملکوں کو اپنے امور میں مداخلت، فتنوں کے
بھڑکائے جانے، تقسیم اور ٹوٹ پھوٹ، فرقہ وارانہ اور مسلک پرستانہ نعروں کی
گونج کا سامنا ہے۔ ہمارے امن و استحکام کو متزلزل کرنے کے لیے مسلح
ملیشیاؤں کو استعمال کیا جارہا ہے تاکہ رسوخ اور غلبہ پایا جاسکے، یہ تمام
چیزیں ہم سے ایک سنجیدہ رویے کا مطالبہ کرتی ہیں تاکہ ان مداخلتوں کو روکا
جاسکے اور عالم اسلام کے امن اور سلامتی کو برقرار رکھا جاسکے‘‘ ۔ایرانی
صدر حسن روحانی نے بھی اپنے خطاب میں کہاکہ اسلامی ممالک میں جاری دہشت
گردی اور تشدد کی وجہ سے اسلامی ممالک علمی اور اقتصادی بلکہ ہر لحاظ سے
پیچھے رہ جائیں گے اور دشمنوں کو ہمارے اوپر حکومت کرنے کا موقع مل جائے گا
۔ اسلامی ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنے کھوئے ہوئے اقتدار کو حاصل کرنے کے لئے
باہمی اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کریں اور اسلامی ممالک میں جاری دہشت
گردی کا سنجیدگی کے ساتھ مقابلہ کریں۔میزبان ملک ترکی نے دہشت گردی اور
تشدد کو عالم اسلام کا سب سے بڑا مسئلہ گردانتے ہوئے کہا کہ پہلے القاعدہ
تنظیم کی وجہ سے افغانستان تباہ ہوا اور اب داعش تنظیم، حرکت الشباب اور
بوکوحرام کے سبب یہ امر پھر سے دہرایا جارہا ہے۔ترکی کے صدر نے مغربی ممالک
کے دہرے معیار کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ’’ان ممالک نے
انقرہ، استنبول اور لاہور حملوں سے تو چشم پوشی کرلی اور تمام توجہ برسلز
پر مرکوز کردی‘‘انہوں نے کہا کہ میں دنیا کے ممالک کو پکار کر کہتا ہوں کہ
سیکورٹی اور مالی سطح پر انسداد دہشت گردی کے لیے ایک سنجیدہ آپریشن کا
آغاز کیا جائے۔بہت سے مسلمان اپنے ملکوں میں قتل و غارت گری، ظلم اور
زیادتی کے شکار ہیں، اسلام دشمنی کا مظہر پروان چڑھ رہا ہے اور مغربی دنیا
مسلمانوں کے لیے ایک خطرناک عالم میں تبدیل ہورہی ہے‘‘۔استنبول کے اجلاس
میں اس کے علاوہ جن مسائل پربات چیت ہوئی ان میں کمزور ریاستی
نظام،جہالت،ناخواندگی،غربت، بے روزگاری ،ماحولیاتی خطرات،ناقص شہری منصوبہ
بندی،مساوی حقوق کی کمی ،خواتین پر تشدد ، امداد انسانی اور محدود سرمایہ
کاری بھی شامل تھے ۔
امت مسلمہ کا سب سے بڑا مسئلہ ’’مسئلہ فلسطین‘‘ ہے ، اسی کے پس منظر میں یہ
تنظیم قائم ہوئی تھی لیکن 46 سالوں کا طویل عرصہ گزرجانے کے باوجود دیگر
امور کے ساتھ فلسطین کا مسئلہ بھی حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ
ہوتاجاہارہے ،غزہ کا محاصرہ سب سے بڑا انسانی المیہ ہے ،انسانیت ناقابل
بیان بحران سے دوچارہے ،مصر کی سرحد بند ہونے کی وجہ سے اہل غزہ جانوروں سے
بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ،اپنی پریشانیوں سے تنگ آکر سال رواں غزہ
کا محاصرہ ختم کرانے کے سلسلے میں فلسطین کی سرکاری کمیٹی نے ایک بیان جاری
کرکے اسلامی تعاون تنظیم کے تیرہویں سربراہی اجلاس کے شرکاء سے درخواست کی
تھی کہ غزہ کے محاصرے کو ختم کرانے کے مسئلے کو اپنے ایجنڈے میں سر فہرست
قرار دیں۔مصر پر دباؤ بنائے کہ وہ غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کے لئے مصر کی
گذر گاہ رفح کھول دے اور مسافروں بالخصوص بیماروں اور طلباء کی آمد ورفت کے
لئے سہولتیں فراہم کریں ،لیکن افسوس کہ او آئی سی کے رکن ممالک ہی فلسطین
کے مسئلے کو پیچیدہ بنارہے ہیں ،ایک طرف مصر نے اپنی سرحدیں بند کررکھی ہے
تو دوسری طرف سعودی عرب حماس کودہشت گرد جماعت قراردینے کے ساتھ مصر کی
مکمل حمایت کررہاہے۔ |
|