نائن الیون کی ذمہ داری سعودی عرب پر ڈالنے کی سازشیں

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

امریکی صدر اوبامہ کا دوروزہ دورہ سعودی عرب اختتام پذیر ہو چکا ہے۔ اپنے اس دوران کے دوران انہوں نے شاہ سلمان بن عبدالعزیزسے ملاقات کی اور دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والی سردمہری کے علاوہ خطہ کی تازہ ترین صورتحال پر گفتگو کی۔ امریکی صدر الریاض میں ہونیو الے جی سی سی اجلاس میں بھی شریک ہوئے اور خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک کے سربراہوں سے بھی ملاقات کی۔ اجلاس کے آغاز سے قبل امریکی صدر اور دوسری خلیجی لیڈروں نے مسکراتے چہروں کے ساتھ تصاویر بنوائیں مگراس دوران لب کشائی نہیں کی۔بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں امریکی صدر کے دورہ سعودی عرب کے دوران ان کے سردمہری سے استقبال کی خبریں بھی بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں زیر بحث ہیں۔یہ دورہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے کہ جب امریکی میڈیا اور بعض سیاستدانوں کی طرف سے گمراہ کن پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ نائن الیون کے حملوں میں مبینہ طو رپر سعودی عرب ملوث تھا اور یہ کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ کیلئے جہاز اغواء کرنے والے انیس میں سے پندرہ افراد‘اسی ملک کے شہری تھے۔نائن الیون حملوں کی سعودی عرب نے ہمیشہ مذمت کی اور اس امر سے انکار کیا ہے کہ اس حوالہ سے ان کی سرزمین استعمال نہیں ہوئی۔ ان حملوں کے بعد امریکہ کی جانب سے جو تحقیقاتی کمیشن بنایا گیا اس نے بھی قرار دیاتھا کہ سعودی عرب ان حملوں میں کسی طور ملوث نہیں اورنہ ہی اس سلسلہ میں کسی قسم کے کوئی ثبوت ملے ہیں لیکن اس کے باوجود منظم منصوبہ بندی کے تحت اس پروپیگنڈا کو ہوا دی جارہی ہے۔وائٹ ہاؤس کی طرف سے 28صفحات پر مشتمل ایک نام نہاد خفیہ رپورٹ کا بھی شوشہ چھوڑا گیا اور کہا جارہا ہے کہ اسے قومی سلامتی کی وجہ سے پہلے شائع نہیں کیا گیا تاہم اس وقت ان پر امریکی سینیٹ کے بعض ارکان اور متاثرین کے اہل خانہ کی طرف سے شدید دباؤ ہے کہ اس رپورٹ کے آخری حصہ کو افشا کیا جائے جس میں حملے کا ذمہ دار مبینہ طور پر سعودی عرب کو ٹھہرایا گیا ہے۔ یہ بھی کہاجارہا ہے کہ نائن الیون حملوں میں مارے جانے والے امریکی سعودی شاہی خاندان، سعودی بینکوں اور رفاہی اداروں کو اس واقعہ کا ذمہ دار ٹھہرانے کیلئے عدالت کے دروازہ پر دستک دینے کی کوششیں کر رہے ہیں۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سارا امریکی میڈیا اس وقت بے بنیاد پروپیگنڈا پر مبنی یہ خبریں نشر کر رہا ہے جس کا مقصد صرف سعودی عرب پر دباؤ بڑھانا ہے لیکن امریکی صدر باراک اوبامہ کو یہ بات بخوبی معلوم ہو چکی ہو گی کہ انہوں نے حال ہی میں جس سعودی عرب کادورہ کیا وہ ماضی سے بہت مختلف ہے اور نہ صرف یہ کہ اس وقت یہ34 مسلمان ملکوں کے اتحاد کا صدر دفتر ہے بلکہ اس کی پالیسیوں میں زبردست تبدیلی آچکی ہے جسے پوری دنیا میں محسوس کیا جارہا ہے۔

