ملک کی فضا کو مکدر کرنے کی کوشش
(Falah Uddin Falahi, India)
کسی بھی جمہوری ملک کے لئے چار ستون کا
ہونا ضروری ہوتا ہے ۔جس میں حکومت ،عدلیہ ،مقننہ اور ذرائع ابلاغ شامل ہیں
۔اب تک حکومت اور عدلیہ پرمختلف طرح کے الزامات لگتے رہیں ہیں اور وقتاً
فوقتاً کچھ ایسے حالات بھی آئے اور بے نقاب ہوتے گئے جس کو دیکھ کر ہر
انصاف پسند طبقے کو پشیمانی سے دوچار ہونا پڑا ۔جہاں تک حکومت کی بات ہے تو
اٹھا پٹک کو ہی جمہوریت کی جان تصور کی جاتی ہے ۔اور اس میں کوئی شک نہیں
کہ کسی بھی جمہوری ملک میں اس طرح کا ہونا کوئی معیوب بات نہیں ہے ۔لیکن
وہیں عدلیہ کو چلانے اور انصاف کے تقاضے کو پورا کرنے میں اس ادارے نے بھی
انصاف پسند طبقے کو مایوسی سے دوچار کرنے کی کوشش کی ہے ۔کبھی جانب دارانہ
طور سیاسی دباؤ کی بنیاد پر عدلیہ اپنے تقاضے کو پورا کرنے میں ناکام رہی
تو کبھی خود عدلیہ کی حفاظت کرنے والوں نے عدالت کے احاطے میں دنیا کے
سامنے وہ کردار ادا کیا جس سے ہندوستانیوں کا سر شرم سے جھک گیا ۔انہوں نے
جرائم پیشہ افراد کی طرح لکھنوں سے لیکر دہلی تک عدالت کے احاطے میں ہڑدنگ
مچائی جس سے عدلیہ کی ساخ بھی مجروح ہوئی ۔کبھی یہ بھی دیکھا گیا کہ کسی
ملزم کی پیروی کرنے والے وکیل پر خود وکیلوں نے احاطے میں حملہ بول کر اسے
لہو لہان کر ڈالا ،اس طرح کے واقعات کچھ عرصے سے زیادہ ہو رہے ہیں ۔جس سے
جمہوری نظام پر سوالیہ نشان لگنے لگاہے ۔وہیں ذرائع ابلاع جس کو حکومت سے
باالکل آزاد رکھا گیا اس نے بھی کچھ ایسے ایسے نمونے پیش کئے جس کو دیکھ کر
عوام کا غصہ اس قدر بھڑکا کہ اس نے ٹی وی اور نیوز چینل کو دیکھنا بھی بند
کرنے لگے اور بے بانگ کہا جانے لگا کہ نیوز چینل پیڈ نیوز پیش کرتا ہے یا
پھر جرائم کو بڑھانے کا کام کررہا ہے ۔جے این یو کے معاملے میں کچھ نیوز
چینل نے وہ کردار ادا کیا جو کوئی سماج دشمن عناصر کر تا ہے ۔اس کا مظاہرہ
دنیا نے انکھوں سے دیکھا ۔لیکن ذرائع ابلاغ ایک ایسا پیشہ ہے جو زیادہ دنوں
تک کسی کا غلام بن کر نہیں رہ سکتا ہے اور نہ زیادہ پیڈ نیوز چلا سکتا ہے
چونکہ ایسا کرنے سے اس کے لئے خودکشی کرنے کے متراد ف ہوتا ہے ۔اس لئے آزاد
خیالی اور انصاف کے تقاضے کو پورا کرنے کی سمت وہ آگے بڑھتا رہتا ہے ۔یہی
وجہ ہے کہ بہت سے معاملات میں نیوز چینل نے وہ کردار ادا کیا کہ سماج دشمن
عناصر خود انہیں کے دشمن نظر آنے لگے ۔حال میں کچھ ایسا ہی دیکھنے میں آرہا
ہے لیکن کچھ چینل ہیں جو ابھی بھی آگ میں گھی ڈالنے کا کام کر رہے ہیں جن
کی آواز پر شر پسند عناصر سر اٹھا رہے ہیں لیکن وہیں پر ذرائع ابلاع کا ایک
بڑا طبقہ حق کی آواز اٹھانے میں کامیاب ہے ۔اس کی تازہ مثال دہلی میں ہوئے
ڈاکٹر نارنگ کے قتل معاملے کا ہے ۔شر پسند عناصر نے جس بے رحمی سے ڈاکٹر پر
حملہ کر قتل کر دیا اس سے ہر انسان رنجیدہ ہی نہیں بلکہ قصور واروں کے خلاف
سخت سے سخت سزا دینے کی آواز بلند کی ہے ۔یہ ہر کوئی جانتا ہے کہ دہلی کے
جھگی جھوپڑی شر پسندوں کی اماج گاہ ہے ۔وہاں تمام طرح کے جرائم پیشہ افراد
رہتے ہیں ۔چونکہ ان کے پاس کچھ چوٹھے موٹے کام ہی ہوتے ہیں اور اخراجات بھی
ان کے محدود ہوتے ہیں اس لئے وہ اپنے آپ کو زیادہ آزاد خیال کرتے ہیں اور
دہلی کی سڑکوں ،بسوں وغیرہ میں جرائم کو انجام دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں
۔یہ الگ موضوع ہے کہ دہلی جیسے بڑے شہر میں جھگی کا ہونا فائدہ مند ہے یا
نقصاندہ ۔لیکن جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے انہوں نے اس واقعہ کو ایک بڑا
حادثہ اور کرائم کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے رپورٹ چلائی جس کو شر پسند عناصر
فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کو شش کر رہے ہیں ۔اسی لئے انہوں نے متعدد نیوز
نیوز چینلوں کے جرنلسٹوں کے نمبر فیس بک پر جاری کر کے دھمکی دی ہے ۔ اسی
طرح دہلی کی پولیس کمشنر کو بھی دھمکی مل رہی ہے چونکہ انہوں نے اس واقعہ
کو ایک کیس کے چشمے سے دیکھا اور پوسٹ کیا ہے کہ اس معاملے کو فرقہ وارانہ
رنگ نہ دیا جائے ۔لیکن ان تمام باتوں سے واضح ہے کہ کچھ چینل نے اب تک اپنے
بحث کا موضوع اسی کیس کو بنایا ہوا ہے اور اسے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی
کوشش میں مصروف ہے ۔جس سے چوتھے ستون کی روح مجروح ہورہی ہے ۔اس طرح کی بحث
کو آگے برھانے سے ہی شر پسند وں کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں اور ان کے اندر
اشتعال پایا جا رہا ہے ۔اس لئے اس بحث پر لگام لگنا چاہئے ۔
|
|