امریکہ اور سعودی عرب میں پیدا ہونے والی کشیدگی واضح طو رپر محسوس کی جاسکتی ہے اور اس کشیدہ ماحول کا ذمہ دار بھی امریکہ خود ہے جس کی طرف سے مسلسل دوہرے معیار کا مظاہرہ کیا جاتارہا ہے۔ وہ سعودی عرب کو اپنا اتحادی کہتا رہا اور بہت فائدے اٹھائے گئے لیکن درحقیقت اندرونی طور پر مسلسل سعودی عرب کو کمزور کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ کہاجاتا ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین اختلافات میں شدت اس وقت پیدا ہوئی جب امریکہ نے مصر کی ایک مذہبی و سیاسی جماعت کی حمایت پر اصرا ر کیا۔ پھر شام کے مسئلہ نے شدت اختیار کی تو وہی امریکہ جو بشارالاسد کی اعلانیہ مخالفت کرتا تھا اور ابھی تک اس کا دعویدار ہے‘ نے بشار حکومت کیخلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پرکسی قسم کی کاروائی سے انکار کرتے ہوئے اپنے سابقہ موقف سے یوٹرن لے لیا۔ اس دوران روس اپنے اتحادی ملکوں کے ساتھ مل کر شام کے نہتے سنی مسلمانوں پر بمباری کرتا رہالیکن امریکہ کی طرف سے اس ظلم کا ہاتھ روکنے کیلئے کوئی کردارا دا نہیں کیا گیا جس پر یہ معاملہ بہت زیادہ طول پکڑ گیا اور لاکھوں مسلمان مہاجر بن کر ترکی کی سرحد پر خیموں میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اسی طرح جب یمن کے مسئلہ کا آغاز ہوا۔ ایک منتخب حکومت کے سربراہ کوجلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا گیا۔ حوثی باغیوں کی طرف سے سعودی عرب کو کھلی دھمکیاں دی جانے لگیں اور اس کی سرحدوں پر حملے شروع کر دیے گئے تو اس پر بھی امریکی حکومت نے خاموشی اختیار کئے رکھی اور پھر ایسے ہی جب داعش جیسے گروہ پروان چڑھے اور دوسرے ملکوں کی طرح سعودی عرب میں بھی خودکش حملے کئے جانے لگے تو بجائے اس کے کہ اس حوالہ سے سعودی حکومت کا کھل کر ساتھ دیا جاتا۔ داعش کے جہاز سمندروں کے ذریعہ کھلے عام تیل کی تجارت کرتے رہے اور پھر اس کمائی سے مسلمان ملکوں کو عدم استحکام سے دوچار کیا جانے لگا مگر امریکیوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی ۔ سعودی عرب یہ بات بھی شدت سے محسوس کرتا ہے کہ اس کا واضح جھکاؤ ایران کی طرف ہے اور خلیج میں اسے جن مسائل کا سامنا ہے اس کے حل کی کوششوں میں سعودی حکومت کا ساتھ نہیں دیا گیابلکہ کچھ عرصہ قبل اوبامہ کی طرف سے یہ کہا گیا کہ سعودی عرب امریکی خارجہ پالیسی سے مفت میں فائدے اٹھاتا رہا ہے جس پر سعودی عرب کے خفیہ ادارے کے سربراہ شہزادہ ترکی الفیصل کو ایک عربی اخبار میں مضمون لکھ کر جواب دینا پڑا کہ ہم مفت میں فائدے اٹھانے والے نہیں ہیں۔انہوں نے لکھا کہ شام، یمن اورعراق میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑکانے کا الزام لگانے والے اوبامہ کیا وہ دن بھول گئے ہیں جب وہ ایران پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام لگاتے تھے۔ امریکی صدر کے اس بیان سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان ماحول سخت کشیدہ ہو چکا ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ امریکیوں کو شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی طرف سے مسلم ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے اور عالم اسلام کے اتحاد کی کوششیں اچھی نہیں لگیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان ملک ہمیشہ ان کے باجگزار بن کر رہیں یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی 34ملکی اتحاد کی خبریں آئیں اور یہ کوششیں کی گئیں کہ کسی طرح مسلمان ملکوں کو اتحادی ممالک کے کلچ سے نکالا جائے انہیں یہ بات ہضم نہیں ہو سکی۔ سعودی عرب کی نئی قیادت نے اپنے حالیہ دور اقتدار میں کئی جرأتمندانہ اقدامات اٹھائے ہیں جس سے بیرونی قوتیں تشویش میں مبتلا ہو گئی ہیں۔ امریکہ کی طرف سے پندرہ سال بعد نائن الیون کا ذمہ دار سعودی عرب کو ٹھہرانے کا پروپیگنڈا بھی اسی تلملاہٹ کا نتیجہ ہے۔ سعودی عرب کی طرف سے ان دھمکیوں کے بعد جب یہ کہا گیا کہ اگر اسے نائن الیون کے واقعہ کا ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی گئی تو وہ امریکہ میں موجود اپنے 750ارب ڈالر کے اثاثے فروخت کر دے گا تو امریکی ایوانوں میں بھونچال آگیا اور کہا جانے لگا کہ انہیں امید ہے کہ سعودی عرب ایسا کر کے عالمی معیشت کو غیر مستحکم نہیں کرے گا۔ سعودی عرب کے مفت میں فائدے اٹھانے کی باتیں کرنے والے اوبامہ نے بھی کہہ دیا کہ اگر ایسا کوئی بل آتا ہے تو وہ اس پر دستخط نہیں کریں گے اور پھر واضح یقین دہانی کروانے کیلئے اپنی اعلیٰ قیادت کے ہمراہ سعودی عرب کے دورہ پر جا پہنچے۔امریکی صدر کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر سعودی عرب کیخلاف امریکہ کی عدالتوں میں مقدمہ چلتا ہے تو پھر دوسرے ملکوں کو بھی یہ حق دینا ہو گا کہ ان کے ملکوں میں بھی امریکہ کیخلاف مقدمات چلائے جاسکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب تو نائن الیون کے واقعہ میں ملوث نہیں ہے البتہ امریکیوں کی طرف سے اس بہانے عراق اور افغانستان میں لاکھوں مسلمانوں کا خون ضروربہایا گیاہے۔بہرحال امریکی صدر اوبامہ کی طرف سے خلیجی ملکوں کے سربراہوں سے ملاقاتوں کے دوران ان کے تحفظات دور کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں لیکن ان کی یقین دہانیوں پر کسی طور بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ امریکی قیادت کے دیے گئے حالیہ بیانات محض الفاظ کا مجموعہ ہیں۔ ان کی کوشش یہ ہے کہ ایران کے ساتھ اس کے جوہری معاہدہ پر کوئی خلیجی ملک اعتراض نہ کرے اور وہ سعودی عرب سمیت سب کو مطمئن رکھ سکے لیکن سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ملک یہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں خالی خولی یقین دہانیاں کروائی جارہی ہیں جبکہ بند دروازوں کے پیچھے امریکہ ان کے ساتھ نہیں بلکہ ایران کے اقدامات کی حمایت کر رہا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ سعودی عرب کو اپنے اصولی موقف پر کاربند اور جرأتمندانہ پالیسیوں کو جاری رکھنا چاہیے او رمسلم ممالک کو ساتھ ملا کر مضبوط دفاع کی طرح اپنی معیشت کو بھی مستحکم بناناچاہیے۔ نائن الیون کا مقدمہ سعودی عرب پرتو نہیں بنتا تاہم اس کی آڑ میں لاکھوں مسلمانوں کی شہادت کا مقدمہ امریکیوں پر ضرور بنتا ہے۔ تمام مسلمان ملکوں کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کے روحانی مرکز سعودی عرب کے خلاف کی جانے والی سازشوں کے توڑ کیلئے متحد ہو کر کردار ادا کریں۔
Habib Ullah Salfi
About the Author: Habib Ullah Salfi Read More Articles by Habib Ullah Salfi: 194 Articles with 126351 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.